کام ختم نہیں ہوا

سکندر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کسی بڑے معرکے کا اختتام ہوتا، وہ تھکا ہارا اور کبھی زخمی ہونے کے باوجود اپنے خیمے کا رخ نہ کرتا ۔ اس کی بیشتر لڑائیاں فتح پر ختم ہوئیں، کامیابی کے نشے میں سرشار ہو کروہ آرام کرنے چلا جاتا تو یہ معمول سمجھاجاتا۔سکندر اس کے بجائے عام سپاہی کا لباس پہن کر ، چہرے پر سیاہی کے داغ لگا کر لشکر گاہ میں گھومنا شروع کر دیتا۔ جگہ جگہ مختلف الائو جل رہے ہوتے، جس کے اردگرد سپاہیوں کے گروہ گھیرا ڈال کر بیٹھتے ، سکندر ان میں شامل ہو جاتا۔ کراہتے ہوئے دن کی سخت لڑائی کا ذکر چھیڑتا اور سپاہیوں کے تاثرات نوٹ کرتا۔اسی طرح وہ دو تین گھنٹوں میں اپنا رائونڈ مکمل کر لیتا، اسے مکمل آگہی ہوجاتی کہ اس کے سپاہیوں پر کیا گزری اور وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے خیمے میں جاتا، گرم پانی سے منہ ہاتھ دھوتا، اپنا شاہانہ لباس پہن کر باہر آتا، نقارہ بجا کر سپاہیوں کو متوجہ کیا جاتا اور پھر سکندر کسی اونچی جگہ پر کھڑا ہو کر ان سے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کرتا، '' مجھے معلوم ہے کہ آج کا دن کتنا سخت گزرا، ہمارے کئی ساتھی ساتھ نہیں رہے، بہت سے زخمی ہوئے، باقی تھکے ہارے ہیں، مگر میری اپنی بھی یہی حالت ہے، میرے بھی دوست بچھڑ گئے ہیں، زخم مجھے بھی آئے ، تلوار چلا چلا کر بازو میرے شل ہوچکے، اہم بات مگر یہ ہے کہ ہم فتح یاب ہوچکے۔اس فتح سے ہمیں خوش ہونا چاہیے، یہ ہم سب کا حق بنتا ہے۔ جشن مگر آج نہیں ہوگا، آج رات لڑائی کا جائزہ لیں گے، کہاں ہم سے غلطیاں ہوئیں، کیا ہم کر سکتے تھے ، جو نہیں کیا، جو نہیں کرنا چاہیے تھا، وہ غلطی ہم سے ہوگئی۔ یہ سب آج رات دیکھیں گے، تمام بڑے کمانڈر میرے خیمے میں آ جائیں، ہم اس پر بات کریں گے، ہر دستے کا کمانڈر اپنے سپاہیوں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر گفتگو کرے۔ کل سے تین دن تک شاندار جشن ہوگا۔ جتنا کھا سکتے ہیں، کھائیں، جتنا پی سکتے ہیں پی لیں، جو جی چاہے کریں،اخراجات سب میرے ذمے ہوں گے۔ ‘‘یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سکندر کو اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے کتنی مقبولیت اور کامیابیاں ملیں۔ اس کے سپاہی اسے دیوتا سمجھتے تھے، جسے کبھی شکست نہیں ہوسکتی۔ سکندر بھی خود کو زیوس دیوتا کا فرزند کہلانا پسند کرتا تھا کہ یونانیوںپر حکومت کرنا اس طرح آسا ن ہوجاتا، مگر وہ زمینی حقائق پر نظر رکھتا، اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرتا، ان سے سیکھتا اور انہیں دہرانے سے گریز کرتا۔
ضمنی انتخاب کا معرکہ اختتام پذیر ہوچکا۔ ایک بھونچال تھا جو تھم گیا ، حالات معمول پر لوٹ رہے ہیں، اگرچہ تحریک انصاف ایک دو تکنیکی نکات پر دھاندلی کا ایشو اٹھانا چاہتی ہے، لیکن مجموعی طور پر تحریک انصاف کے اندر بھی یہ تاثر ہے کہ اب الیکشن ختم ہوگیا، اس سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ن لیگ نے مختصر سا جشن منایا یا منانے کا تاثر دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسلم لیگ ن کی قیادت یا تحریک انصاف کے لیڈروں نے اپنی کارکردگی کا تجزیہ کیا ہے یا نہیں، کئی ایسی باتیں بھی ہیں جو دونوں بڑی جماعتوں کو نوٹ کرنا چاہئیں، ان کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اس الیکشن سے مختلف ٹرینڈز سامنے آئے ہیں، جن کا تجزیہ گہرائی سے کرنا ہوگا۔
عبدالعلیم خان کو ٹکٹ ملنے اور پھر ان کی مہنگی ترین انتخابی مہم نے جہاں الیکشن کمیشن اور پورے انتخابی نظام کے لئے سوالات پیدا کئے ہیں، وہاں ہمارے ووٹرز کے معیار کے حوالے سے بھی شکوک پیدا ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے امیدوار کے حوالے سے ماضی میں بہت کچھ کہا گیا تھا۔ درجنوں کالم ان کے خلاف لکھے گئے، بہت سے ٹی وی پروگراموں میں الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ خود ان کی پارٹی کے اندر بہت الزامات لگتے رہے۔ لاہور کی تنظیم کے اندر ایک بڑا گروپ ان کے خلاف رہا، جسٹس وجیہہ الدین نے پارٹی الیکشن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بعض دوسرے رہنمائوں کے ساتھ عبدالعلیم خان پر بھی سخت ترین اعتراضات کئے اور پارٹی سے نکال دینے کی سفارشات کیں۔ میڈیا میں تو یوں لگتا تھا کہ ایک بڑا طبقہ ان کا ذاتی مخالف ہے ،جو تنقید اور طنز کے تیر برسانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ اس الیکشن میں البتہ یکسر مختلف نقشہ نظر آیا۔مجھے نہیں معلوم کہ ان الزامات میں سے کوئی درست تھا یا نہیں، اس بحث میں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں، میرا تو سادہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ بیس پچیس کروڑ روپے خرچ کر کے الزامات کے بوجھ تلے دبا ایسا کوئی بھی شخص تمام الزام دھو سکتا اور قومی سطح کے لیڈر کے طور پر ابھر سکتا ہے؟ آنکھیں چندھیا دینے والی انتخابی مہم کے بعد ماضی کا ہر الزام ازخود ختم ہوجائے گا، ووٹر آنکھیں بند کرکے اسے ووٹ ڈال دیں گے۔ کیا اس کے بعد صرف پیسے کے زور پر سیاست کرنے کا چلن زور نہیں پکڑے گا ؟ سیاسی جماعتیں جو پہلے ہی دیہی علاقوں میں طاقتور امیدواروں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں، اب شہری حلقوں میں بھی ٹکٹ دینے سے پہلے امیدوار کے لئے ارب پتی ہونے کی لازمی شرط عائد کردیں گی؟ 
اوکاڑہ کی صورتحال بھی ملی جلی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے طریقہ کار کے مطابق ایک امیدوار کو ٹکٹ جاری کیا۔ اس حلقے سے ایک اور مسلم لیگی جو بااثر اور طاقتور خاندان سے تعلق رکھتاہے، پندرہ بیس کروڑ روپے خرچ کرنا جن کے لئے معمولی بات ہے، اس نے پارٹی ڈسپلن کی دھجیاں اڑا دیں اور اپنے پیسے، تعلقات اور جوڑ توڑ کے ذریعے ایسی انتخابی مہم چلائی کہ حکومتی جماعت کا باقاعدہ امیدوار پیچھے رہ گیا۔ حکمران جماعت کی کمزوری کی انتہا دیکھیں کہ جیسے انہیں اندازہ ہوا کہ آزاد امیدوار جیت سکتاہے، انہوں نے اپنے امیدوار کی کھل کر سپورٹ کرنے، وہاں جا کر جلسے ، ریلیوں کے ذریعے اسے تقویت پہنچانے سے گریز کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو آزاد امیدوار پارٹی ضابطوں کے پرخچے اڑا رہا ہے، اس کے خلا ف پوری قوت سے مہم چلائی جاتی اور اپنے امیدوار کو جتوا کر ثابت کیاجاتا کہ پارٹی سے بڑا کوئی نہیں۔ اس کے قطعی برعکس ہوا اور جب آزاد امیدوار جیت گیا تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہماری درپردہ حمایت اسے بھی حاصل تھی۔ کسی بھی جمہوری ،سیاسی کلچر میں اس سے بھیانک مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس امیدوار کو ٹکٹ دیا ، بعد میں اسے یوں دلبرداشتہ کیا جائے کہ ہم نے ٹکٹ تو تمہیں دے دیا تھا، مگر 
تمہارے مخالف کے ساتھ بھی سازباز جاری تھی۔مسلم لیگ ن کو لاہور میں محسن لطیف کی شکست کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ کہیںان کے لئے انتخابی مہم چلانے میں کوتاہی تو نہیں برتی گئی یا انہیں اندرونی اختلافات کی بنا پر تو نہیں ہروایا گیا۔اوکاڑہ کے انتخاب میں تحریک انصاف کا تضاد ملاحظہ فرمائیں کہ ان کے ایم پی اے اور مقامی تنظیم نے پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کرنے کے بجائے آزاد امیدوار کی حمایت کی ۔ عمران خان وہاں اپنے ا میدوار کی سپورٹ کے لئے جلسہ کرنے گئے اورتقریر میں اس ایم پی اے کا نام لے کر کہا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر تم پارٹی نشان پر الیکشن لڑنے والے اشرف سوہنا کی حمایت کرو ، ورنہ پارٹی سے نکال دوں گا۔ممکن ہے اشرف سوہنا کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ سیاسی طور پر غلط ہو، مقامی تنظیم کو اعتماد میں لینا چاہیے، مگر جب فیصلہ ہو جائے تو پھر اس پر عملدرآمدکرانا چاہیے۔ اس ایم پی اے نے اپنے لیڈر کی بات کو ذرا برابر اہمیت نہ دی اور اسی آزاد امیدوار کی حمایت جاری رکھی۔ ستم ظریفی یہ کہ اس کے خلاف کارروائی تو کس نے کرنی ہے، عمران خان او ر چودھری سرور اسی آزاد امیدوار کو فون کر کے مبارک باد اور اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی درخواست کر رہے ہیں۔بھائی ‘یہ کہاں کا سیاسی کلچر ہے؟یہ درست ہے کہ سیاست کے عملی تقاضے بھی ہوتے ہیں، زمینی حقائق بھی کم اہم نہیں، مگر سیاسی جماعتوں کو اپنا ڈسپلن اور اپنی قوت بھی تسلیم کرانی پڑتی ہے ۔ آزاد امیدوار اگر یوں جماعتوں کو یرغمال کر لیں اور پارٹی لیڈر ان کے آگے سر جھکا دیں تو اگلے ایک سو سال تک بھی سیاسی کلچر پیدا نہیں ہوسکتا۔ الیکشن کا بھونچا ل تھم گیا، سیاسی جماعتوں کو مگراپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ بلدیاتی انتخابات کا معرکہ درپیش ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں