بنیادی نوعیت کا فیصلہ

پرسکون ماحول میں بحث جاری تھی ،موضوع ملکی سیاسی صورتحال تھی۔دوراہے پر کھڑا کراچی آپریشن، سول ملٹری تعلقات ، بلوچستان کا منظرنامہ ... ۔سینئر صحافیوں اور دانشوروں کی یہ محفل تھی۔چائے کی چسکیاںلیتے،سینڈوچ سے لطف اندوز ہوتے ملکی وبین الاقوامی صورتحال پر تبصرہ، تجزیہ کرناویسے بھی اچھا لگتا ہے۔پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری کا نیب کے ریفرنسوں سے بری ہوجانا ہر ایک کو بری طرح کَھل رہا تھا۔ ایک دو شرکا نے تلملاتے ہوئے یہ نقطہ اٹھایا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں تمام ثبوت فائلوں سے غائب کرا دئیے، اصل دستاویزات ، شواہد ضائع ہوگئے تو فوٹو کاپیوں پر عدالت کیسے سزاد یتی؟۔بات سیاست میں کرپشن تک چلی گئی۔ جب ملک میں کرپشن اور بیڈ گورننس کی بات ہوتو سندھ حکومت کا تذکرہ لازمی ہے کہ وہاں پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس حوالے سے منفرد قومی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ایسے اچھوتے طریقے ،ایسی غضب کی داستانیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا جب بھی کہیں ذکر آئے ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشت کی فضا کا حوالہ ضرور ملتا ہے۔ اس پر بھی بات ہوئی ،احباب نے نشاندہی کی کہ اس پارٹی نے خوف کی جو فضا بنا رکھی تھی ،وہ اب نہیں رہی، پہلے کی طرح ٹھپے لگانے ممکن نہیں تو اس بار مہاجر عصبیت کا سہارا لیا گیا۔ دھیمے سروں گفتگو چل رہی تھی کہ اچانک ایک سینئرتجزیہ نگار نے اپنی بلند وبانگ آواز میں اعلان کیا ، ''سیاسی جماعتوں کی کرپشن سے ملک نہیں ٹوٹے گا، البتہ ان سیاسی جماعتوں کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس سے نقصان ہوسکتا ہے۔ان کے لہجے کی گھن گرج مزید بڑھ گئی، اسی بلند آہنگی سے بات دہرائی،''پیپلزپارٹی کی کرپشن سے ملک کونقصان نہیںپہنچ سکتا۔اسے نشانہ بنانا البتہ خطرناک ہوسکتا ہے، اسی طرح ایم کیو ایم کو ٹارگٹ نہیں کیا جائے، اس کی سیاسی عصبیت ہے، جو ایسے ختم نہیں ہوسکتی۔‘‘ہمارے یہ کالم نگار دوست مسلم لیگ ن کے فکری ہمنوا ہیں اوران کے تجزیے سے مسلم لیگی بیانیہ یا نقطہ نظر کی خوشبو آتی ہے۔اس موضوع پر وہ تادیر بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔پھر جیسا کہ ایسی دوستانہ نشستوں میںہوتاہے، ایک دوسرے سے اختلاف کرنے والے بھی نہایت خوشدلی سے مسکراتے ہوئے مصافحہ کرتے اور ہاتھوں پر ہاتھ مار کر لطیفے سناتے ہیںاور اپنے گھروں کو چل دیتے ہیں۔اواخر نومبر کی اس گلابی شام بھی ایسا ہی ہوا، لیکن جس طرح ایک بڑے ناول ، افسانے یا فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہاں ختم ہو، اس کے بعد ایک نئی کہانی شروع ہوجاتی ہے، جس میں رنگ قاری یا فلم بین خود بھرتا ہے... بالکل اسی طرح ایک اچھی گفتگو کی نشست بھی ختم ہونے کے بعد ہوا میں تحلیل نہیں ہوجاتی بلکہ سوچنے، غورکرنے کے لئے خاصاکچھ مواد فراہم ہوجاتا ہے۔گفتگو،مکالمہ کے کئی نئے دروا ہوجاتے ہیں۔اس بات پرمیں سوچتا رہاکہ کیا واقعی سب کچھ اتنا سادہ ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ حکومت چلانا ، ادارے بنانا اور اپنے عوام کو اچھی گورننس دینا اہل سیاست کا کام ہے۔ فوج، عدلیہ ، میڈیا یا کوئی بھی اور ادارہ ایسا کرنے کامجاز نہیں، انہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ہی اقتدار میں آتے اور معاملات کار سنبھالتے ہیں،ایسا کرنے کا مینڈیٹ وہ عوام سے حاصل کرتے ہیں،آئین انہیں کچھ اختیارات اور قوتوں سے نوازتا ہے، اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انہیں وہ سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ مغربی دنیا، جہاں سے جمہوریت نے جنم لیا، جو ملک دنیا کو جمہوری طریقے اور روایات سکھاتے ہیں ، انہوں نے اس کا خاص خیال رکھا کہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے احتساب کا شفاف اورنہایت فعال نظام وضع کیا جائے۔احتساب کرنے والے ادارے انہوں نے اس قدر مضبوط بنا لئے کہ کوئی طاقتور ترین برطانوی وزیراعظم ، امریکی صدر یا کوئی اور یورپی سربراہ کرپشن کر کے بچ نہیں سکتا۔ اربوں ڈالر کی لوٹ کھسوٹ تو وہ خیر سپنوں میں بھی نہیں کر سکتے، حال یہ ہے کہ چند ہزار ڈالر کی کرپشن یا ناجائز طریقے سے کسی کو سپورٹ کرنے پر اقتدار ختم ہوجاتا ہے، معمولی سی غلط بیانی بڑے مضبوط اور نامور سیاستدانوں کا سیاسی کیرئر ختم کر دیتی ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے سیاست کو اخلاقیات کے تابع کر تے ہوئے بہت سی شاندار روایات قائم کی ہیں، جن کاخیال ہر ایک کو کرنا پڑتا ہے۔ اقربا پروری، غلط بخشی، اپنے مصاحبین کو اعلیٰ عہدوں سے نواز دینا، ٹھیکے بطور رشوت دینے جیسی باتیں وہاں ممکن ہی نہیں۔
پاکستان میں اس سب کے برعکس ہوتا ہے۔یہاں سیاست اور کرپشن آپس میں یوں مکس ہوچکی ہیں کہ اب ان کو الگ الگ کرنا آسان نہیں رہا۔ویسے بھی یہاں سیاست بنیادی طور پر چند شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے، چھ سات لوگ یا گھرانے ہیں، جن کے گرد پورے پاکستان کی سیاست گردش کر رہی ہے۔بھٹو خاندان جو اب زرداری خاندان میں تبدیل ہوچکا ہے، شریف برادران اور ان کی اولادیں، مولانا فضل الرحمن اپنی اولاد اور بھائیوں سمیت، اسفند یار 
ولی مع اپنے داماد ،پیر جوگوٹھ کے پیر پگاڑا اور ان کی فنکشن مسلم لیگ کے چند الیکٹ ایبلز، نوشہرو فیروز کا جتوئی خاندان، تھرپارکر کے ارباب، گجرات کا چودھری خاندان، تازہ اضافہ بدین کے مرزا خاندان کا ہوگیا۔ عمران خان نے اس سسٹم کو چیلنج کیا، مگر ان کی پارٹی بھی ان کے گرد ہی گھومتی ہے، انہیں الگ کر دیا جائے تو تحریک انصاف کی نوے فیصد قوت ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کل چند سو گھرانے ہیں، جن میں سے ارکان اسمبلی منتخب ہونے ہیں ۔ ہر حلقے میں دو یا تین تگڑے لوگ ہیں، زور، زبردستی یا زر کی بدولت وہ الیکشن لڑتے اور الیکٹ ایبلز کہلاتے ہیں۔ ان کے ذاتی ڈیرے اور ڈیرہ داری سال بھر چلتی ہے، لاکھوں روپیہ وہ خرچ کرتے اور پھر جیت جانے کی صورت میں اس سے دس بارہ گنا وصول کرتے ہیں۔ الیکشن اس قدر مہنگا ہوچکا کہ عام آدمی تو خیر، اچھا بھلا اپر مڈل کلاس لکھ پتی بھی نہیں لڑسکتا۔ سیاست اور سیاسی نمائندے تو موجود ہیں، مگر اصلی روح سے خالی۔درحقیقت یہ سرمایہ دار ہیں، جنہوں نے پوری سیاست ہائی جیک کر لی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے اس سسٹم کو تبدیل کرنا تھا، الیکٹ ایبلز کی قوت کم کرنا اور جمہوریت کو گراس روٹ لیول پر لے جانا تھا، وہ ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ یہی سسٹم ان کی قوت ہے، اسی کے بل بوتے پر وہ جیتتے اور سیاسی بارگیننگ کرتے ہیں۔الیکشن ریفارمز لانے میں وہ قطعی سنجیدہ نہیں کہ ایسا کرنا ان کی اپنی موت کے مترادف ہے۔ 
سیاستدانوں نے ادارے مضبوط بنانے تھے، کرپشن کے خاتمہ اور اچھی گورننس کے لئے سسٹم میں اصلاحات لانی تھی۔ایسا کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے آپس میں ہاتھ ملا لیا۔ انہیں یہ سمجھ آ گئی کہ ایک دوسرے سے لڑنے کا نقصان ہے۔ انہوں نے صبر سے کام لینا اور مل بانٹ کر کھانا سیکھ لیا۔ مفاہمت کے نام پر مک مکائو کا ٹرینڈ قائم کر دیا۔ پانچ سال ایک پارٹی نے حکومت کی، کرپشن کے ریکارڈ بنائے، بدترین گورننس کی انوکھی مثالیں قائم کیں، ملک پر پچیس ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ لاد دیا، ایک ہزارارب سے زیادہ اندرونی قرضہ چڑھا دیا۔ وہ رخصت ہوئے تو ان کی جگہ لینے والوں نے پہلے والوں کا احتساب کرنے کے بجائے اسی مشکوک کرپشن آمیز مفاہمت کو آگے بڑھایا تاکہ اپنی باری وہ کھل کر لے سکیں ، بعد کی بعد دیکھی جائے گی۔
تبدیلی لانے کے مجاز اہل سیاست ہیں، مگر وہ ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ،عدلیہ نے جوڈیشل ایکٹو ازم کر کے دیکھ لیا، مگر اندازہ ہوگیا کہ ان کی اپنی محدودات ہیں، انتظامیہ کے تعاون کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ میڈیامتحرک ہے، کرپشن کے معاملات پر اس کی نظر گہری ہے، کتنے ہی بڑے سکینڈل اسی میڈیا نے بے نقاب کئے ، مگر کیا ہوا؟ میڈیا ، عدلیہ، سول سوسائٹی ، ان سب کی قوت محدود ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر معاملات سنوارنے کے لئے مداخلت کرے تو پھر شور مچ جاتا ہے۔ کراچی میں رینجرز نے امن قائم کر دیا، مگر ایسا کرتے ہوئے انہیں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہر ایک جانتا ہے۔پنجاب میں اگر کراچی کا دسواں حصہ بھی کیا گیا تو ایک ایسا طوفان اٹھے گا کہ شائد پورا سسٹم ہی خطرے میں پڑ جائے۔ تو پھر ہم سب لوگ خاموش ہو کر چپ چاپ بیٹھ جائیں۔جو ہو رہا ہے، وہ ہونے دیں، اس پر کچھ نہ لکھیں، کچھ نہ بولیں کہ سیاسی جماعتوں پر تنقید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، ان کی سیاسی عصبیتیں ملک کو (خدانخواستہ) نقصان نہ پہنچا دیں۔ بنیادی سوال اب یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ایسا ہوتا رہے گا یا اس میں تبدیلی لانی چاہیے؟اسی سوال سے جڑا سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی کون لائے گا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں