"AHC" (space) message & send to 7575

اگست‘ سائنس اور اہم لوگ

اللہ تعالیٰ کی لاتعداد تخلیقات میں سے انسانی دماغ اک عظیم شاہکار ہے۔ دنیا میں دماغ کے جو سب سے بڑے سائنسدان ہیں وہ گزشتہ صدی سے لے کر موجودہ 21ویں صدی کے سال 2025ء تک اس موضوع پر مسلسل اکٹھے ہوتے رہے ہیں۔ کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اور کئی کئی دن اکٹھے رہ کر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ امریکہ میں متعدد اجتماعات منعقد ہو چکے ہیں۔ اٹلی‘ ڈنمارک‘ جاپان‘ سویڈن‘ چیک ریپبلک‘ ہنگری‘ ہانگ کانگ‘ بھارت‘ سوئٹزرلینڈ‘ فِن لینڈ‘ سپین اور اٹلی میں سسلی (کے جزیرے ٹائورمینا) میں کانفرنسز کا انعقاد ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ سپین کے شہر بارسلونا میں کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ یہ چھ روزہ کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا کے 37 عظیم سائنسدان شریک ہوئے۔ قارئین کرام! ان سائنسدانوں میں ایک بھی مسلم سائنسدان میں نے نہیں دیکھا؛ چنانچہ کسی مسلم ملک میں ایسی کانفرنس کا انعقاد لامحالہ ناممکن ہے۔ یہ ہے ہم اہلِ اسلام کی علمی سطح کا حال! جی ہاں! سائنس کے علمی میدانوں میں ابھی ہم کوسوں دور ہیں۔ میری سائنسی اور اسلامی تحریروں کا مقصد حضورﷺ کی امت کے اہلِ علم کو یہ دعوت دینا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور عملی چوراہے پر سائنسدانوں کا ہاتھ پکڑ کر حضرت محمد کریمﷺ کی علمی سرکار میں لے جا کر کھڑا کر دیں۔ یہ سارے کے سارے انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔
موجودہ کانفرنس پر ایک ایسی شخصیت سے قلم اٹھایا جو صحافی بھی ہیں اور سائنسدان بھی۔ ان کا نام ''نک الونسو‘‘ (Nick Alonso) ہے۔موجودہ کانفرنس میں دماغ سے متعلق جس قدر موضوعات زیر بحث آئے‘ یہ ان کو سامنے رکھتے ہیں۔ میری نامی روبوٹ کی ریسرچ کو بھی اپنی تحقیق کا حصہ بناتے ہیں اور پھر اپنا سائنسی نظریہ بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:
How, after all could we deny we have a stream of first person experiences.
سبحان اللہ! جدید ترین سائنسی ریسرچ نے واضح کر دیا کہ موجودہ انسان کسی بندر کی اولاد نہیں بلکہ وہ اپنے جیسے انسان ہی کی اولاد ہے جو اولین انسان تھا۔ اللہ اللہ! تورات نے اپنے پہلے باب ''پیدائش‘‘ میں اس پہلے انسان کو حضرت آدم علیہ السلام کہا۔ انجیل نے بھی یہی کہا اور انسانی ہدایت کے لیے جو آخری کتاب آخری رسول ختم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی اس نے بھی اس اولین انسان کو حضرت آدم علیہ السلام کے نام سے موسوم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ''(مٹی سے آغاز کرنے کے بعد) پھر اس کی نسل ایک ایسے جوہر سے چلائی جو گھٹیا پانی جیسا ہے‘‘۔ (السجدہ: 14) یاد رہے! نسل کا معنی ہی رواں دواں ہونا ہے۔ دریا رواں دواں ہے‘ نہر یا نالا چل رہا ہے۔ اس کا آغاز اولین انسان حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا ہے۔ اس دریا کا سرچشمہ حضرت آدم علیہ السلام کی پشت اور پسلیوں کے درمیان ان کا سینہ تھا۔ لوگو! دریا رواں ہوتا ہے تو پہاڑوں میں کسی چشمے سے پھوٹتا ہے جس کا پانی اوپر کو اچھلتے ہوئے بہنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس کے اندر آبشاروں‘ بارشوں اور جھرنوں کا مزید پانی شامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ تو جب یہ نالا وسیع وادیوں میں جاتا ہے تو زمین سیراب ہو کر طرح طرح کے باغات اور کھیتیاں اگاتی ہے۔ یہی حال انسان کا ہے کہ اس کی شادی ہوتی ہے تو میاں بیوی کے اجداد میں سے نہ جانے کس کس کی خوبیاں اور خامیاں آنے والے بچے کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ قبیلے‘ برادریاں اور خاندان بن کر دھرتی کے سینے پر دریائوں‘ نہروں اور ندی نالوں کی طرح اپنا وقت گزارتے ہیں اور پھر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ جی ہاں! ہر انسان کی پشت اور سینے کے درمیان نہ جانے آنے والے کتنے لوگ ہیں جو زمین پر آنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اس انتظار گاہ کا اللہ نے یوں تعارف کروایا: ''انسان کو دیکھنا چاہیے (ریسرچ کرنی چاہیے) کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پشت اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے‘‘ (الطارق: 5 تا 7)۔ جی ہاں! کمر میں ہڈیوں کو دیکھا جائے اور دو پسلیوں کے درمیان ذرا اوپر سینے کی ہڈیوں کو دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے پہاڑی چٹانوں کے درمیان سے یہ انسانی پانی نکلتا ہے۔ اللہ کی قسم! کمال مشابہت ہے انسانی نسل اور زمینی پانی کے دریائوں کے رواں دواں ہونے کے دہانے کی۔ سبحان اللہ!
لوگو! کسی انسان کا قتل معمولی بات نہیں۔ ایک انسان کے قتل کے بارے مولا کریم فرماتے ہیں ''اسی وجہ سے ہم نے بنو اسرائیل پر واضح کر دیا تھا کہ جس نے کسی انسانی جان کو کسی جان کے بدلے یا زمین میں خرابی (فتنہ وفساد‘ دہشت گردی) کے بغیر قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا‘‘ (المائدہ: 32) یاد رہے! قتل کے بدلے قتل یا فتنہ و فساد اور دہشت گردی کے جرم میں کسی کا قتل یہ سراسر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص از خود کرے گا تو وہ خود دہشت گردی کا مرتکب ہو گا۔ قارئین کرام! ثابت یہ ہوا کہ قتل ہونے والا مسلم ہے تو نجانے اس کی پشت سے مستقبل میں کتنے کفار پیدا ہونے والے ہیں۔ غیر مسلم ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس سے کتنے مسلمان پیدا ہونے والے ہیں۔ مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے لہٰذا ہر انسان کی جان کا تحفظ ضروری ہے۔
پاکستان 14 اگست کو معرض وجود میں آیا۔ گیارہ اگست کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا آغاز ہوا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی اسمبلی کے ایک ہندو ممبر جوگندر ناتھ کو اعزازی طور پر اسمبلی کا صدر بنایا جن کی قیادت میں تمام اسمبلی ممبران نے حلف اٹھایا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں ہندو‘ مسیحی‘ سیکھ‘ پارسی‘ یہودی وغیرہ پاکستان میں اپنے مکمل انسانی حقوق کے ساتھ پاکستانی شہری کی حیثیت سے عزت کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ آزادانہ عبادت کریں گے۔ اعلیٰ عہدوں تک پہنچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسولﷺ کو مخاطب کرکے دراصل قیامت تک کے لیے ہر مسلمان کی آنکھیں کھول رہے ہیں کہ دیکھنا! ذمیوں اور اقلیتوں کے بارے میں زیادتی نہ کر بیٹھنا۔ فرمایا ''اگر آپ کا رب چاہتا تو جس قدر زمین پر انسان ہیں وہ سب کے سب اور سارے کے سارے ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگ (غیر مسلم) انسانوں کو تب تک مجبور کرتے رہو گے کہ جب تک وہ ایمان والے نہیں بن جاتے‘‘ (یونس: 99) قارئین کرام! قرآن مجید کا ایک اور مقام ملاحظہ ہو‘ فرمایا ''وہ لوگ جو مسلمان بن چکے‘ وہ اس حقیقت کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت کے ساتھ نواز دیتا‘‘ (الرعد: 31)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کلام کی ایک سورت کا اختتام یوں کیا‘ ملاحظہ ہو ''(مشرکین مکہ) جو جو (الزام تراشیاں) کر رہے ہیں ہم انہیں خوب جانتے ہیں (مگر اے حبیبﷺ) آپ کا منصب یہ ہے کہ آپ جبر (سے مسلمان بنانے) والے نہیں ہیں۔ (لہٰذا قرآن سنا سمجھا کہ ہر اس شخص کو) وعظ ونصیحت کرتے رہیں جو وعدے کے دن (موت اور قیامت کے دن) سے ڈرتا ہے‘‘ (ق: 45)۔
گیارہ اور چودہ اگست کا پیغام یہ ہے کہ جو ملک اور اس کے عوام کمزوروں اور چھوٹے گروہوں کی نگہبانی اور حقوق کا خیال کرتے رہیں گے وہ معاشرہ انسانی تکریم کا علمبردار بن کر دنیا وآخرت میں سرخرو ہو جائے گا اور جو معاشرہ اکثریتی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر کمزوروں کے حقوق کی دھجیاں اڑائے گا آخر کار زوال اور شرمندگی اس کا مقدر بن جائے گی۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں کمزوروں پر ظلم وجبر اور قتل وخونریزی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ آج ساری دنیا میں وہ رسوا ہو چکا ہے۔ پاکستان کو عزت ملی ہے کہ یہاں چھوٹے گروہوں اور کمزوروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خیال کو مزید بہتر اور باکمال بنانے کا سوچا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں