اللہ رحمان کے قرآن پر قربان کہ اپنے ماننے والوں کی کس عالیشان انداز سے رہنمائی فرمائی۔ ملاحظہ ہو: ''اے ایمان والو! اگر اللہ کے بندوں پر ظلم کے حوالے سے بدنام لوگ تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئیں تو خوب اچھی طرح چھان پھٹک کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو جائے کہ تم نادانی کیساتھ کسی قوم پر حملہ آور ہو جائو اور بعد میں اپنے اقدام پر شرمندہ ہوتے پھرو‘‘ (الحجرات: 6)۔ قارئین کرام! میں نے ''فَاسِقٌ‘‘ کا ترجمہ ''اللہ کے بندوں پر ظلم کے حوالے سے بدنام لوگ‘‘ کیا ہے۔ میں نے جب ''لسان العرب‘‘ کو کھولا تو امام جمال الدین ابن منظور بتاتے ہیں کہ ''فاسق‘‘ کا مطلب ''سیدھی راہ سے ہٹ جانا اور 'جور‘ یعنی ظلم کے راستے پر چلنا ہے۔ یاد رہے! چوہیا اپنے بل سے نکلتی ہے‘ چراغ کی بتی بستر پر پھینک دیتی ہے جس سے آگ لگ جاتی ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے اسے ''فویسقۃ‘‘ کہا ہے۔ جی ہاں! فسادی اور ظالم لوگ کہ جن کا کردار معاشرے میں نمایاں ہو‘ وہ جب کوئی خبر دیں تو تحقیق لازم ہے۔ پاک فوج کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چند دن قبل یہی آیت پڑھی اس کا ترجمہ کیا اور دنیا کو بتایا کہ تحقیق کر لیا کرو۔
کلبھوشن یادیو‘ جو انڈین فوج کا حاضر سروس افسر تھا‘ وہ پاکستانی علاقے سے گرفتار ہوا۔ اس نے دہشت گردی کے واقعات کا اعتراف کیا۔ وہ آج بھی پاکستان میں اپنے جرائم کی سزا بھگت رہا ہے مگر پاکستان نے حوصلے سے کام لیا۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو شہید کیا گیا۔ اس میں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت تھے مگر پاکستانی حکومت نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ 29 اپریل بروز منگل پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس کے ذریعے ناقابلِ تردید ثبوتوں کیساتھ بتایا کہ بھارتی آرمی کے میجر سندیب ورما کی نگرانی میں کس طرح صوبیدار سوریندر فون کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی ہدایات دیتا رہا ہے۔ پریس کانفرنس میں انکے وائس میسج بھی سنوائے گئے کہ بلوچستان سے لاہور تک میرا نیٹ ورک ہے۔ عبدالمجید نامی جس شہری نے انڈین فوج کے ہاتھوں فروخت ہو کر دہشت گردی کی اب وہ گرفتار ہو چکا ہے۔ اللہ اللہ! پاکستان اب بھی تحمل میں ہے۔ جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔ ہمارے چینی مہمانوں کو متعدد مرتبہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ سی پیک منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اس سب کے برعکس جب پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو انڈیا نے جنگ کا طبل بجانا شروع کر دیا اور بغیر تحقیق کے پاکستان پر الزام لگا دیا۔ اس پر ہمارے وزیراعظم شہبازشریف نے انڈیا کو پیشکش کی کہ وہ دنیا کے کسی آزاد اور غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے پہلگام واقعے کی تحقیقات کروا لے اور جو مجرم سامنے آئیں‘ اس پر ہم بھارت کے ساتھ کھڑے ہوں گے مگر انڈیا خود بھی ثبوت نہ دے سکا اور اس پیشکش کو بھی نظر انداز کر دیا اور جنگ کی تیاریوں میں لگ گیا۔ دنیا حیران ہے کہ ہندوتوا کی حکمرانی کا یہ کیسا انداز ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم اور آرمی چیف کے سامنے اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کا مبارک اسوہ ہے جس پر وہ عمل کر رہے ہیں۔ حضورﷺ کو جب ایک جنگ پر مجبور کر دیا گیا۔ آپﷺ جب دشمن کے سامنے صف آراء تھے تو اس وقت بھی حضورﷺ کی خواہش یہ تھی کہ جنگ سے بچنے کی کوئی راہ نکل آئے تو بہتر ہے۔ چنانچہ جونہی سورج ڈھلنے لگا تو حضورﷺ نے اپنے لشکر کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''اے لوگو! دشمن سے ملاقات کی خواہش مت کرو۔ اللہ سے محفوظ رہنے کی دعا مانگو مگر جب ان (دشمنوں سے) ملاقات ہو جائے (یعنی جنگ کا آغاز ہو جائے) تو پھر ڈٹ جائو۔ اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔پھر حضورﷺ نے دعا مانگی: اللھم منزل الکتاب ومجری السحاب وھازم الاحزاب اھزمھم وانصرنا علیھم‘‘۔ ترجمہ: ''قرآن نازل فرمانے والے اللہ! بادل چلانے والے‘ لشکروں کو شکست سے دوچار کرنے والے‘ ان دشمنوں کو شکست دیدے اور ان کے خلاف ہماری مدد فرما دے‘‘۔ (صحیح بخاری: 3025، صحیح مسلم: 4542)
پہلے وقتوں میں جنگی روایت تھی کہ دو فوجیں جب آمنے سامنے ہوا کرتی تھیں تو پہلے دونوں کے مابین مبارزت کا میدان سجتا تھا۔ کسی ایک جانب سے کوئی ایک شاہسوار نکلتا تھا اور وہ چیلنج دیتا تھا کہ ہے کوئی میرے مقابل آنیوالا؟ یہ مبارزت ختم ہوتی تھی تو عام جنگ ہوتی تھی۔ میدانِ مبارزت میں دو افراد اور پھر دو لشکر آپس میں بھڑتے تھے تو اس مڈھ بھیڑ کو حضورﷺ نے ''لقاء‘‘ کہا ہے۔ اس کا لفظی معنی ملاقات ہے۔ میں نے ریسرچ کی تو پتا چلا کہ انسانی تاریخ میں جنگ کی مڈھ بھیڑ پر یہ لفظ سوائے رحمۃ للعالمین حضورﷺ کے کسی اور نے استعمال نہیں کیا۔ اسکا مطلب واضح ہے کہ جنگ سے پہلے دونوں لشکروں کے بڑوں کی ملاقات ضروری ہے کہ شاید جنگ ٹل جائے اور امن سے معاملات طے پا جائیں۔ نہ رک پائے تو پھر لڑائی بھی ایک ملاقات ہے‘ اس میں جنگی اصولوں کا خیال رکھا جائے۔ عام لوگوں کو قتل نہ کیا جائے۔ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ تارک الدنیا عبادت گزاروں اور مزدوروں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائے‘ آبادیوں کو مسمار نہ کیا جائے۔ درختوں کو کاٹا نہ جائے۔ آگ سے جلایا نہ جائے۔ عبادت گاہوں کا خیال رکھا جائے۔
مکہ کے بت پرستوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں چار جگہ 'لقاء‘‘ یعنی ملاقات کہا ہے۔ اب ہم ان چاروں مقامات کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مڈھ بھیڑ ہو جائے تو ملاقات کا مطلب موت سے ملاقات ہے۔ ارشاد فرمایا ''جنگ سے قبل تم لوگ (شہادت کی) موت کی خواہش کیا کرتے تھے۔ جب جنگ ہوئی تو تم نے اس (سے ملاقات کر کے) دیکھ لیا۔ صورتحال یہ تھی کہ تم آنکھوں سے (خوب اچھی طرح موت کو) دیکھ رہے تھے‘‘ (آل عمران: 143)۔ لوگو! مندرجہ بالا منظر غزوہِ اُحد کا ہے۔ بدر کے برعکس احد میں یکدم جنگ کا پانسا ایسا پلٹا کہ ستر شہادتوں کا منظر دیکھنا پڑا اور بھاگم دوڑ کا منظر تھا۔ سبق یہی ہے کہ جنگ کی خواہش مت کرو لیکن جب وقت آ جائے تو پھر ڈٹ جائو۔ دوسرا مقام ملاحظہ ہو: ''اے ایمان والو! جب کفار سے ملاقات ہو تو دشمن کی جانب (سوائے جنگی جال کے) مت بھاگنا‘‘ (الانفال: 15)۔ تیسرا مقام: ''اے ایمان والو! جب کسی لشکر سے ملاقات ہو جائے تو قدموں کو جما کر لڑو۔ اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم (دنیا وآخرت میں) کامیاب ہو جائو‘‘ (الانفال: 45)۔ مندرجہ بالا آیات کا تعلق غزوہ احد سے ہے‘ جس میں پہلے فتح ہوئی مگر پھر پہاڑی درے والوں نے حضورﷺ کے حکم کو بھلا دیا تو فتح شکست میں تبدیل ہو گئی مگر اس شکست کے بعد اللہ نے پھر فتح عطا فرمائی مگر اس قدر فتح کہ دشمن مدینہ منورہ میں داخل ہوئے بغیر اسلامی لشکر سے خائف ہو کر واپس چلا گیا۔
اے اہلِ پاکستان! خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سیاسی اور مذہبی طبقے اپنے ملک کے دفاع کیلئے ایک ہو گئے ہیں۔ پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ آج تقاضا یہ ہے کہ اس کلمہ توحید ورسالت کو عملی طور پر اپنانے کا عہد اور عزم کریں۔ جناب عمران خان کا جو بیان سامنے آیا ہے‘ وہ قابلِ قدر اور قابلِ تحسین ہے۔ ابرار الحق اسی بیان کے سائے تلے واہگہ بارڈر پہنچے۔وہاں انہوں نے اپنا نیا ملی نغمہ پاک فوج کے جانبازوں کے جھرمٹ میں سنایا۔ پوری قوم ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے سلوگن کو سینے سے لگا چکی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کا مسئلہ پھر سے ایک نئی اور تازہ دم زندگی سے جوان ہو گیا ہے۔ پہلگام سے پہل کرکے خود نریندر مودی نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ جموں وکشمیر متنازع علاقہ ہے۔ یہ تنازع حل ہوگا تو امن کی پوشاک سلامت رہے گی۔