نئی نظریاتی صف بندی کی ضرورت

کیا نظریاتی بنیادپرہونے والی پرانی صف بندی اپنی اہمیت اور جواز کھو نہیں چکی؟ کیا نئی فکری صف بندی کرنے کالمحہ آ پہنچاہے؟ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے، حال اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانے کا وقت۔ 
پاکستان میں 60 اور 70 کے عشروں کے دوران رائیٹ اور لیفٹ ونگ کے مابین نظریاتی کشمکش عرو ج پر تھی، فکری بنیادوں پر سب سے زیادہ تقسیم ان دنوںدیکھی گئی۔ان دنوں دنیا بھر میں رائیٹ اور لیفٹ ونگ کی کشمکش (جسے ہمارے ہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کی لڑائی بھی کہا جاتا تھا)،اپنے عروج پر تھی۔ کالم کی محدود جگہ میں یہ ممکن نہیں کہ رائیٹ اور لیفٹ ونگ کی جامع یا مبسوط تعریف کی جائے یا مثالیں دی جائیں، اس لئے ہم زیادہ گہرائی میں جائے بغیر صحافیانہ اسلوب میں بات آگے بڑھائیں گے۔ 
اس وقت ایک سائیڈ پرسوویت یونین اور اس کاہمنوا کمیونسٹ بلاک تھا، جو سوشلزم کے نظریے کو پھیلانے اور دنیا بھر میں اپنی حامی لابیوں کو سپورٹ اور بیشتر جگہوں پر سپانسر کر رہا تھا۔دوسری طرف کیپیٹل ازم یا سرمایہ دارانہ نظام کی علمبردار مغربی دنیا جو خود کو فری ورلڈ کہلانا پسند کرتی تھی، امریکہ کی قیادت میں نبردآزما تھی۔ سوشل ازم اور کمیونزم میں تکنیکی فرق ہونے کے باوجود عام طور پر سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو ایک ہی معنوں میں لیا جاتا رہا۔جس طرح ہمارے ہاں لیفٹ ونگ کے اندر کی ماسکو نواز(پرو رشیا) اور مائو نواز (پرو چائنا)کی تقسیم سے قطع نظرپورے لیفٹ کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔روسی بلاک اور امریکی بلاک کی لڑائی بہت واضح تھی اور ان کے درمیان کھینچی گئی سرخ لکیر کے دونوں اطراف ہی پوزیشن لینا ممکن تھا۔ سیاسی طور پرممالک کی سطح پر تو غیر جانبدارممالک کی تنظیم بنا کر ایک طرح کا تیسرا بلاک بنانے کی کچی پکی کوشش کی گئی، مگر فکری طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ دراصل لیفٹ ونگ کی طرف سے ہونے والا حملہ اس قدر جارحانہ اور طاقتور تھا کہ فوری طور پر اس کے خلاف پشتے باندھنے کی کوشش کی گئی ۔پاکستان کی دینی قوتوں یا روایتی رائیٹ ونگ نے اس فیصلہ کن مرحلے پر لیفٹ ونگ کے خلاف صفیں استوار کیں۔ مذہبی طبقات کو امریکہ یا مغربی دنیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بھی تحفظات تھے۔ ہمارے دینی سکالرز کو یقین تھا کہ اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہے اوروہ مروجہ دونوں نظاموں(کیپیٹل ازم اور سوشل ازم )سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اس کے باوجود اصل لڑائی چونکہ اس وقت کمیونزم یا سوشل ازم سے تھی،زیادہ بڑا خطرہ مغرب نہیں، سوشل ازم محسوس ہو رہاتھا، اس لئے رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے سکالرز اور رائٹرز نے لیفٹ ونگ کو اپنا ہدف بنایا۔ویسے تو سوشل ازم ایک معاشی نظام ہی تھا، جوکنٹرولڈ معیشت ، صنعتوں، بینکوں اور تعلیم سمیت بیشتر اہم شعبوں کو قومیا کر منافع خوروں کے ظلم اور استحصال سے عام آدمی کو بچانے کا دعوے دار تھا۔ اصل مسئلہ مگر یہ تھا کہ سوشل ازم ایک خاص مائنڈ سیٹ یا سوچ بھی ساتھ لے کر وارد ہوا تھا، مذہب سے اسے کد تھی، ریاست کی مذہبی شکل کا وہ مخالف اور سیکولرازم کاموید تھا۔ بھٹو صاحب نے سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگایا ،مگر رائیٹ ونگ کے خطرات اور خدشات اس سے قطعی دور نہیں ہوئے بلکہ زیادہ محتاط اور ہوشیار ہونا پڑا کہ اسلامی سوشلزم کی پرفریب اصطلاح نوجوانوںپر اثرانداز نہ ہوجائے۔ 
ساٹھ کے عشرے کے آواخر سے ستر کے عشرے کے وسط سے کچھ بعد تک یہ معرکہ بڑے زوروں پر لڑا گیا۔حتیٰ کہ جنرل ضیاء نے آ کر بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا اور پھراپنے مقاصد کی خاطر رائیٹ ونگ کی سرپرستی کی ۔یہ اور بات کہ رائٹسٹوں کے اس بزعم خود حامی نے سب سے زیادہ نقصان رائیٹ ونگ ہی کو پہنچایا اور ان کا سب سے بڑا اثاثہ ... ان کی کریڈیبلٹی چھین لی۔ بہرحال ہم جنرل ضیا کی آمد سے پہلے کی بات کر رہے تھے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ رائٹ ونگ نے اس معرکے میں بڑے شاندار طریقے سے دفاع کرتے ہوئے لیفٹسٹوں کو پسپا کرتے ہوئے ایک مدلل بیانیہ تشکیل دیا۔اسی مزاحمت کا نتیجہ تھا کہ بھٹو صاحب جو ایک زمانے میں لیفٹ ونگ کی واحدامید تھے، اپنے آخری برسوں میں عملی طور پررائیٹ آف دی سنٹر لیڈر ہی بن چکے تھے، جس نے قادیانیوں کو پارلیمنٹ سے غیر مسلم قرار دلوایا، شراب اور جوئے پر پابندی لگادی۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا اس پورے معرکے میںکلیدی کردار تھا۔ سید مودودی کی کئی آرا ہمارے روایتی مذہبی طبقے میں تنازع کا باعث بنیں ،مگر یہ کریڈٹ بہرحال مولانا کو جاتا ہے کہ انہوں نے لیفٹ کے خلاف ایک جامع اور مبسوط مقدمہ پیش کیا۔ ان کا ایک فقرہ '' اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘ اکیلا ہی سو کتابوں پر بھاری تھا۔دینی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کے لئے جماعت کے لٹریچراور اس سے منسلکہ یا متاثرہ جرائد نے ایک فکری غذا اور سپورٹ سٹرکچر فراہم کیا، جس کی بنا پر وہ اپنے لیفٹسٹ دوستوں کے ساتھ مجادلہ کر سکتے تھے۔ روایتی دینی حلقوں، علما اور مساجد کے نیٹ ورک نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔اگر یہ سب لیفٹ ونگ کے سامنے مزاحم نہ ہوتے تو جو یلغار اس وقت ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں پاکستانی سماج کی صورت بالکل ہی اور ہوجاتی، خاص کر مورل فیبرک یکسر مختلف شکل میں ہوتا۔رائیٹ اور لیفٹ ونگ کی لڑائی صحافتی میدان میں بھی ہوئی اور کیا خوب لڑی گئی۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی انہی دنوں چمکے اور سماج نے انہیں لکھاری کی حیثیت سے ترقی دے کر ایک دانشور کی صورت دے دی۔
جنرل ضیاء کے دور میںصورتحال یکسر بدل گئی۔ ریاست اس وقت رائیٹسٹوں کے ساتھ تھی، اسلامائزیشن کے نام پرآئے روز ایک سے ایک نیا قانون آ رہا تھا۔ اسلامی تحریکوں کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر اس اخبارنویس کو یہ لگتا ہے کہ ہمارے رائیٹ ونگ خاص کر جماعت اسلامی سے وابستہ اہل فکر نے جنرل ضیاء الحق کو آئوٹ آف دی وے جا کر سپورٹ کیا اوراسلامائزیشن کی جس سطحی شکل کو ڈکٹیٹر پروموٹ کر رہا تھا، اس کے نقائص اور خامیاں واضح نہیں کئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رائیٹسوں کا ایک بڑا حصہ اس وقت بھی جمعیت علما اسلام (دیوبندی مکتب فکر)اور جمعیت علما پاکستان(بریلوی مکتب فکر)کی شکل میں جنرل ضیاء کے خلاف سیاسی جدوجہد کا حصہ تھا۔مولانا نورانی جیسے لوگ اعلانیہ جنرل ضیا کو منافق اور آمر کہتے تھے۔ اس کے باوجود عام تاثر یہی ہے کہ پورے رائیٹ ونگ نے ضیاالحق کا ساتھ دیا۔ میری دانست میں اس کی وجہ یہ رہی کہ ہمارے رائیٹ ونگ کے صحافتی سرخیل جنہوں نے بھٹو کے خلاف بے مثال لڑائی لڑی، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر ہتھیار نہیں ڈالے ، وہ سب باجماعت ہی جنرل ضیا ء کے ساتھ جا ملے۔ اپنی ماضی کی نیک نامی کو دائو پر لگا کرمحاورے کے مطابق انہوں نے دامے، درمے، سخنے ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبو ط کئے ۔ ایک وجہ جہاد افغانستان بھی تھا۔ پاکستانی رائٹسٹ خاص کر جماعت اسلامی اس کا حصہ بنی رہی ۔ سید منور حسن جب امیر جماعت تھے، میں نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ کبھی جماعت اسلامی نے اپنے ماضی کے اس فیصلے کا تجزیہ کیا، یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ اس سب کچھ میں حاصل کیا ہوا اورگنوایا کیا کچھ ؟ سید صاحب نے اپنے مخصوص تیکھے انداز میں جواب دیا تھا ،'' جب وقت گزر جائے تو ماضی کے واقعات کا پوسٹ مارٹم تحریکوں کو فائدے کے بجائے نقصان ہی پہنچاتا ہے۔‘‘
رائیٹ ونگ کو البتہ اپنے ماضی کا تجزیہ ضرور کرنا چاہیے کہ ان کے حال اور مستقبل کے لئے بہتر حکمت عملی بنانے کا دارومدار ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور درست صف بندی استوار کرنے پر ہے۔ سوال وہی جو کالم کی پہلی سطر میں پوچھا گیا۔ میری رائے یہی ہے کہ ہاں، نئی صف بندی کا وقت آ پہنچا ۔ پرانی صفیں ٹوٹ چکیں، ماضی کے بیشتر ہیرو رخصت ، ریٹائر یا غیر متعلق ہوگئے، بعض کو ولن کا کردار پسند آگیا۔ نئے حقائق، نئے چیلنجز وارد ہو رہے ہیں۔ طیور ایک نئی یلغار کی خبر دے رہے ہیں، اب کی بار انداز اور اسلوب مختلف ہے، اہداف مگر وہی پرانے ہیں۔نئی صف بندی کیسے کی جا سکتی ہے، اس پر انشاء اللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں