دوسرا رائونڈ

بلدیاتی انتخابات کا دوسرا رائونڈ اختتام پذیر ہوا۔ آئیے، تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی انتخابی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن دوسرے مرحلے میں بھی فاتح ٹھہری ہے۔ اس سیاسی حقیقت کو اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین جماعت ہے، جس کی شہری اور دیہی علاقوں میں پوزیشن کم و بیش یکساں ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کو ایڈوانٹیج حاصل رہتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن میں طاقتور مقامی شخصیات (الیکٹ ایبلز)کی بڑی تعداد موجود ہے، جو انتخاب جیتنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس نے نہ صرف پنجاب میں میدان مارا بلکہ اپنی مخالف جماعتوںکا ایک طرح سے صفایا کر دیا۔ 
مسلم لیگ ن کی کامیابی کا انحصار تین بنیادی ستونوں پر ہے... میڈیا مینجمنٹ، اوپر سے نچلی سطح تک تنظیمی ڈھانچہ اور الیکشن ڈے مینجمنٹ۔ میڈیا کیمپین میں اس کے رہنما ماہر ہیں، بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے پنجاب حکومت کی گورننس کا ایک خاص تاثر بنا رکھا ہے۔ میگا پروجیکٹس کی چکا چوند اور نت نئے منصوبوں کی دلکش کوریج سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک اساطیری ہالہ بن چکا ہے۔ نندی پور پاور پروجیکٹ، سولر پروجیکٹ اور کول پاور منصوبوں سے لے کر یورو بانڈز کے سکینڈلز اور رانا مشہود اور رانا ثناء اللہ جیسے وزرا کے حوالے سے اٹھنے والے سنگین سوالات کے بعد بھی اگر مسلم لیگ ن اپنے اس امیج کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے تو ان کی میڈیا مینجمنٹ کو داد دینا بنتا ہے۔ مسلم لیگ ن کسی بھی زاویے سے ایک نظریاتی جماعت نہیں، اس کا کیڈر اور ورکر بھی مختلف سوچ کا مالک ہے، مگر میاں نواز شریف نے اس قدر سیاسی عصبیت حاصل کر لی ہے کہ اب پنجاب کی سیاست پرو نواز شریف اور اینٹی نواز شریف ووٹ بینک پر چل رہی ہے۔ کسی زمانے میں یہ حیثیت بھٹو ووٹ بینک کو حاصل تھی۔ میاں برادران نے پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پارٹی کو نچلی سطح تک استوار کر رکھا ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ جیسے شہروں میں وہ بہت طاقتور پوزیشن میں ہے۔ فیصل آباد میں یہ حال ہے کہ ایک دوسرے سے متحارب دونوں طاقتور گروپ بھی مسلم لیگ ن کے سیاسی دائرہ میں رہنے پر مجبور ہیں، سرخ لکیریں عبور کر کے باہر جانے کی کسی میں ہمت نہیںکہ صفر ہو جانے کا خوف ہے۔ الیکشن ڈے سائنس کے مسلم لیگی ماہر ہیں۔ ان کے پاس بڑی تجربہ کار، منجھی ہوئی، پروفیشنل انداز میں کام کرنے والی انتخابی مشینری ہے جسے ووٹروں کو گھر سے نکال کر بیلٹ باکس تک پہنچانے کا گُر آتا ہے، اپنے حریفوں کو دبانے اور پیچھے دھکیلنے کی بھی اس میں کماحقہ قوت موجود ہے۔
سرائیکی، پنجابی محاورے کے مطابق تحریک انصاف پر آج کل برا وقت چل رہا ہے۔ ان سے غلطیاں بھی ہو رہی ہیں اور اردو محاورے کے مطابق آسمان بھی ان کا دشمن ہو چکا ہے۔ پارٹی میں خلفشار سے لے کر عمران خان کی نجی زندگی کے بحران تک ہر بات پریشان کن ہے۔ پہلے مرحلے میں ان کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں ایسے برے نتائج کی 'انصافی‘ نوجوانوں نے خواب میں بھی توقع نہیں کی ہوگی۔ اس بار بھی کم و بیش وہی حال رہا۔ میانوالی والوں نے البتہ عمران خان کا بھرم رکھ لیا۔ خان نے دو دن وہاں لگائے اور اس کے ثمرات انہیں مل گئے۔ چند پاکٹس میں انہیں مزید کامیابیاں بھی ملیں، مگر بنیادی طور پر ان کا سہرا مقامی الیکٹ ایبلز کو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ان کا کھیل ختم نہیں ہوا۔ تمام تر سیاسی اور غیر سیاسی غلطیوں کے باوجود قدرت عمران پر مہربان ہے اور ان کے لیے سیاست میں خاصی گنجائش باقی ہے۔ اینٹی نواز شریف سوچ رکھنے والے ووٹروں، سیاسی کارکنوں، اہل دانش حتیٰ کہ اخبار نویسوں تک کے لیے کپتان ہی واحد آپشن ہے۔ 
عمران خان کو لیکن اب اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ پچھلے سال ڈیڑھ کے دوران کچھ ان کی اپنی غلطیوں، دھرنے کے دوران کی گئی جذباتی، غیر دانشمندانہ تقریروں اورکسی حد تک مسلم لیگ ن کے منظم پروپیگنڈے کی وجہ سے عمران کا امیج ایک غیر سنجیدہ، جذباتی، احتجاجی سیاستدان کا بن گیا، ایسے شخص کا تاثر جس کی ذات میں توازن نہیں، جو اپنے نجی فیصلے درست کر سکتا ہے نہ اس میں پارٹی کے لیے اچھے لوگ چننے کی صلاحیت ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ باتیں درست ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ ایسا تاثر بن چکا ہے جسے ہر حال میں عمران خان کو بدلنا ہو گا۔ ان کے لیے ہمدردی رکھنے والے بھی یہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ پوری طرح فوکسڈ نہیں اور آسانی کے ساتھ انہیں بھٹکایا جا سکتا ہے۔ اگلے روز ایک سینئر تجزیہ کار نے دردمندی سے کہا کہ اگر لاہور کے ضمنی انتخابات سے دو دن پہلے عمران خان لاہور سے چلا نہ جاتا اور الیکشن ڈے پر کارکنوںکے ساتھ ہوتا تو آج سیاست کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ عمران 
خان کو اب پوری یکسوئی کے ساتھ سیاست پر توجہ دینا ہوگی۔ گراس روٹ لیول پر پارٹی کی تنظیم نو، نظریاتی کیڈر کی تشکیل و تربیت اور سب سے بڑھ کر عوام کے لیے ایک نیا سیاسی بیانیہ مرتب کرنا ہوگا؛ نیا پُرکشش ایجنڈا، نیا نعرہ اور اس بار ٹھوس انداز میں ترتیب دیا ہوا اصلاحات کا پورا منصوبہ۔ تبدیلی کا نعرہ اب پہلے کی طرح کارگر نہیں رہا۔ دھاندلی کی اصطلاح کو عمران خان نے اس بے رحمی سے برتا کہ اب کہیں سے دن دہاڑے بیلٹ باکس اٹھا لیے جائیں تو بھی امیدوار اسے دھاندلی کہتے شرمائیں گے۔ عمران خان کو سمجھنا اور ماننا ہوگا کہ جس طرح کی سیاست وہ کر رہے ہیں، اس سے مسلم لیگ ن کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ وہ کسی حد تک انہیں پریشان کر سکتے ہیں، مگر ہمیشہ دوسرے نمبر پر رہیں گے۔ جیت کے لیے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا۔ ایسی نظریاتی لہر پیدا کرنا ہوگی جو مسلم لیگ ن کی روایتی سیاست کو پچھاڑ سکے۔ چھوٹی جماعتیں بلدیاتی انتخابات میں بری طرح ایکسپوز ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی کا دائرہ کار محدود تر ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک نے دھرنے کے دوران ٹھیک ٹھاک کوریج حاصل کی، ان کے حامیوں کا دعویٰ تھا کہ بہت سے حلقوں میں ان کا چند ہزار کا ووٹ بینک موجود ہے۔ بلدیاتی ریلے میں عوامی تحریک تنکے کی طرح بہہ گئی۔ مسلم لیگ ق کا بھی ایسا صفایا ہوا کہ چودھری برادران اپنے آبائی شہر گجرات میں بھی پیر نہ ٹکا سکے۔
پیپلزپارٹی کی عام انتخابات میں پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں بدترین شکست کے بعد اس کے کارکنوں کے حوصلے شکستہ ہو گئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کا جو حشر ہوا، اس نے اس تاثر کو تقویت پہنچائی، مگر سندھ میں پیپلزپارٹی کی جیت نے جیالوں میں نیا حوصلہ پیدا کیا۔ بعض لوگوں کا اس وقت بھی خیال تھا کہ سندھ حکومت نے دانستہ طور پر بعض ایسے اضلاع میں پہلے مرحلے میں انتخابات نہیں کرائے، جہاں پیپلزپارٹی نسبتا کمزور ہے جیسے بدین، سانگھڑ، کسی حد تک تھرپارکر وغیرہ۔ بہرحال پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد جیالوں نے ایک نیا بیانیہ ایجاد کیا: ''دراصل پیپلزپارٹی سستا رہی تھی، اسے ایزی نہ لیا جائے، پنجاب میں بھی وہ کم بیک کرے گی‘‘۔ دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک بار پھر صاف ہوگئی، سندھ میں اسے اکثریت ملی، مگر اس کے سب سے بڑے سیاسی مخالف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بدین میں جس طرح انہیں شکست دی، اس نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ سوشل میڈیا پرکئی لوگ یہ پھبتی کستے رہے کہ لگتا ہے پیپلزپارٹی نے بدین میں بھی ''سستانے‘‘ کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جس طرح کلین سویپ کیا وہ سندھ پیپلزپارٹی کے لیے الارمنگ ہے۔ وہاں تو بلاول بھٹو بھی گئے، بڑا جلسہ ہوا مگر نتائج پیپلز پارٹی کے خلاف نکلے۔ 
ہماری سیاست کے لیے بہتر یہی ہے کہ قومی جماعتیں متحرک اور فعال رہیں تاکہ میدان علاقائی جماعتوںکے ہاتھ نہ لگے۔ پیپلزپارٹی کی اپنی طویل ہسٹری ہے، لیکن سندھ حکومت میں گورننس کے جو مسائل چل رہے ہیں اور جس طرح عام ووٹر کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر اینٹی پیپلزپارٹی جذبات بڑھ رہے ہیں۔ جہاںذوالفقار مرزا جیسا مضبوط مخالف ملے گا، یہ اینٹی پیپلز پارٹی یا زیادہ واضح الفاظ میں''اینٹی زرداری ووٹ‘‘ اس کے پیچھے اکٹھا ہو جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں، ووٹروں کو اپنی پارٹی پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ سندھ میںکچھ ڈلیور کریں اور کرپٹ لوگوںکو سائیڈ پر کر دیں۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کی کنجی خیبر پختونخوا میں پوشیدہ ہے اور پیپلزپارٹی کی سندھ میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں