"AHC" (space) message & send to 7575

اللہ اکبر

عیدالاضحی ہو یا عیدالفطر‘ دونوں عیدوں کا حسن تکبیرات کے ساتھ ہے؛ یعنی اللہ کے بلند ذکر کے ساتھ ہے۔ گلیوں میں‘ بازاروں میں‘ مسجدوں میں‘ عید گاہوں میں ہر جانب تکبیرات کی آوازیں ہوتی ہیں۔ حاجی حضرات مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں تو ''لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائیں فضائوں میں عجب سہانا سماں باندھ دیتی ہیں۔ پانچ وقت اذان ہوتی ہے تو اس اذان کو جو مسلمان سنتا ہے‘ ساتھ ساتھ ان کلمات کو دہراتا چلا جاتا ہے۔ اذان سننے کے بعد جو مسنون دعا مانگتا ہے تو اس کا آغاز یوں کرتا ہے۔''اے اللہ! اس کامل دعوت کے رب‘‘ یعنی اذان ایک مکمل اور کامل دعوت ہے۔ اس دعوت میں چھ بار ''اللہ اکبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ آغاز چار بار اللہ اکبر کہنے سے ہوتا ہے اور اختتام میں دو بار اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ یاد رہے! جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کی چھ ہی جہتیں ہیں۔ پیغام یہ ہے کہ اوپر‘ نیچے‘ دائیں‘ بائیں‘ آگے اور پیچھے‘ جس جانب بھی دیکھیں اللہ ہی کی کبریائی ہے۔ انسان کو ہر سمت سے‘ ہر جہت سے تحفظ درکار ہے تو اس ہستی سے وابستہ ہونا ہو گا جس نے ان چھ سمتوں کو تخلیق فرمایا ہے۔ انہی چھ سمتوں نے انسان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ لہٰذا ان سمتوں میں جو بھی کوئی بڑی سے بڑی مخلوق ہے اللہ اس سے بھی بہت بڑا ہے۔ اللہ کے رسول حضور نبی کریمﷺ پر صدقے قربان‘ آپﷺ جب بھی بلند جگہ پر قدم مبارک رکھتے تو اللہ اکبر کہتے۔ جب نشیب میں اترتے تو ''سبحان اللہ‘‘ کا ورد کرتے۔ سبق یہ ہے کہ جب بلندی ملے تو اللہ کو نہیں بھولنا‘ کمزوروں پر بڑا بن گیا ہے تو اللہ کو یاد رکھنا۔ نیچے بھی تو نے ہی گرنا ہے۔ لہٰذا اپنے اللہ کو یاد رکھنا کہ وہ جو نیچے گراتا ہے خود کسی بھی پستی سے پاک ہے۔ وہ تو بلند ہی بلند ہے اور اکبر ہی اکبر ہے۔
جدید ترین جو دوربین ہے وہ جیمز ویب ہے۔ یہ وہ دوربین ہے جو سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ وہ دوربینیں جو زمین کے گرد گردش کر رہی ہیں اور زمین پر نصب دوربینیں ہیں‘ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ان سب کے رخ آسمان کی جانب ہیں۔ انسان کے علم کی ہزاروں سالہ تاریخ اب سائنسی عروج پر ہے۔ اس سارے عروج کا خلاصہ یہ ہے کہ دیکھی جانے والی جو کائنات ہے وہ اربوں‘ کھربوں نوری سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں کہکشائوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ زمین کے ایٹم‘ سمندروں کے پانیوں کے مالیکیولز سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کہکشائیں موجود ہیں۔ پھر ان کی الگ الگ اقسام ہیں۔ اور ایسے ایسے قوانین ہیں کہ ہماری فزکس ابھی وہاں موجود نہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہاں کیا کیا مخلوقات اور کیسے کیسے قوانین ہیں؟ اندازہ یہ ہے کہ وہ کائنات جو ہمیں نظر نہیں آ رہی وہ اتنی بڑی ہے کہ نظر آنے والی کائنات اس کے مقابلے میں زیرو کے سوا کچھ نہیں ہے۔
لوگو! اس کا مطلب ایک ہی ہے کہ ''اللہ اکبر‘‘ کا راج ہر طرف ہے۔ ہر جانب‘ ہر سمت میں اللہ ہی اللہ۔ اور وہ ہے ''اللہ اکبر‘‘۔ اذان جب کہی جاتی ہے تو جہاں تک آواز جاتی ہے وہاں کا ذرہ ذرہ‘ پتا پتا قیامت کے دن گواہی دے گا کہ اس موذن نے اذان میں اللہ کا ذکر کیا تھا۔ ذکر کرنے والے کے ذکر کی بھی یہی کیفیت ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں حدیث لائے ہیں کہ جو بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ذکر عرش کے گرد خوبصورت نورانی پتنگے کی صورت میں گردش کرتا ہے اور جس نے یہ ذکر کیا ہوتا ہے اس کے نام سے یہ گردش ہوتی ہے۔ سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کو جو یاد کرتا ہے اللہ اسے کیسے کیسے نوازتے ہیں۔ وہ سب کچھ قرآن میں بھی بتلایا گیا اور حضورﷺ نے بھی آگاہ فرما دیا۔ صحیح ابن خزیمہ اور ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث موجود ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: لبیک کہنے والا‘ جو بھی لبیک کہتا ہے‘ اس کے دائیں بائیں کے تمام درخت اور پتھر اس کے ساتھ لبیک کہتے ہیں‘ یہاں تک کہ دائیں بائیں سے زمین ختم ہو جاتی ہے۔ جی ہاں! ابن ماجہ میں ''مدر‘‘ کے لفظ کا اضافہ ہے؛ یعنی ہر وہ اینٹ جو کچی ہے یا پکی۔ وہ پتھر کی ہے یا کنکریٹ وغیرہ کی‘ وہ بھی لبیک کہتی ہے۔ اس زمین میں سمندر بھی آ گئے کہ سمندروں کے پانی کے قطرات اور پہاڑ اور کھائیاں اور درخت وغیرہ بھی یہی ترانہ گاتے ہیں۔ سبحان اللہ!
قارئین کرام! خلائی سائنسدانوں نے آبزروایبل یعنی دکھائی دینے والی کائنات کو ایک نکتہ بتایا ہے‘ اس کائنات کے مقابلے میں جو نظر نہیں آتی اور یہ نظر نہ آنے والی کائنات ہماری کائنات کے اس نکتے کے مقابلے میں یوں سمجھئے جسے ایک بڑے ریگستان میں ایک ریت کا ذرہ ہو۔ اب ہماری کہکشاں ملکی وے‘ ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین تو اس نکتے میں دکھائی ہی نہیں دے رہی۔ آہ! اس چھوٹی سی زمین کی خاطر انسان آپس میں لڑ رہا ہے۔ عالمی جنگوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ایٹم بموں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ چند انسان انسانیت کو ختم کرنے کی طرف تیزی کے ساتھ بھاگ رہے ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ ایٹمی بھاگم بھاگ میں سب کی بربادی ہے مگر یہ جانتے ہوئے بھی تکبر اور غرور کے مارے ہوئے لوگ اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں جس سمت میں انسانیت کی بربادی ہے۔
بات اتنی سی ہے کہ بھارت کشمیر سے پیچھے ہٹ جائے‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے‘ اسرائیل اہلِ غزہ پر ظلم بند کر دے‘ دنیا ظالمانہ ہاتھ پکڑ کر ان کو ہتھکڑی لگا دے‘ فلسطین کی آزاد ریاست بنا دے‘ امریکہ اور یورپ روس کو یقین دلا دیں کہ ناٹو آپ کے اتحادیوں اور پڑوسیوں کو ناٹو میں شامل نہیں کرے گا اور روس یوکرین سے پیچھے ہٹ جائے تو دنیا میں امن آ جائے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ روس اور یوکرین‘ دونوں کے لوگوں کا مذہب مسیحی آرتھوڈکس ہے۔ زبان بھی دونوں کی ایک ہے۔ نسل بھی ایک ہے۔ مگر بربادی جاری ہے۔ پاکستان نے بھارتی تکبر کے جواب میں مجبوراً ایٹمی قوت حاصل کی۔ ایران کو بھی مجبوراً ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ بڑی طاقتیں‘ جنہوں نے عدل کے ساتھ دنیا چلانے کا ایک نظام بنایا تھا‘ وہاں سے عدل نہیں مل رہا۔
سائنس دان جانتے ہیں کہ زمین کے پانچ خلائی پوائنٹس ہیں جن کی وجہ سے زمین متوازن ہے اور ایک ضابطے میں‘ تسلسل سے گردش کرتے ہوئے انسانیت کے لیے پُرسکون رہائش کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی کے ساتھ اس توازن کو قائم فرما رکھا ہے۔ قرآن مجید‘ جو آخری الہامی کتاب ہے‘ اس کی سورۃ الرحمن میں واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو رفعت دی ہے اور وہاں میزان قائم فرما دیا ہے۔ لہٰذا اے انسانو! زمین پر عدل کا میزان قائم کرو اور ڈنڈی نہ مارو۔ یاد رکھو! ڈنڈی سے صرفِ نظر کیا جائے گا تو یہ زمین دہکتا ہوا انگارہ بن جائے گی۔ آئیے! انسانیت کے اس گھر کو شاد‘ آباد اور امن کا گہوارہ بنائیں۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی تو اللہ کے حکم سے۔ چھری ہٹا لی تو اللہ کے حکم سے۔ اے انسانو! ایٹم بم اپنے دفاع کے لیے ٹھیک مگر اس چھری کو انسانیت کی گردن سے دور کر لو۔ اسی میں ہر گردن کا تحفظ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں