جیت انشاء اللہ ہماری ہو گی

پچھلے سال سولہ دسمبر کو پشاور کے سکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور درندگی کا جو بدترین نمونہ پیش کیا گیا، اس کی تلخ یادیں ہر ایک کے دل پر نقش ہیں۔ سچ یہ ہے کہ برسوں یہ زخم ہرا رہے گا۔ معصوم پھولوں کو جس بے دردی سے نشانہ بنایا گیا، اس کا تصور کرکے ہر ذی شعور کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ رب کریم اپنے خاص کرم سے اس سانحہ کے شہدا اور زخمیوں کے اہل خانہ کے زخم مندمل کرے۔ گزشتہ روز سانحہ پشاور کی پہلی برسی پر اسی سکول میں ہونے والی پُروقار تقریب دیکھنا بھی ایک اچھوتا تجربہ تھا۔ سکول کے بچوں اور نئی پرنسپل کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے اتنے کم وقت میں بڑی مہارت سے بچوں کے دلوں سے خوف کو نکالا‘ اور بھرپور تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دیں۔ تقریب میں تمام سیاسی اور عسکری قیادت کو وہاں بیٹھے دیکھ کر اچھا لگا۔ اسے کہتے ہیں، زندگی کو سینگوں سے پکڑ کر اس کا سامنا کرنا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ بڑی عمدہ تقریر تھی، موقع کی مناسبت سے سنجیدہ، متین اور مدبرانہ۔ تقریب کے آخر میں سکول کے بچوں نے وہ مشہور نغمہ گایا: بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو بچوں سے ڈرتا ہے...۔ سچ یہ ہے کہ اس نغمے نے آنکھیں نم کر دیں۔ آئی ایس پی آر نے سانحہ کے کچھ عرصہ بعد یہ نغمہ تیار کرایا تھا، جسے دنوں میں پذیرائی ملی۔ حیران کن شاعرانہ خوبصورتی سے وہ تمام آہنگ، قوت، عزم اور جذبہ بھر دیا گیا ہے، جس کا پرتو سانحہ کے بعد پوری قوم میں نظر آیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ نغمہ کس نے لکھا ہے۔ جس نے بھی یہ کام کیا، انہیں قومی سطح کا بڑا انعام ملنا چاہیے، جو تخلیق کار اس کی دھن بنانے، گانے میں شامل رہے، وہ سب انعام اور اعزاز کے مستحق ہیں۔ 
چند دن پہلے آئی ایس پی آر نے اس سلسلے کا دوسرا نغمہ بھی ریلیز کیا۔ ہم دشمن کے بچوں کو پڑھائیں گے...۔ سچ یہ ہے کہ مجھے یہ سننے میں بہت اچھا لگا۔ ہمارے گھر میں سب بچوں، بڑوں کو اس نئے گیت نے مسحور کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر البتہ اس کے حوالے سے کچھ تنقید سنی، میں تو اس سے زیادہ متفق نہیں ہو سکا۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے والی بات ایک مثبت بات ہے، اس میں کیڑے نکالنا سمجھ نہیں آیا۔ دہشت گرد ہمارے دشمن ہی تو ہیں، اس میں کون سی حیرانی والی بات ہے۔ اہم بات البتہ یہ مثبت پیغام ہے کہ بچے خواہ ان دہشت گردوں کے ہی کیوں نہ ہوں، انہیں بھی پڑھانے، جہالت کے اندھیروں سے باہر لانے کا ہر ایک کو عزم کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ایک دو پوسٹیں میں نے اس عنوان کے ساتھ بھی دیکھیں کہ سول بچوں اور ملٹری کے بچوں میں امتیاز نہیں کرنا چاہیے‘ اور جیسا ردعمل آرمی پبلک سکول سسٹم کے بچوں پر حملہ کے بعد دکھایا گیا، اس کا مظاہرہ سویلین بچوں کے حوالے سے بھی ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ منفی طرز عمل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرمی پبلک سکول صرف فوجیوں کے بچوں کے لئے نہیں ہوتے، ان میں سویلین بچے بھی پڑھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ فورسز کا ردعمل شہریوں کے حوالے سے بھی ویسا ہی بھرپور اور تیز ہوتا ہے، اس کے کئی مظاہرے ہم دیکھ چکے ہیں۔ صاف بات ہے کہ جو حملہ نہتے شہریوں اور معصوم بچوں پر ہو گا، اس پر ردعمل عام حملے کی نسبت کئی گنا زیادہ تیز اور جارحانہ ہو گا۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اس لئے ایسی متنازع پوسٹوں سے گریز بہتر ہے، جن کا فائدہ صرف اور صرف دہشت گردوں کو پہنچے۔ 
دہشت گردوں نے جب پچھلے سال آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا تو ان کا مقصد بے گناہ لہو بہانے کے ساتھ دہشت پھیلانا بھی تھا۔ پاکستانی قوم اور قیادت نے جس دلیری اور جرات کے ساتھ اس کا جواب دیا، اس کی تعریف نہ کرنا بخل اور زیادتی ہو گا۔ سب سے پہلا کریڈٹ قوم کو ملنا چاہیے۔ نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مکمل یکسوئی اور قومی یک جہتی حاصل کرنے کے حوالے سے دو واقعات اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پہلا ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ تھا۔ اس وقت ہمارے لبرل دوست تنقید کرتے تھے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کئے جا رہے ہیں؟ ان مذاکرات سے مگر تین فائدے ہوئے۔ ایک تو ٹی ٹی پی کا ایجنڈا ایکسپوژ ہو کر قوم کے سامنے آ گیا۔ دوسرا جو گروپ امن کی طرف آنا چاہتے تھے، مگر انہیں راستہ نہیں مل رہا تھا، وہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہو گئے، عصمت اللہ معاویہ اور محسود قبائلیوں کا ایک بڑا حصہ اس کی مثال ہیں۔ تیسرا مذاکرات کے دوران عمر خراسانی گروپ کی جانب سے جس بے دردی کے ساتھ ایف سی جوانوں کو شہید کرنے کی ویڈیو ریلیز کی گئی، اس سے بھی عام آدمی کو ٹی ٹی پی کی درندگی اور سفاکی کا اندازہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امن مذاکرات ناکام ہوتے ہی آپریشن ضرب عضب شروع ہو گیا کہ اس سے قومی یکسوئی حاصل ہو گئی، جس کی شدید ضرورت تھی۔
سانحہ پشاور دوسرا اور شاید زیادہ اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس افسوسناک واقعے نے قومی عزم کو مزید مہمیز لگائی اور جو لوگ ابھی تک 
آپریشن کے حوالے سے غیر جانبدار تھے، وہ بھی لرز اٹھے۔ روایتی مذہبی حلقوں کو بھی دہشت گردوں کی مذمت میں یکسو ہونا پڑا، اعلانیہ طور پر علما دین نے ایسے حملے کرنے والوں کے خلاف اعلامیہ اور ایک طرح سے منضبط بیانیہ جاری کیا۔ اگرچہ بعض دینی مکاتب فکر سے جس قدر آگے آ کر کھڑے ہونے کی توقع کی جا رہی تھی، وہ اس حد تک پوری نہیں ہوئی، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ر وایتی دینی حلقے نے دہشت گردوں کے مقابل آپریشن ضرب عضب کا ساتھ دیا۔ ہوا ایسی چلی کہ مولوی عبدالعزیز جیسے سرکش اور عاقبت نااندیش شخص کو بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو آپریشن ضرب عضب کا بھرپور کریڈٹ ملنا چاہیے۔ منتخب سیاسی حکومت نے جس طرح اتفاق رائے قائم کیا، یہ اسی کا کریڈٹ ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ‘ پوری طرح فورسز کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اگرچہ بعض کوتاہیاں ہوئیں، مگر یہ ہمارے روایتی سست اور نااہل انتظامی ڈھانچے کا شاخسانہ ہے، اس کی تمام ذمہ داری سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
آرمی، آرمی چیف اور خفیہ اداروں کو بھرپور کریڈٹ دینا چاہیے۔ ایک سال کے اندر انہوں نے خاصی قربانیاں دیں، بہت سے جوان اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ فورسز نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً دہشت گردوں کی کمر توڑ ڈالی۔ ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے کا قومی منظرنامہ دیکھیں، اخباری تجزیے اور خبریں پڑھیں اور پھر آج کا پاکستان دیکھیں تو بے اختیار دل سے منتخب حکومت اور ہماری فوج کے لئے دعا نکلتی ہے۔ بلاشبہ ان دلیر جوانوں نے سفاک درندوں کو بزدل چوہوں کی ہی طرح گردن سے 
پکڑ کر بل سے نکالا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ آج پاکستان پہلے سے کئی گنا زیادہ محفوظ ہو چکا ہے۔ کوئی تصور کر سکتا تھا کہ پوری سیاسی اور عسکری قیادت اسی سکول میں اکٹھی ہو جائے گی، جہاں ایک سال پہلے دہشت گردوں نے اتنا بڑا حملہ کیا؟ رواں سال محرم الحرام کے موقعہ پر کالعدم تنظیموں کو تمام تر کوششوں کے باوجود ناکامی ہوئی۔ اللہ کے فضل اور ہمارے اداروں کی محنت نے عوام کو محفوظ رکھا۔ آخر میں میڈیا کی تعریف کرنا ناروا نہیں ہو گا۔ ان کالموں میں بہت بار میڈیا کی کمزوریوں، خاص طور پر ٹی وی چینلز کے ناروا بریکنگ کلچر پر تنقید کی جاتی رہی۔ یہ بات مگر ماننا پڑے گی کہ ضرب عضب کو میڈیا نے بھرپور انداز میں کوریج دی اور قومی اتفاق رائے بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سانحہ پشاور کی پہلی برسی پر ہونے والی ٹی وی نشریات بھی دیدنی اور قابل تحسین تھیں۔ میڈیا نے اپنے شہدا کو نہیں بھلایا اور قوم کے دلوں کی آواز سنتے ہوئے اس کی بھرپور ترجمانی کی۔ 
یہ سفر ابھی جاری ہے، بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ پولیس کے نظام کو ہر صورت میں مضبوط بنانا ہو گا کہ اس کے بغیر پائیدار امن نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی قوم کو سمجھنا چاہیے کہ اگر دہشت گردی کی نو سو نناوے (999) وارداتیں ناکام ہو جائیں اور کہیں اکا دکا واردات ہو جائے تو پھر ردعمل دیتے ہوئے فورسز کی مساعی کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ اس وقت یہ کہنا زیادتی اور ظلم کے مترادف ہو گا کہ فوج اور ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ پاکستانی قوم پر بہت بار بکھرے ہجوم کی پھبتی کسی جاتی ہے، یہ مگر ماننا پڑے گا کہ دہشت گردوں کے خلاف قوم پوری قوت اور جذبے کے ساتھ کھڑی ہوئی اور انہیں شکست دی۔ انشااللہ جیت ہماری ہو گی۔ ملا فضل اللہ کے درندوں، منصور نرائے کے سفاک وحشیوں اور بے رحم مگر بزدل تکفیریوں کو شکست فاش ہو گی۔ تاریخ کا کوڑا دان ان کا منتظر ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں