افغان جہاد، مغالطے، مفروضے

ملا عمر کے انتقال کے بعد افغان طالبان اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بحث شرو ع ہوئی تو جنرل حمید گل کی رحلت سے روس (سوویت یونین) کے خلاف 80ء کے عشرے میں ہونے والا افغان جہاد بھی زیر بحث آنے لگا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عام رواج ہے کہ کسی بھی بڑے ایشو کے بارے میں ایک خاص قسم کی سویپنگ سٹیٹمنٹ یا جارحانہ بیان جاری کر کے حتمی رائے دے دی جاتی ہے۔ جب ایسا کرنے والے مقبول لکھاری یا تجزیہ کار ہوں تو ان کے مداحین دماغ پر زیادہ زور دیے بغیر اپنے ممدوح کی وہی رائے قبول کر لیتے ہیں، چند سال بعد وہ سویپنگ سٹیٹمنٹ ایک کلیشے کی شکل اختیار کر جاتی ہے، کچھ اور وقت گزرے تو لوگ اسے چھیڑتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے اوپر تنقید نہ ہو جائے۔ ایسے میں کرنے والا کام یہی ہے کہ ان کلیشوں کو چیلنج کیا جائے، ایشو کو کھولا جائے اور اسے بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھنے کے بجائے اس کے گرے ایریاز پر بھی نظر ڈالی جائے۔ یوں زیادہ بہتر اور وسیع تناظر سامنے آتا ہے۔ 
سوویت یونین کے خلاف افغان تحریک مزاحمت پر تین چار اعتراضات کئے جاتے ہیں، جیسے... ''یہ امریکہ کی جنگ تھی، ہمیں اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس میں جہاد کا نام لوگوں کو جذباتی طور پر استعمال کرنے کے لئے برتا گیا، ورنہ یہ جہاد نہیں تھا۔ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے جو فساد پھیلایا، یہ بھی اسی افغان تحریک مزاحمت کے باعث ہوا، ہم نے جو لوگ تیار کئے تھے، انہوں نے ہی ہمارے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ پاکستان میں پچھلے تیس برسوں میں جتنا خون بہا اور نقصان ہوا، اس کی ذمہ داری افغان جہاد او ر اس کے بانی جنرل ضیاء الحق پر عائد ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔
یہ غلط ہے کہ روسی حملہ کے خلاف افغان تحریک مزاحمت پاکستان کی جنگ نہیں تھی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امریکہ اپنی پوری قوت سے اس جنگ میں شامل ہوا اور اس نے بڑے پیمانے پر وسائل استعمال کئے۔ اس کے باوجود یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ روس کے افغانستان میں آ جانے سے پاکستان کے لئے بہت زیادہ خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو آج کے ماحول، تناظر اور لمحہ موجود کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ روس کا افغانستان پر حملہ اور قبضہ ہر اعتبار سے غلط، غیراخلاقی اور غیرقانونی تھا۔ روسی قیادت نے یہ عذر پیش کیا کہ ہم ببرک کارمل کی دعوت پر آئے ہیں، حالانکہ جس وقت روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، اس وقت ببرک کارمل افغانستان سے باہر، مشرقی یورپ کے ایک ملک میں سفارتی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ''ورکنگ ود ضیا‘‘ میں وہ واقعہ بیان کیا ہے کہ جب پاکستان میں مقیم روسی سفیر کو بلا کر باضابطہ احتجاج کیا گیا تو اس نے اسی عذر کا سہارا لیا؛ تاہم جب اسے بتایا گیا کہ جو شخص افغانستان میں موجود ہی نہیں، حکومت ہی میں نہیں، وہ کیسے آپ کو بلا سکتا ہے؟ تو اس پر سفیر موصوف آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ روس کے گرم پانیوں تک پہنچنے والی بات محض سازشی تھیوری نہیں، اس وقت عالمی میڈیا میں اس پر بہت زیادہ بات ہوتی رہی، کئی روسی ماہرین اس کے حامی تھے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد بعض سابق روسی جرنیلوں نے مغربی میڈیا کو اپنے انٹرویوز میں اس کی تصدیق کی کہ روسی قیادت کے لئے ہمیشہ سے گرم پانیوں تک پہنچنے والی تھیوری 
پُرکشش رہی، یہ صرف افواہ نہیں تھی۔ 
تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے کسی نوجوان کو چاہیے کہ کسی لائبریری میں جا کر روسی حملے سے کچھ پہلے اور اس کے بعد کے پاکستانی اور غیرملکی اخبارات دیکھے۔ اسے سمجھ آ جائے گی کہ دنیا بھر میں افغانستان پر روس کے قبضے کو ایک نہایت سنجیدہ اور سنگین الارم کے طور پر لیا گیا اور ہر ایک کو یہی خدشہ تھا کہ روس صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گا، پاکستان اس کا اگلا ہدف ہوگا۔ ہر پاکستانی سرخا روس کی آمد پر بغلیں بجاتا پھرتا اور اپنے رائٹ ونگ کے دوستوں کو مشورے دیتا کہ روس کے خلاف باتیں نہ کرو، بعد میں مارے جائو گے۔ ہماری تحصیل احمد پور شرقیہ افغان سرحد سے کوئی ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہاں تحصیل بار میں افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف قرارداد پیش ہوئی تو اچھا بھلا ہنگامہ کھڑا ہوا۔ خان عبدالولی خان کے مداح ایک وکیل نے پُرجوش تقریر کی کہ روس صرف افغانستان تک نہیں رہے گا، چھ آٹھ ماہ میں وہ پاکستان پر بھی قابض ہو جائے گا، پھر ان تمام لوگوں کی شامت آئے گی، جنہوں نے روس مخالف بیانات دیے یا قراردادیں منظور کیں۔ یہی فضا ملک بھر میں تھی، ہمارے عسکری منصوبہ سازوں نے اگر اس وقت روس کی مزاحمت کا فیصلہ کیا تو اگرچہ اس فیصلے سے لیفٹ ونگ کو پہنچنے والی ''تکلیف‘‘ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ فیصلہ بہرحال غلط نہیں تھا۔ 
اسی طرح روس کے خلاف لڑائی کو ہر اعتبار سے جہاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ جہاد کی تمام شرعی پابندیاں اس کیس میں پوری ہوتی تھیں۔ سوویت یونین ظالم تھا، اس نے افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کیا، افغان نوجوانوں کی مزاحمت کو وہ بڑی بے رحمی سے کچل رہا تھا، افغان عوام کی مزاحمت کو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے تھا، اس معاملے میں ریاست ساتھ کھڑی تھی، بلکہ وہی رہنمائی کر رہی تھی، ویسے تو اس وقت سوویت یونین کے قریبی چند ممالک کے سوا پوری دنیا اس افغان جہاد کے ساتھ کھڑی تھی۔ مسلم دنیا نے غیرمعمولی جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا، مڈل ایسٹ اور سعودی عرب سے شوق جہاد میں بہت لوگ آئے، اسامہ بن لادن جیسے ارب پتی گھرانوں کے نوجوان بھی شامل ہوئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت رائٹ سائیڈ آف ہسٹری تھا۔ 
یہ بات ذہن میں رہے کہ روس کے خلاف افغان جہاد کا فیصلہ ایک الگ چیز ہے، اس فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جو پالیسی بنائی گئی، اسے جس انداز میں عملی جامہ پہنایا گیا، ... اس پر رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس وقت کی حکومت نے جس طرح پالیسی پر عمل کیا، اس میں بعض چھوٹی موٹی غلطیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے بلنڈر ہوئے۔ جنرل ضیاء نے امریکیوں سے تین باتیں منوائیں۔ افغان فیلڈ کمانڈروں کو امریکی نہیں بلکہ پاکستانی ادارے پیسے اور ہتھیار فراہم کریں گے، پاکستانی ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوگی اور جنرل ضیاء کے اقتدار کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ ان تینوں کو منوایا گیا۔ کاش جنرل ضیاء ایک اور بات کا خیال رکھتے، جو انہیں خود کرنا تھی، وہ جہاد افغانستان کے مضمرات سے پاکستانی معاشرے کو بچانے کی کوشش کرتے اور ایک اچھی فول پروف ایگزٹ سٹریٹجی بناتے کہ اگر روس شکست کھا کر واپس چلا گیا تو اس سب کچھ کو کس طرح وائنڈ اپ کیا جائے؟... اس سب پر انشاء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں