بلدیاتی انتخاب سے پھوٹتے سبق

بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا، سیاسی بنیاد پر پہلی بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ ہمارے ہاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں دانستہ غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کرا کر ایک نئی سیاسی پنیری اگائی گئی، ذات برادری اور پیسے کے زور پر بلدیاتی سیاست کرنے والی شخصیات، دھڑے اور گروہ وجود میں آئے، جنہوں نے اس قدر سیاسی قوت حاصل کر لی کہ بعد میں سیاسی جماعتیں انہیں وزن دینے پر مجبورہو گئیں۔اس بار سیاسی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا تجربہ کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو پہلی بار موقعہ ملا کہ یونین کونسل کی سطح پر اپنی قوت اور جماعتی نظم وضبط کو تسلیم کرا سکیں، کہیں کہیں ایسا ہوا بھی ، لیکن معلو م ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ابھی اپنی قوت کا خود اندازہ نہیں ، ڈرتے جھجکتے انہوں نے کہیں کہیں اپنی اتھارٹی کو منوانے کی کوشش کی، کہیں پر کامیاب ہوئے ، بعض جگہوں پر البتہ مقامی امیدوار فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے آزاد لڑتے ہوئے جماعتی امیدوار کو شکست سے دوچار کر دیا۔ 
مسلم لیگ ن کے اندر گروپ بندی کے حوالے سے اہم ترین معرکہ فیصل آباد میں ہوا، جہاں شریف فیملی کے قریبی عزیز اور سابق مئیر چودھری شیر علی نے اپنے وفاقی وزیر بیٹے کے ساتھ کھل کر بغاوت کا اعلان کیا اور پورے شہر میں اپنے گروپ کو زوردار طریقے سے الیکشن لڑایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ امیدوار شیر کے نشان پر لڑے تو بعض کے لئے الگ نشان لینا پڑا۔ انتخابی نتائج دلچسپ رہے، چودھری شیر علی اپنے جس بیٹے کو مئیر بنانا چاہتے تھے ، وہ ہار گیا، دوسری طرف ان کے سب سے بڑا حریف رانا ثنا اللہ نے جو امیدوار مئیر کے لئے میدان میں اتارا تھا، وہ شیر کے نشان پر بھی الیکشن ہار گیا۔ کالم لکھتے ہوئے دنیا فیصل آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر،باخبر ومتحرک صحافی دوست غلام محی الدین سے بات ہوئی ، وہ کہنے لگے،'' فیصل آباد میں عام تاثر یہی ہے کہ ووٹروں نے تمام بڑے گروپوں کو سبق سکھایا ، لیڈر ہار گئے ،مگر ان کے گروپ کے لوگ جیت گئے۔ ‘‘پنجاب میں تین سو سے زیادہ آزاد امیدواروں کا منتخب ہونا ن لیگ کے لئے الارمنگ ہے۔ ان میں سے بیشتر امیدوار بنیادی طور پر مسلم لیگی ہیں اور وہ پارٹی میں آ جائیں گے، مگر دو باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ ایک تو یہ کہ کچھ جگہوں پر مقامی تنظیم نے ناموزوں امیدوار کو چیئرمین، وائس چیئرمین کے لئے نامزد کر دیا، جو الیکشن ہار گئے، جبکہ وہاں زیادہ بہتر اور مضبوط امیدوار موجود تھے، مگر انہیں اس وقت نظرانداز کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ مسلم لیگی ووٹر ہر جگہ کھمبوں کو ووٹ نہیں دیتا۔ ن لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا سامنا تحریک انصاف جیسی پارٹی سے ہے جو اپنے مخالف کی کمزوریوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی اور جوڑ توڑ کی سیاست میں وہ بہت پیچھے ہے، ورنہ ان تین سو میں سے ڈیڑھ دو سو کے قریب نشستیں تحریک انصاف کو جا سکتی تھیں ، اگر وہ سمارٹ طریقے سے کھیلتی ۔ بہرحال بلدیاتی انتخابات نے مسلم لیگ ن کا مورال بہت ہائی کر دیا ۔ لاہور میں جس انداز سے انہوں نے لینڈ سلائیڈ کامیابی حاصل کی، اس کی کسی کو تو قع نہیں تھی۔ انتخابات سے دو دن پہلے سینئر صحافی سجاد میر کے مارننگ شو میں شریک تھا، انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے بارے میںآن ائیر رائے پوچھی۔ میرا بے ساختہ جواب تھا کہ مسلم لیگ ن کو سبقت حاصل ہے، ایک دو اور ٹی وی پروگراموں میں الیکشن کی رات یہی بات ہوئی۔ بیشتر صحافیوں کا یہی اندازہ تھا کہ ن لیگ میدان مار لے گی،مگر اس کی توقع نہیں تھی کہ وہ صفایا ہی کر ڈالے گی۔ مسلم لیگ ن نے بہرحال یہ کر دکھایا، انہیں اس پر خوش ہونے، جشن منانے کا پورا حق حاصل ہے۔ جماعت اسلامی کو اس بار پھر دھچکا پہنچا۔ افسوسناک امر یہ ہوا کہ لیاقت بلوچ کے صاحبزادے بلے کے نشان پر اور فرید پراچہ کے بیٹے شیر کے نشان پر الیکشن لڑے ،مگر پھر بھی ناکامی ہوئی۔ ایسا نہیں کہ جماعت کے مرکزی قائدین کے صاحب زادگان دوسری پارٹیوں میں شامل ہوگئے، یہ مقامی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اوپن پالیسی کا شاخسانہ تھا، جس سے یہ مذاق بنا کہ ایک یوسی میں جماعت بلے کے ساتھ اتحاد کر کے اور ساتھ والی گلی میں دوسری یوسی پر شیر کے نشان کے ساتھ اتحاد کر کے لڑ رہی ہے۔ جماعت کو اپنی اس پالیسی کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ حاصل کیا ہوااور رسوائی کس قدر سمیٹنی پڑی؟
تحریک انصاف کے لئے انتخابی نتائج بہت بڑا دھچکا ہیں۔ عمران خان کو ایسی شکست کی شائد بالکل توقع نہ ہو، ان کے ساتھ کم وبیش 97ء کے انتخابات جیسا حال ہوا۔ اسلام آباد سے ہمارے تجزیہ نگار دوست میاں آصف کا خیال ہے کہ ریحام خان اور عمران خان کی طلاق کے اعلان کا بہت منفی اثر پڑا ، ورنہ تحریک انصاف کے امیدواروں کی پوزیشن ایسی بری نہیں تھی، اس اعلان نے عمران کو دھچکا پہنچایا۔ میری ذاتی رائے میںاگرچہ ا س اعلان سے پہلے بھی تحریک انصاف کی حالت پتلی ہی تھی، مگر کپتان کو اس دانش مند کی گردن ضرور ناپنی چاہیے ، جس نے بلدیاتی انتخابات سے صرف ایک روز پہلے یہ اعلان میڈیا تک پہنچانے کا مشورہ دیا۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان کے مشیروں کے حلقے میں سے بعض کی وفاداریاںکہیں اور ہیں۔عمران کے جو ساتھی ان کے نجی معاملات کی خبریں اپنے صحافی دوستوں کو دیتے رہے ، انہوں نے بھی اپنے لیڈر کے ساتھ دوستی نہیں نبھائی۔ 
تحریک انصاف کی شکست کی اصل وجہ عمران کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی کا رونما ہونا ہے۔عمران نے مئی تیرہ کے انتخابات سے پہلے نظام میں تبدیلی کا نعرہ لگا یا اور نئے سیاسی کلچر، کرپشن اور بددیانت مافیاز کے خلاف جنگ کی باتیں کر کے نوجوانوں کو متحرک کیا اور پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دوبارہ سے سیاسی سسٹم میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔ پیپلزپارٹی کی ناقص پالیسیوں کا بھی انہیں فائدہ پہنچا اور وہ اینٹی نواز شریف ووٹ بینک کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے۔ عام انتخابات کے بعد سے وہ رفتہ رفتہ الیکٹ ایبلز پر انحصار بڑھا رہے ہیں۔ چودھری سرور کے آنے سے برادری کی بنیاد پر جوڑتوڑ اور طاقتور امیدواروں پر تکیہ کرنے کی پالیسی کو تقویت ملی۔ایک خاص سطح کی حقیقت پسندانہ سیاست کے طور پر یہ اتنا غلط بھی نہیں، لیکن عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ الیکٹ ایبلز کی سیاست اور جوڑ توڑ میں وہ مسلم لیگ ن سے کوسوں پیچھے ہے۔میاں برادران اس طرز سیاست کے ماہر ہیں اور پھر انہیں اقتدار میں ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ الیکٹ ایبلز ہمیشہ اقتدار کی طرف جاتے ہیں۔ اس طرز سیاست میں عمران ہمیشہ پیچھے رہیں گے۔ انہیں اپنی سیاست میں کچھ غیرمعمولی عنصر شامل کرنا پڑے گا اور وہ نظریے ہی سے آ سکتا ہے۔ نظریاتی سیاست کو پیچھے ڈال کر تحریک انصاف ایسے ہی نتائج حاصل کرے گی، جیسا اس بار سامنے آئے۔ الیکٹ ایبلز کو بھی ساتھ ملائیں، مقامی سطح پر بااثر اور طاقتور گروپوںکے ساتھ جوڑ توڑ بھی کریں، لیکن اپنے نظریاتی عنصر کو نہ چھوڑیں۔ غریب، پسماندہ، نچلے طبقات کے ووٹروں کو متحرک کرنا ہوگا۔ ان کے لئے روایتی سیاست اور روایتی پارٹیوں میں کچھ نہیں، پیپلزپارٹی انہیں ہمیشہ متحرک کر کے جیتتی رہی، اب اس کے کمزور پڑ جانے سے نچلے اور غریب طبقات کی سیاست کوئی نہیں کر رہا۔ عمران خان کو یہ پرچم اٹھانا ہوگا۔ اس کے بغیر پنجاب میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ 
عمران خان کو اپنی تنظیم سازی پر بہت زیادہ وقت صرف کرنا ہوگا۔ یونین کونسل کی سطح پر وہ اپنی پارٹی کو منظم کر کے آئندہ انتخابات کے لئے ایسی زمین تیار کر سکتا ہے، جس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اسے جنوبی پنجاب میں جانا ہوگا، جہاں کی سیاست میں ایک بڑا خلا پیدا ہوچکا ہے، بہاولپور ڈویژن ، جہاں پیپلزپارٹی اکثریت لیتی آئی ہے، وہاں تحریک انصاف کو اس کی جگہ لینی چاہیے، اسی طرح کئی دیگرسرائیکی اضلاع میں گنجائش موجود ہے۔ عمران کو اندرون سندھ بھی جانا چاہیے، اینٹی پیپلزپارٹی ووٹ کو وہ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، مگر یہ کام بنی گالہ میں بیٹھے بیٹھے نہیں ہوسکتا۔ تیسرا اور سب سے اہم کام خیبر پختون خوا میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانا ہے۔ پنجاب ایک آئینہ ہے، جہاں پر کے پی کے میں اچھی کارکردگی دکھانے کے بعد پی ٹی آئی کی پرکشش تصویر ابھر سکتی ہے۔ اس کے بغیر ہرگز نہیں۔ عمران خان نے بہت وقت ضائع کر دیا۔ خیبر پختون خوا پر فوکس کرنا ہوگا، خود جا کر پشاور وقت دیں یا کچھ اور کرے، مگر یہ صوبہ ماڈل صوبے کے طور پر سامنے آنا چاہیے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں یوں سمجھئے کہ دس اوورز میں ساٹھ رنز درکار تھے، مشکل ہدف ، چھ کی ایوریج سے رنز بنانے تھے، مگر چار اوورز ضائع ہوگئے ، اب چھ اوورز میں ساٹھ رنز ہی بنانے ہیں، دس کی ایوریج سے ، بہت مشکل ہدف ، مگر اسے پورا کرنے والے کھلاڑی ہیرو بن جائیں گے۔ ہیرو بننے کی کچھ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔ وقت ، حالات اور سیاست عمران خان سے وہی قیمت مانگ رہے ہیں۔ اپنے گھریلو معاملات سے وہ چھٹکارا پا چکے، اب میدان عمل میں کود پڑنے اور اپنی تمام توانائی کھپا دینے کامرحلہ آ پہنچا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں