روشنی کا ہالہ

نہایت سادہ سے ماحول میں سب بیٹھے تھے۔ چھوٹا سا کمرہ ، سادہ فرنیچر، موسم خوشگوار تھا، اس لئے پنکھا چلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ہمارے میزبان نے پہلے سے موجود اپنے دوستوں کا تعارف کرایا۔ انہوںنے موزوں الفاظ میں ہمارا تعارف بھی کرایا۔ خاکسار کا تعارف کراتے ازراہ تلطف دو تین ستائشی جملے بھی استعمال کر ڈالے۔ باہمی تعارف کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ جیسا کہ عام دستور ہے، موسم سے بات فوراً سیاست پر آگئی۔سیاستدانوں کے کرپشن سکینڈل، سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں،مختلف حکومتی رہنمائوں کی نااہلی سے بات چلتی چلتی بیورو کریسی کی روایتی نالائقی تک آئی اور پھر معاشرے کے بگڑتے اخلاقی معیار پر معاملہ ختم ہوا۔ اس دوران مہمانوں اور میزبانوں نے مل کر'' کمال فراخدلی‘‘ سے ملک کے ہر شعبے کی ایسی کی تیسی کر ڈالی۔ سرمایہ دار، صنعت کار، زمین دارسے لے کر پھل ، سبزی بیچتے ریڑھی والے،مکینک، پلمبر، مستری اور قصائی تک ...ہرایک کی اخلاقی بددیانتی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ زیربحث آیا۔جب کوئی نہ بچا تو آخر میں میڈیابھی ہدف بنا، چند منٹوں میں اسے بھی ''نمٹا ‘‘دیا گیا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک وقفہ آیا۔ چائے آ چکی تھی ، احباب خاموشی سے چسکیاں لینے لگے۔ کچھ دیر کیلئے سناٹا سا چھا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر ایک کو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ چاروں طرف تاریکیاں چھائی ہوئی ہیں، دور دور تک روشنی کی ایک کرن بھی موجود نہیں، سب کچھ تباہ ہو رہا ہے اور ہم سب بھی اس ڈوبتے جہاز کے ساتھ ڈوب جائیں گے، بچنے کا شائد کوئی راستہ بھی نہیں۔
ہم صحافی حالات کے جبر کے تحت سخت دل اور بے حس ہوجاتے ہیں۔منفی خبریں ہمارے اوپراثرانداز ہونے کی قوت کھو بیٹھتی ہیں کہ دن رات ان سے واسطہ پڑتا اور انہی کو استعمال کر کے اخباری صفحات تیارکئے جاتے ہیں۔ مایوسیوں اور تاریکیوں کے مسلسل تذکرہ نے ہمارے او پر بھی پژمردگی طاری کر دی۔کمرے میں چھائے سکوت کو کونے میں بیٹھے ایک نوجوان نے چاک کیا۔ اکتیس بتیس سالہ وہ شخص اس گفتگو میں خاموش ہی رہا تھا۔ اس نے نرم لہجے میں پہلے اپنا تعارف کرایا ، بتایا کہ وہ مقامی گورنمنٹ سکول میں سائنس ٹیچر ہے اورقریبی گلی میں مکین ہے۔ ہم سب اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ وہ کہنے لگا،'' آپ سب صاحب علم اور تجربہ کار آدمی ہیں، میرا تجربہ اور علم دونوں محدود ہیں۔ جو باتیں آپ لوگوں نے بیان کی ہیں، وہ سب درست ہیں، ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے میں بھی ایسا ہی سوچتا اوردوستوں کے حلقے میں ایسی ہی بحثیں کیا کرتا ۔ایک روز ذہن میں خیال آیا کہ یوں تو مایوسی اور افسردگی بڑھتی جا رہی ہے، یہ سب ایسی باتیں ہیں، جن پر میرا زور نہیں چلتا۔جتنی کوشش کر لوں، قومی سیاسی جماعتوں کو ٹھیک نہیں کر سکتا، اعلیٰ بیوروکریسی تک تو میری رسائی بھی ممکن نہیں، تاجر، صنعت کار، زرعی شعبہ، میڈیا، ڈاکٹر ، انجینئر ان تمام شعبوں میں اصلاحات لانا میرے اپنے اختیار میں نہیں۔ کسی اور کو ٹھیک کرنا تو میرے لئے ممکن نہیں، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر کر لوں اور اپنی ذات کی حد تک فضا مثبت بنا لوں۔ قسمت نے مجھے سکول ٹیچر بنا یا تھا،ایف ایس سی میں میرٹ نہ بناتو بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کرلی ۔قدرت نے ٹیچنگ کا راستہ کھول دیا، وہ بھی گورنمنٹ جاب ۔میں نے عہد کیا کہ اپنے طلبہ پر غیرمعمولی محنت کروں گا، ان میںکسی بھی قسم کی تشنگی نہیں رہنے دوں گا۔ اس میں زیادہ دقت نہیں ہوئی، یہ میرا روز کا کام تھا، تین چار برسوں سے پڑھا رہا تھا۔ بس اتنا کیا کہ صبح جو سکول میں پڑھانا ہے، رات کو ایک دو گھنٹوں کے لئے اسے اچھی طرح پڑھ لیتا، نکات ذہن میں واضح کر لیتا، یوں صبح میرا لیکچر بھرپوررہتا۔طلبہ کو ایک ایک پوائنٹ اتنی وضاحت سے سمجھاتا اور پڑھاتا کہ میری کلاس کے بچوں کو کم از کم اس مضمون میں ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔میری ضروریات زندگی محدود تھیں، تنخواہ میں گزارہ ہوجاتا۔اپنے گھر کی بیٹھک میں فری اکیڈمی کھول لی۔ اس میں اپنی کلاس کے کمزور طلبہ کے ایک گروپ کو مفت ٹیوشن پڑھانے لگا۔شام کو ایک گروپ لائق طلبہ کے لئے بھی بنالیا۔ وہ بچے جو بورڈ میں پوزیشن لینے کا پوٹینشل رکھتے ہوں، خواہ ان کا تعلق سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی سکول سے ہو، ان کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔یہ خبر دوسرے سکولوں کے طلبہ تک بھی پہنچ گئی، وہ آنے لگے، میرے پاس وقت کی کمی نہیں تھی، ان کی مدد کرنے لگا، یہ کوشش کرتا کہ وہ نوٹس کے محتاج بنے رہنے کے بجائے موضوعات کو سمجھ کر اپنے نوٹس خود بنائیں۔ چند ہی ماہ میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ میری کلاس کے کمزور طلبہ کی بھی بنیادی خامیاں دور ہونے لگیں اوران کی کارکردگی میں سو فیصد بہتری آ گئی۔ پہلے اخبار میں ذوق شوق سے پڑھا کرتا تھا، اسے پڑھ کر بحث کرنے کا مواد مل جاتا، اب اسے بند کرا دیا۔ ٹی وی بریکنگ نیوز پہلے بھی ناپسند تھیں، اب توان کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ جو اہم خبر ہوتی ہے، وہ خود ہی مجھ تک پہنچ جاتی ہے۔ کچھ وقت ملے تو کتاب پڑھ لیتا ہوں ، شاہکار ادبی تخلیقات یا فکر انگیز تصانیف،ہر ویک اینڈ اور اتوار کے دن دنیا کی مشہور فلموں کے لئے دو دو گھنٹے نکالتا ہوں۔انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کر کے دیکھ لیتا ہوں۔ اپنے شیڈول میں سے اتنا وقت نکل ہی آتا ہے۔منفی اور مایوس خبریں آج بھی ویسے ہی ہیں، یہ سب خامیاں جن کا آپ سب لوگ ذکر کرتے رہے ہیں، یہ سب سچ ہیں،مگر میرے اردگرد اب تاریکیاں نہیں، رات کو جب میں تھک ہار کر سوتا ہوں تو کمال اطمینان قلب اور سکون طاری ہوتا ہے۔ یہ ذہن میں ہوتا ہے کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنی شمع میں نے جلائی ہوئی ہے، میرے دائیں بائیں روشنی ہی ہے۔‘‘
وہ نشست دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے،الحمدللہ میری یادداشت اچھی ہے، اس کے باوجود ان صاحب کے بولے گئے چند جملے اور الفاظ ادھر ادھر ہوگئے ہوں گے، مفہوم بہرحال یہی تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، جناب زرداری کا'' عہد ِزرین‘‘جس نے ہم سب کو مایوسیوں کی ایک ان دیکھی دلدل میں دھکیل رکھا تھا۔ اب جناب نواز شریف کی حکومت ہے،حکومتی اشتہاری مہم دیکھیں تو لگتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہے، آنکھیں کھول کر حقیقت میں قدم رکھتے ہیں تو سب کچھ پہلے کی طرح مایوس کن اور برباد حال پاتے ہیں۔ گھنٹوں ہم دوست انہی بحثوںمیں گزارتے اور ایک دوسرے کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، ...اچانک کسی لمحے مجھے اس نوجوان کی گفتگو یاد آتی ہے، جس نے مایوس ہونے کے بجائے اپنے اردگرد روشنی کا ہالہ پیدا کر لیا۔ چند لمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے، پھر یکایک موضوع بدل جاتا ہے، ... ایک نئی بحث، بربادیوں کا ایک نیا قصہ جس سے دوسروں پر لعن طعن کا ایک اور موقعہ مل جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں