نئی نظریاتی صف بندی ہی متبادل بیانیہ دے گی

اپنے سوموار والے کالم میں نئی نظریاتی صف بندی کی بات چھیڑی تھی، ارادہ تھا کہ یہ موضوع چونکہ خاصا پھیلا ہوا اور ہمہ گیر ہے،ا س لئے اس کے مختلف پہلوئوں پر الگ الگ نشست رکھی جائے۔ اس حوالے سے فیس بک پر ایک گروپ ''سوچ بچار Soach Bichaar ‘‘ میں بات ہوئی تو ایک دوست نے مشورہ دیا کہ رائیٹ اور لیفٹ ونگ کی تین سو سالہ پرانی فرانسیسی انقلاب کے زمانے کی اصطلاحات کے بجائے نئی ڈکشن اور اصطلاحات میں بات ہونی چاہیے۔یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے، پولیٹیکل سائنس کے جدید ماہرین میں سے بعض یہی بات کہتے ہیں کہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے اس رائیٹ لیفٹ کی بنیادی تقسیم سے آگے بڑھ کر اسے مزیدخانوںمیں بانٹا جائے۔ مغربی سوسائٹی کو دیکھاجائے تو وہاں کئی قسم کے نظریاتی اور معاشی ماڈل پر یقین رکھنے والے گروپ مل جاتے ہیں۔ اس لئے وہاں کے حساب سے متعدد خانوں میں بانٹ کر سیاسی ماڈل بنانا ممکن ہے۔ ایک مشہورمغربی ویب سائیٹ پولیٹیکل کمپاس (The Political Compass) نے ملٹی ایکسز پولیٹیکل ماڈل (multi-axis political model)پر تفصیلی تحریریں شامل کر رکھی ہیں،جسے دلچسپی ہو، وہ گوگل کر کے تفصیل سے پڑھ سکتا ہے۔ مسئلہ مگر وہی ہے کہ مغربی معاشرے کے اپنی زمینی حقائق اور سیاسی حرکیات (Dynamics)ہیں۔ پاکستانی سماج پر وہ بالکل فٹ نہیں ہو پاتیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مغربی زاویہ فکر سے ہمارے معاشرے کو دیکھنا ہی غلط ہے۔وہ بنیادی اصول ذہن میں رکھ کر جو بھی بیانیہ تخلیق یا تحریر کیا جائے گا، اس میں نقائص رہ جائیں گے اور وہ مقامی ماحول سے مطابقت نہیں پیدا کر پائے گا۔ہمیں اپنے حساب کتاب سے اپنی اصطلاحات بنانی اور رائج کرنی ہوں گی، اس لئے نئی صف بندی کے ساتھ نئی نظریاتی ڈکشن کی ضرورت بھی پڑے گی۔ بلکہ مجھے یہ لگتا ہے کہ ہر طرف سے وارد ہوتے ''بیانیے کی بحث‘‘ میں جس متبادل بیانیہ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، نئی نظریاتی صف بندی کے بعد ہی ٹھوس بنیادوں پر استوار وہ بیانیہ سامنے آ سکے گا۔ اس وقت تک خلط مبحث کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 
پاکستانی معاشرہ 70ء کے عشرے میں جس فکری تقسیم اور کشمکش سے دوچار تھا ، اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اس وقت باقاعدہ طور پر لیفٹ ونگ یہاں موجود تھا، دوسری طرف اسلامسٹ تھے،جولیفٹ کی فکر کے آگے دیوار باندھنا چاہتے تھے۔ اس وقت امریکہ بھی اپنے حریف روس کو زچ کرنا چاہتا تھا، اسی لئے 80ء کے عشرے میں اس نے افغان تحریک مزاحمت کی مکمل طور پر سرپرستی کی۔ اسلامسٹ ان دنوں امریکہ کے اتحادی بنے رہے ۔ سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد لیفٹ کی سرپرست دیوار گر گئی، پرانے لیفٹسٹ جیتے جی زندہ درگور ہوگئے ۔ اس شاک نے بہت سوں کو کوما میں پہنچادیا، کچھ تو ابھی تک اس کیفیت سے باہر نہیں آسکے، مگر بعض طرار ایسے بھی ہیں ،جنہوں نے تیزی سے قبلہ تبدیل کرتے ہوئے مغرب کو اپنا سائبان بنا لیا۔ امریکہ، کینیڈا، ناروے، سوئیڈن ، ڈنمارک وغیرہ کی تنظیموں کی سپانسر شپ سے سے ان ماضی کے ترقی پسند بلکہ مارکسسٹوں کی این جی اوز چلتی اوران کے پرتعیش لائف سٹائل جاری رکھنے کا باعث بنتی ہیں۔ آج کل یہ گروہ لبرل کہلانے کو ترجیح دیتا ہے، اگرچہ کلاسیکل لبرل نظریہ اور قدر سے ان کا دور کا واسطہ نہیں۔ ویسے تو یہ درس دیتے ہیں کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے ، انفرادی آزادی ہونی چاہیے ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب آزادی مگر انہیں اپنے لئے درکار ہے، ان میں سے بیشتر کاطرز زندگی ایسا ہے ،جس پر مذہبی اخلاقی حدود قیود نافذ ہوسکتی ہیں، اس لئے یہ مذہبی قوانین کے شدید مخالف ہیں۔دوسرے کے عقیدے اور نظریے کی آزادی کا احترام کرنے کو یہ بالکل تیار نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ مذہب بیزاری بلکہ مذہبی نفرت ان کی جڑوں میں موجود ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے اسلام کے خلاف یہ اعلانیہ بات کر نہیں سکتے، مختلف بہانوں سے مذہبی طبقات اور مذہبی قوانین کو نشانہ بنا کر یہ اپنی اس نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اشفاق احمد نے اسی حوالے سے اپنا مشہور فقرہ کہا تھا کہ جو اللہ کے خلاف بولنا چاہتا ہے، وہ مولوی کو نشانہ بنا کر اپنا زہر اگل دیتا ہے۔اس طبقے کا نشانہ پاکستانی آئین میں موجود اسلامی شقیںہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اسلامی کا لفظ نوچ کر الگ کر دیں۔افسوس اس پر ہے کہ پاکستانی قوم نے ستر کے عشرے میں جو بنیادی سوالات حل کر لئے اور اس وقت رائیٹ ، لیفٹ کے تمام سرکردہ لوگوں نے ایک لبرل، سیکولر وزیراعظم کی قیادت میں جس متفقہ دستور کو منظور کیا، بعدکے جمہوری ادوار میں ہونے والی متفقہ ترامیم، خاص کر اٹھارویں ترمیم نے جسے سند بخشی ، اس پر ہر کچھ عرصے بعد ایک نئی بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔ ریاست کی صورت کیسی ہونی چاہیے تھی، یہ مسئلہ حل ہوچکا۔ اب تو گڈ گورننس کی طرف جانا چاہیے۔ ریاست کیسے عوام کی بہبود میں کام کرے؟ احتساب کا ٹھوس نظام بنایا جائے، سیاسی نظام کی تطہیرہو،کرپشن کا راستہ روکا جائے، بلدیاتی نظام کومضبوط بنا کر نچلی سطح تک اختیارات پہنچائے جائیں... یہ نئے اہداف ہونے چاہئیں۔ ہمارے لبرل سیکولر حلقے ہر چند سال بعد ریورس گئیر لگا کر حل شدہ ایشوز دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کی بعض طاقتور لابیوں نے جس میں وائیٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ(WASP)سرفہرست ہیں، انہوں نے اسلامسٹوں کو اپنا نیا ہدف بنایا اور اسلاموفوبیا کی بنیاد ڈالی۔امریکہ کی اہم لابی جسے امریکی صدرآئزن ہاوور نے'' ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘کا نام دیا تھا، اس نے بھی اس سوچ کو تقویت بخشی۔ یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں،بلکہ نوم چومسکی جیسے بہت سے آزاد سوچ رکھنے والے امریکی دانشور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں اور خاص کر افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کے بعد مسلم دنیا میں ردعمل کی جو لہر اٹھی، اس نے شدت پسند مسلم گروہوں کو جنم دیا، وقت گزرنے کے ساتھ جن کی طاقت میں اضافہ ہوا اور ان کے طرز عمل میں سفاکی اور بے رحمی بڑھ گئی۔ عام آدمی کی زندگی کی قدر وقیمت تو دور کی بات ہے، اپنے خاص گلوبل ایجنڈے کی خاطر پورے پورے ملک تباہ وبرباد کرادینے میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ القاعدہ سے داعش تک کے 
اس سفر میں کئی پڑائو آتے ہیں، شام کا النصرہ فرنٹ ہو، نائجیریا کے بوکو حرام ہوں، صحرائے سینا میں برسرپیکار مصری انتہا پسند گروہ ہو یا تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادی دہشت گرد گروپ... ان سب کی سوچ ، لائحہ عمل اور انداز ایک ہی ہے۔
ان شدت پسند بلکہ دہشت گردوں کے خلاف واضح بیانیہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ کام لبرل سیکولر حلقوں کے بس کا نہیں۔یہ شدت پسند گروہ چونکہ اپنی شدت پسندی کے لئے مذہبی دلائل دیتے اور اپنے نئے ساتھی اسی حربے کو استعمال کر کے حاصل کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف مقدمہ اسلامسٹوں کو استوار کرنا ہوگا۔ نئی صف بندی کی اصطلاح اسی لئے استعمال کی ہے کہ اسلامسٹوں میں سے جو اہل قلم ان گلوبل ایجنڈے والے گروپوں کے حامی ہیں، پاسپورٹ، ویزا، سرحدیں ان کے لئے بے معنی ہیں، اپنی سوچ اور فکر سے وہ دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں، انہیں فکری طور پر الگ کرنا ہوگا۔ انتہا پسند سوچ کے حامل یہ اہل قلم چونکہ لبرل سیکولر یلغار کے خلاف اسلامسٹوں کے موقف کی تائید کرتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے یہ بڑی ہوشیاری سے رائیٹ ونگ یا اسلامسٹوں کے نمائندہ کی حیثیت اختیار کرنے کا تاثر دیتے ہیں۔ یہ بات بڑی خطرناک اور پریشان کن ہے۔ اسلامسٹ جماعتوں، علما اور اہل قلم کو اس حوالے سے یکسو اور واضح ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کی لڑائی دونوں طرف کے انتہا پسندوں (شدت پسند لبرل اور شدت پسند جنگجو گروپوں) سے ہے۔ اپنی صفیں درست کرتے ہوئے یہ لڑائی انہیں خود ہی لڑنی ہوگی۔کوئی اور مدد کے لئے نہیں آئے گا۔یہ مقدمہ اسلامسٹوں ہی کو لڑنا ہوگا، مگر اسے مدلل اور جدید ڈکشن سے لیس ہونا چاہیے کہ نئی نسل کے ذہنوں کو مسخر کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں