اردو کے ساتھ کھڑے ہوں

برسوں پہلے ایک انگریز پروفیسر نے مجھے دلچسپ نکتہ سمجھایا، ایک ایسی بات جس پر بہت بار بحث مباحثے کر چکے تھے، مگر وہ ذہن میں واضح نہیں ہو پا ئی تھی۔ہم دیسی لوگ روایتی طور پر ہر گورے کو انگریز کہہ دیتے ہیں۔ جس گورے کی میں نے بات کی، وہ سچ مچ کا انگریز تھا۔ لندن کاقدیمی رہائشی، وکٹورین سٹائل کا کاٹھا انگریز ، ایک خاص ڈھب کے ملبوسات پہنتا، سر پر مخصوص ہیٹ ، منہ میں سگار ٹھونسے وہ انگریزی فلموںکا کوئی کردار لگتا۔ علمی آدمی تھا، اس لئے اپنے رکھ رکھائو کے باوجود اس میں طالب علموں کے لئے ایک خاص قسم کی اپنائیت تھی۔ میرے جیسے نوجوان اپنی انگریزی بہتر کرنے کے چکر میں اور گورے کو قریب سے دیکھنے کی چاہ میں قریب جا بیٹھتے۔
یہ بیس بائیس سال پہلے کا قصہ ہے، جب ہم بزعم خود قانون کی تعلیم حاصل کرنے کراچی مقیم تھے۔ یہ اور بات کہ طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں کے باعث تعلیمی ادارے تو مہینوں بند رہتے اور ہمارا تمام وقت پرانی کتابوں کی دکانیں چھانتے ،ادب ، تاریخ اور پیرا سائیکالوجی کی کتابیں ڈھونڈتے اور پڑھتے گزرتا۔ بات اس انگریز پروفیسر کی ہو رہی تھی۔ ایک روز تین چار طالب علم لائبریری کے باہر اس کے پاس بیٹھے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں بھی وہاں چلا گیا۔ قومی زبان کے حوالے سے بحث چل رہی تھی۔ ایک پُرجوش نوجوان اردو کے حق میں تقریر کررہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارا حکمران طبقہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہیں کر رہا ، انگریزی ہمارے اوپر مسلط ہوچکی ہے، اس سے جان چھڑانی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ ایک دولڑکے اردو کی مخالفت میں اور انگریزی کے حق میں بات کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی عالمی زبان ہے، آج کے دور میں ہم دنیاسے کٹ کر نہیں جی سکتے ، تمام علوم انگریزی میں ہیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ بڈھا پروفیسر اپنی روایت کے مطابق چپ کر کے سنتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد کسی نے اس سے رائے مانگی تو بڑے نرم لہجے میں اس نے کہا، ''دونوں اطراف کی بات درست ہے، غلط کچھ بھی نہیں۔ انگریزی بلاشبہ عالمی زبان بن چکی ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور کی زبان بن جانے سے علوم کا ذخیرہ اس میں منتقل ہو چکا ، نت نئی کتابیں انگریزی میں لکھی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے تو انگریزی کو نظرانداز کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔ جن ممالک کی اپنی زبانیں صدیوں پرانی ہیں ، وسائل کی بھی وہاں کمی نہیں، یہ لوگ تو ہر نئی کتاب کو چند ہی دنوں ، ہفتوں میں ترجمہ کر لیتے ہیں۔۔ ان سب باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی قومی زبان کو ترجیحی مقام دیا جائے ، دفتری اور سرکاری زبان تو ہر حال میں قومی زبان ہی ہونی چاہیے۔ پاکستا ن میں مسئلہ انگریزی کی افادیت کا اور اردو کی غیر افادیت کا نہیں۔ ایسا نہیں کہ انگریزی کو اس لئے اہمیت دی جا رہی ہے کہ اس میں زیادہ وسعت ہے یا اسے سیکھنا بہت ضروری ہے ۔ اصل مسئلہ تہذیبی کمتری کا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ، اس میں سیاستدان شامل ہوں، جرنیل ، صنعت کار یا پھر بیوروکریٹ... یہ سب ایک خاص قسم کے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ انگریزی کو انہوں نے اس لئے اپنایا ہوا ہے کہ وہ عام آدمی کی زبان نہیں۔ عام آدمی کی رسائی سے دور ہے ۔اچھی انگریزی بولناقابلیت کی علامت نہیں۔ قابلیت کا تعلق علم سے ہے اور علم کا آئیڈیاز اور استدلال سے۔زبان تو ابلاغ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنا ہے تو اسے پہلے اپنی اشرافیہ پر نافذ کرنا ہوگا۔ ‘‘
بوڑھے پروفیسر کی بات سن کر اس وقت میں حیرت زدہ رہ گیا تھا، بعد میں برسوں اس پر غور کرتا رہاتو اس کی صداقت کا احساس ہوا۔ یہ واقعی سچ ہے کہ اصل مسئلہ پاکستانی اشرافیہ ہے۔ حکمران طبقہ خواہ وہ سیاستدان ہوں یا جرنیل، بیوروکریسی، صنعت کار،ملٹی نیشنل کلچر کے اسیرادارے، این جی اوز ... یہ سب اس تہذیبی برتری کا شکار ہیں۔ یہ احساس کمتری مختلف وجوہات کی بنا پر ان میں منتقل ہوا ہے۔ پاکستان کی بیورو کریسی نے آئی سی ایس (انڈین سول سروس)سے جنم لیا ہے۔ تقسیم سے پہلے کی انڈین سول سروس میں دانستہ طور پر ، کوشش کر کے ایک خاص قسم کا انگریزی کلچر ڈالا گیا تھا۔ اس وقت کے برطانوی دماغ بیورو کریسی کو عام ہندوستان سے جدا کرکے تاج برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے رشتے میں باندھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے انگریزی بولنا، انگریزی لکھنا، انگریزی لباس پہننا اور انگریزی لائف سٹائل اپنانا لازمی قرار دیا۔ یہ سب پاکستانی سول سروس کو ورثے میں ملا، اپنے تجربے سے انہوں نے سیکھا کہ انگریزی بول کر وہ عام پاکستانی کو مرعوب کر سکتے ہیں، اسے اپنے سے کمتر اور نیچا دکھا سکتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے اسی انگریزی کلچر کو جاری رکھا، بلکہ سول سروس اکیڈمیوں میں خاص طور پر اس کلچر کو لازمی حصہ بنایا تاکہ نوجوان افسر بھی اسی انگریزی ورثے کو لے کر چلیں۔ بیورو کریسی میں اچھی انگریزی میں ڈرافٹنگ کرنے والا قابل اور اہل افسرسمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ قابلیت کا کسی زبان میں ڈرافٹنگ سے کیا تعلق ؟
پاکستانی بیوروکریسی کی طرح فوج میں بھی برٹش آرمی کے اثرات آئے، وہی نسل در نسل سرایت کر رہے ہیں۔ رہے سیاستدان توان میں سے بعض بچپن ہی سے باہر پڑھنے چلے گئے اور نوبت یہ پہنچی کہ اپنی قومی زبان سے بہتر ابلاغ وہ انگریزی میںکرتے تھے۔انگریزی ان کی مجبوری بن گئی۔ کچھ سیاستدان جن کا تعلق روایتی اشرافیہ سے نہیں تھا، مگر طاقت اور دولت آ جانے کے بعد انہوں نے بھی اپنے بچوں کو باہر کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا اور اب وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اپنے بچوں کو عوام سے مختلف، برتر اور اونچا ثابت کرنے کابہترین طریقہ انگریزی زبان ہی ہے۔ یہی حال دوسروں کا ہے۔ملک میں کوئی بھی نوجوان اپنے آپ کو نمایاں اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہمعصروں سے ممتاز ومنفرد ہے تو اس کا واحد طریقہ انگریزی زبان ہے۔ اچھی انگریزی بولنے اور اچھی انگریزی لکھنے والے کو خود بخود ہی قابل تصور کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کی اصل جڑ یہی تہذیبی احساس کمتری ہے۔اسے ختم کر دیا جائے تو پھر مسائل ازخود کم ہوجائیں گے۔ ملک کے لئے یہ طے کرنا مشکل نہیں کہ کن کن شعبوں میں انگریزی میں مہارت درکار ہے اور کہاں نہیں۔ 
تھوڑا سا غور کر لیا جائے تونوے فیصد شعبوں میں انگریزی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ضلعی انتظامیہ ، جس کا تمام تر تعلق عوام سے ہوتا ہے ،وہاں انگریزی کا کیا کام؟ پولیس، انتظامیہ، محکمہ مال، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم اور اس طرح بیشتر وزارتوں میں یہی صورتحال ہے۔ قانون کے محکمے میں بھی بہت سارا کام اردو میں ہوسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وزارت خارجہ میں انگریزی یا غیرملکی زبانوں کے ماہرین کی ضرورت پڑے گی،وزارت خزانہ یا ایک آدھ ٹیکنیکل قسم کی وزارت میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم ہے، کئی ممالک میںاعلیٰ تعلیم ان کی اپنی زبانوں میں دی جاتی ہے۔ اس میں کچھ دقت ہے تو عبوری طور پر سائنسی مضامین انگریزی میں پڑھا لئے جائیں اور سوشل سائنسز اپنی قومی زبان میں پڑھ لئے جائیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہرلفظ کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا جائے، جو الفاظ یا اصطلاحات اردو میں چل رہی ہیں، انہیں ویسا ہی چلالیں۔ اردو کوپاکستان میں دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں، اصل دقت اور مشکل اردو کو پاکستانی اشرافیہ کی زبان بنانا ہے۔ اس میں شدید مزاحمت سامنے آئے گی۔ یہ اشرافیہ کبھی اردو کو قبول نہیں کرے گی، یہ اس کی بقا، تہذیبی برتری اورغالب قوت ہونے کا معاملہ ہے۔ اشرافیہ کو اس کے لئے مجبور کرنا پڑے گا۔ عدلیہ، میڈیا، انٹیلی جنشیا، سیاسی جماعتیں ، فعال طبقات... سب کو مل کر ایسا کرنا ہوگا۔ عدلیہ کے ایک فیصلے نے اس عمل کا آغاز تو کر دیا ہے، مگر مکمل نفاذ کے لئے ہم سب کو اردو کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں