فاختہ ایک ایسا پرندہ ہے جسے انسانیت نے امن کی علامت تسلیم کر رکھا ہے۔ مکہ مکرمہ کے قبائل ایک طویل عرصہ تک باہم جنگ و جدل اور خونریزی کرتے رہے۔ پھر ایک معاہدہ طے پایا جسے ''حلف الفضول‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی عمر مبارک تب 20 سال تھی‘ جب آپﷺ نے اس معاہدے میں شرکت فرمائی۔ اس معاہدے کی پانچ شقیں تھیں۔ 1۔ ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی قبیلے سے ہو اور اس وقت تک مظلوموں کا ساتھ دیا جائے گا جب تک ان کو ان کا حق نہ مل جائے۔ 2۔ مسافروں کی حفاظت کریں گے۔ 3۔ ملک میں ہر لحاظ سے امن و امان قائم کریں گے۔ 4۔ مسکینوں اور کمزوروں کی مدد کرتے رہیں گے۔ 5۔کسی ظالم اور غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔ قارئین کرام! حضور رحمت دوعالمﷺ کو اس معاہدے میں شریک ہونا اس قدر پسند تھا کہ بعد ازاں آپﷺ دورِ نبوت اور دورِ حکمرانی میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ ''آج بھی مجھے ایسے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا‘‘ (سنن البیہقی، مسند احمد)۔ موجودہ حالات میں امن پسند مسلمانوں اور مسیحیوں نے امن کی فاختہ بن کر جو کردار ادا کیا اسے سامنے رکھیں تو یاسر عرفات مرحوم یاد آ جاتے ہیں‘ جنہوں نے اپنی تنظیم کا سمبل ہی فاختہ کو بنایا تھا۔ اس کے منہ میں زیتون کی شاخ تھی۔ پیغام یہ تھا کہ ہمارے حضورﷺ پر قرآن کی ایک سورۃ نازل ہوئی جس کا نام ''التین‘‘ ہے یعنی انجیر۔ انجیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے زیتون کی قسم کھائی ہے اور اس کے بعد ''بلد الامین‘‘ یعنی مکہ مکرمہ کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ یوں ہم مسلمان سارے مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں۔ یہاں امن ہو گیا تو سارے جہان میں امن ہو جائے گا۔
غزہ کے مفتی اعظم محمود یوسف محمد الشوبکی سے میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے تعاون کی کیا کیفیت ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر طرح کی مدد کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سالوں سے وہ امن کی فاختہ بن چکے تھے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی امن کی فاختہ بننے کا فوراً اظہار کیا‘ جب پاکستان کے حکمرانوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ مل کر سعودی عرب اور ایران کی صلح کیلئے کردار ادا کیا۔ یوں پاکستان نے بھی فاختہ کا کردار ادا کیا۔ صدر ابراہیم رئیسی جو اَب ہمارے درمیان نہیں رہے‘ وہ چند ہفتے قبل تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے تھے اور سرحدوں پر دہشت گردی کی وجہ سے جو بدمزگی پیدا ہوئی تھی‘ وہ اس قدر عارضی ثابت ہوئی کہ ایران کے صدر اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئے۔ فاختہ کی یہ پرواز اس قدر مفید ثابت ہوئی کہ پاک ایران تعلقات انتہائی بلندیوں کی طرف محو پرواز ہونے لگے۔ سید ابراہیم رئیسی اور جنرل عاصم منیر نے پاک ایران فاختہ کے منہ میں زیتون کی شاخ تھما دی‘ جو دنیا میں امن کا سمبل ہے۔ ابراہیم رئیسی اور ان کے تمام ساتھیوں کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اللہ رحمان رحیم تمام ہلاک شدگان کو شہادت کا رتبہ عطا فرمائے‘ آمین!
محترم ابراہیم رئیسی پڑوسی ملک آذربائیجان کے ساتھ بھی تعلقات کو بہت بہتر بنا چکے تھے‘ اس میں یقینا پاکستان کا بھی کردار ہوگا کہ پاکستان نے آذربائیجان کی آرمینیا کیخلاف خوب مدد کی تھی۔ اب ایران اور آذربائیجان نے مشترکہ ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔ آپسی امن کی فاختہ محو پرواز تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپسی کا بلاوا آ گیا۔ سید ابراہیم رئیسی کی روح آسمان کی طرف پرواز کر گئی جبکہ جسمانی اور مادی فاختہ مشہد میں مدفون ہوئی۔ مجھے امید اور یقین ہے امن کی فاختہ کا جو کردار ہے‘ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ محو پرواز رہے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ محترم ابراہیم رئیسی کی تدفین جمعرات کو ہوئی جبکہ ایک دن قبل یعنی بدھ کے روز یورپ کے تین ملکوں سپین‘ ناروے اور آئرلینڈ نے اعلان کرکے دنیا بھر کو آگاہ کیا کہ اسرائیل نے غزہ کے مظلوم لوگوں پر ظلم کیا ہے‘ ہم فلسطین کو ایسی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جو خودمختار اور آزاد ہو۔ محترم اسماعیل ہنیہ تہران میں صدر ابراہیم رئیسی کا جنازہ پڑھ رہے تھے کہ اسی موقع پر دنیا بھر نے مذکورہ خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا۔ نیتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع نے فلسطینیوں کے خلاف جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا‘ اب انہیں دنیا نے تسلیم کر لیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ کمزور‘ پُرامن اور مظلوم فلسطینی فاختائوں کی یہ بڑی فتح ہے۔
صحابی رسول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی فوج کے آرمی چیف حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی کمان میں اہم ترین جرنیل تھے‘ جن کے ہاتھوں شام‘ لبنان‘ اردن اور غزہ سمیت فلسطین وغیرہ کے علاقے فتح ہوئے۔ آخر پر مصر فتح ہوا اور آپؓ مصر کے گورنر تھے۔ مذکورہ سارے علاقے مسیحی حکمرانوں سے حاصل کیے گئے تھے‘ اس لیے مسیحی افواج اور عوام کے رویوں کو انہوں نے خوب دیکھا رکھا تھا۔ حضرت مستوردؓ نے حضرت عمروؓ بن عاص سے کہا: میں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ''قیامت (قریب) آئے گی تو رومی (مسیحی) لوگوں کی اکثریت ہو گی‘‘۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا: غور کر لو تم کیا کہہ رہے ہو؟ مستوردؓ کہنے لگے: میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے اللہ کے رسولﷺ سے سنا ہے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا: اگر تم نے حضورﷺ سے یہ سنا ہے تو پھر ان لوگوں (مسیحی لوگوں) کے بارے میں (میرے تجربات پر مبنی) چار خصوصیات سن لو اور آخر میں ایک پانچویں خوبصورت خصوصیت بھی ملاحظہ کر لینا۔ 1۔ یہ لوگ آزمائش کے وقت سب سے بڑھ کر حوصلہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ 2۔ ان پر جب مصیبت آتی ہے تو باقی قوموں کے مقابلے میں یہ جلد ہی سنبھل جاتے ہیں۔ 3۔ یہ جنگ میں پسپائی کے بعد سب لوگوں کی نسبت جلد ہی دوبارہ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ 4۔ مسکینوں‘ کمزوروں اور یتیموں کیلئے باقی لوگوں کے مقابلے میں ان کے اندر بھلائی زیادہ ہے۔ 5۔ سب قوموں سے بڑھ کر یہ بادشاہوں کے ظلم کو روکنے والے لوگ ہیں‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الفتن)
عالم اسلام اور دیگر غیر مسیحی دنیا سے کہوں گا کہ وہ آخری رسولﷺ کے فرمان کو دیکھ لیں‘ آج قربِ قیامت کا زمانہ ہے اور مسیحی دنیا کی آبادی آج بھی ساری دنیا کی قوموں سے زیادہ ہے۔ مزید برآں! حضورﷺ کے صحابی جرنیل کا تجزیہ بھی دیکھ لیں جو انہوں نے بیان کیا‘ تاریخ اس کی گواہی دے گی۔ مسلمانِ عالم بالخصوص اپنے دیس پاکستان میں اور امورِ خارجہ سے وابستہ حضرات سے عرض کروں گا وہ مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسی وضع کریں اور جذباتی فیصلوں سے بچیں۔ آخر پر میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں امریکہ کی تمام یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات کو کہ انہوں نے فلسطینی مظلوم و مقہور عورتوں اور بچوں‘ یتیموں اور مسکینوں کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کے عوام کو بھی سلام اور سیلوٹ۔ یو این اور ان کے اداروں کے جو لوگ وہاں خدمات ادا کرتے ہوئے جان سے گئے‘ ان کو اور ان کے لواحقین کو سلام۔ امریکہ کی پرائیویٹ تنظیم نیشنل کچن کے لوگوں نے غزہ اور رفح میں ایسا کردار ادا کیا کہ آغازِ جنگ کے چند دن بعد ہی انہوں نے عارضی کچن بنائے اور کھانا فراہم کرنا شروع کر دیا۔ وہ زخمی ہوتے رہے‘ موت کے منہ میں جاتے رہے مگر خدمت میں لگے رہے۔ ان سب کو عقیدت اور محبت بھرا سلام! لاطینی امریکہ کے مسیحی ملکوں‘ جنوبی افریقہ کے لوگوں اور بعض حکمرانوں نے جو کردار ادا کیا‘ ان سب کو سلام! جن ملکوں کے حکمرانوں نے اسرائیل کے نیتن یاہو کو کھلی چھٹی دی‘ ان حکمرانوں کے خلاف اُنہی ملکوں کے عوام نکلے۔ یہ سب امن کی فاختائیں ہیں۔ ان سب کے کردار سے آنیوالے دنوں میں آزاد فلسطین کی صبح طلوع ہونے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر میں کیوں نہ کہوں کہ عالمی انسانیت باہم رشتہ دار ہے۔ اس پُرامن فاختہ کو بے شمار خراجِ تحسین‘ اس دعا کے ساتھ کہ اس کی پرواز جاری رہے۔