چارسدہ حملے کا پس منظر

چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کئی اعتبار سے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والی سفاک دہشت گردی سے مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں حملے(دستیاب اطلاعات کے مطابق) ایک ہی گروپ نے کیے۔ دونوں بار نہتے، معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے لہو سے ہولی کھیلنے کی مکروہ کوشش کی گئی۔ مقصد دہشت پھیلانا اور عوام کے ساتھ سول ملٹری انتظامیہ کے حوصلے پست کرنا تھا۔ طریقہ کار بھی پہلے والا تھا کہ اپنی مرضی کا کوئی سافٹ ٹارگٹ منتخب کیا جائے، اپنی پسند کا دن اور وقت طے کر تے ہوئے ہلہ بول دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ طلبہ کو نشانہ بنایا جائے۔ 
پشاور سکول حملے سے پہلے قاتلوں کو علم تھا کہ اس دن سکول میں ایک فوجی افسر نے ابتدائی طبی امداد پر ورکشاپ کرنی ہے۔ اس کے لیے طلبہ آیڈیٹوریم میں جمع ہوں گے، وہیں انہیں نشانہ بنایا جائے۔ چارسدہ میں بھی یہی منصوبہ نظر آتا ہے۔ یہاں باچا خان کی برسی پر 'امن مشاعرہ‘ ہونا تھا، جس کے لیے پانچ چھ سو مہمان مدعو تھے۔ اس طرح کے مشاعروں میں طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے اور دستور یہ ہے کہ یونیورسٹی تقریبات کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف کلاسز کے طلبہ کو شریک کیا جاتا ہے۔ تصور کریں کہ خدانخواستہ حملے کے وقت اگر مشاعرہ جاری ہوتا، سٹیج پر مہمانان گرامی موجود ہوتے اور آڈیٹوریم سیکڑوں طلبہ وطالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تو دہشت گردوں کے اندھا دھند گولیاں برسانے سے کس قدر نقصان ہوتا؟
حملے کی ذمہ داری عمر منصور گروپ نے قبول کی ہے۔ یہ دراصل خلیفہ عمر منصور نرائے کا گروپ ہے، جسے درہ آدم خیل گروپ، گیدڑ یا گیدڑی گروپ بھی کہا جاتا رہا۔ ٹی ٹی پی کا ایک اہم کمانڈر اور حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی طارق گیدڑ اس کا سربراہ تھا۔ اب عمر منصور نرائے کے پاس قیادت ہے۔ پشاور آرمی سکول پر حملہ بھی اسی نے کرایا اور اس کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ویڈیو بھی جاری کی جس میں عمر منصور نے دھمکی دی کہ اس قسم کے واقعات اور بھی ہوںگے۔ اطلاعات ہیں کہ عمر منصور نرائے افغانستان میں مقیم ہے اور مبینہ طور پر افغان انٹیلی جنس کے پرو انڈین عہدے داروں کی اسے سرپرستی حاصل ہے، ملا فضل اللہ کا بھی معتمد ساتھی ہے۔ اس بار ایک کام مختلف ہوا کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان نے اس حملے سے انکار کیا جبکہ اس کے ایک اہم گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دراصل یہ بھی ٹی ٹی پی اور ان جیسے دہشت گرد تنظیموں کا پرانا حربہ ہے کہ کسی کارروائی سے عوامی ردعمل کا خطرہ ہو تو اس کی براہ راست ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور ایک الگ گروپ بنا دیا جائے جو ذمہ داری قبول کر لے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ کنفیوژن قائم رہے، عوامی مخالفت نہ بڑھے، عوام میںان کے حامی بھی مطمئن رہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو ذمہ داری قبول نہ کرنے والا بیان بطور ثبوت دکھاتے رہیں۔ 
منصور نرائے کے حوالے سے ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔۔۔۔پشاور سکول حملے میں اس نے یہ دلیل دی تھی کہ'' بنو قریظہ‘‘ والے تاریخی واقعے کی طرح انہو ں نے صرف بالغ لڑکوں کو نشانہ بنایا ہے، چھوٹے بچے کراس فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ یہ بات اگرچہ بالکل غلط تھی، مگر نرائے گروپ شدید عوامی ردعمل کے باعث یہ آڑ لینے پر مجبور ہوا تھا۔ اس بار اس گروپ نے دانستہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا حالانکہ یونیورسٹی کے نہتے طلبہ وطالبات کی مثال بھی بچوں کی سی ہے۔ اٹھارہ انیس سال کے لڑکے لڑکیاں کسی کے دشمن کیونکر ہوسکتے ہیں یا وہ وحشی درندوں کا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ باچا خان یونیورسٹی کو کیوں منتخب کیا گیا؟ دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ یونیورسٹی شہر سے بیس پچیس کلومیٹر دور ہے، ملک کی دوسری بڑی سرکاری یونیورسٹیاں کی طرح یہ بھی وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، آس پاس کھیت ہیں اور آبادی کم ہے۔ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی ویسے بھی فول پروف نہیں ہوتی، کہیں نہ کہیں کمزور جگہ مل جاتی ہے۔ دوسرا بڑا فیکٹر یونیورسٹی کا نام ہے۔ باچا خان یونیورسٹی کا نام ہی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے لیے سرخ کپڑے کا کام کرتا ہے۔ اور پھر اس دن باچا خان کی برسی تقریب تھی۔ اے این پی خیبر پختون خوا میں حکمران رہی ہے اور اس کی پانچ سالہ مدت کو بیڈ گورننس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ با ت مگر ماننا پڑے گی کہ اے این پی نے تحریک طالبان کی دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس حوالے سے بہت زیادہ قربانیاں دیں۔ خیبر پختون خوا میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردی پر مبنی بیانیہ کا جوابی بیانیہ اے این پی کے پاس ہے۔ صوبے کی دینی جماعتیں اس حوالے سے پس وپیش کا شکار رہیں۔ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت تو دہشت گردی کے حوالے سے زیادہ یکسو اور قومی موقف سے قریب تر ہے، مگر جماعت کے لیے بھی دہشت گردی کے مخالف بیانیہ کو لیڈ کرنا آسان نہیں۔ 
جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بادشاہ آدمی ہیں۔ ان کے مداح ان کی دلیل تراشی، کہہ مکرنی اور صحافیوں کو اپنی بیدار مغزی سے لاجواب کردینے کی ستائش کرتے ہیں، آخری تجزیے میں اگرچہ یہ کسی بڑے لیڈر کی خامیاں ہیں۔ حملے کے بعد وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے، ہر چند سکینڈ کے بعد یہ فقرہ ضرور دہراتے رہے کہ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، ہم نے نیشنل ایکشن پلان کو سپورٹ کیا، مگر اصل شکوہ ان کا یہی تھا کہ ہم یہ مسئلہ حل کرا رہے تھے، ہمیں نہیں کرنے دیا گیا اور مذاکرات کے بجائے جنگ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مولانا صاحب سے کوئی پوچھے کہ نیشنل ایکشن پلان کیا ہے؟ تمام طریقے ناکام ہوجانے کے بعد طاقت کے ذریعے دہشت گردوں کا صفایا کرنا۔ اگر آپ اس کے حامی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو بذریعہ طاقت ختم کرنے کے حامی ہیں۔ مگر آپ تو اس پر کڑھ رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اورسفاک درندوں سے مذاکرات کیوں نہیں ہو رہے؟ آپ صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے کہ بھائی دل سے ہم نیشنل ایکشن پلان کے مخالف ہیں، مگر عوامی اور میڈیا کی تنقید کے ڈر سے کچھ بول نہیں سکتے۔ اے این پی اس حوالے سے یکسو اور واضح ہے۔ اس کی غلطیوں پر تنقید اپنی جگہ، مگر جو ان کا مثبت پہلو ہے، اسے ماننا ضروری اور تحسین لازم ہے۔ صوبے میں اس حوالے سے تخلیق ہونے والا لٹریچر، شاعری، ادب، صحافت وغیرہ میں بھی اے این پی کی فکر کا غلبہ ہے، انہی لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف علمی، فکری، صحافتی مورچہ لگایا۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حوالے سے تحریک انصاف کو اے این پی کی پیروی کرنی چاہیے۔ عمران خان اس میں اتنے یکسو نہیں۔ جتنی قوت وہ شریف برادران کے خلاف بیانات دینے میں لگاتے ہیں، اس کا دسواں حصہ بھی دہشت گردی کے خلاف صرف نہیں کرتے حالانکہ یہ تناسب الٹا ہونا چاہیے۔ 
اس حملے کے بعد یہ سوال بھی اٹھا کہ تعلیمی اداروں کو اپنی سکیورٹی بہتر کرنی چاہیے۔ اصولی طور پر یہ درست ہے، مگر اس سے زیادہ درست بات یہ ہے کہ ریاست نے تعلیم، صحت وغیرہ کے شعبے نجی شعبے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے ہیں، اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے، حالانکہ امن وامان کا قیام اور دہشت گردوں کو کائونٹر کرنے کا کام ریاستی اداروں کا ہے، انہی کو اصل بوجھ اٹھانا ہوگا۔ پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز، ایف سی وغیرہ کا کام دہشت گردوں کو روکنا، ان کا خاتمہ کرنا اور عام آدمی کو ان کے ظلم و بربریت سے محفوظ رکھنا ہے۔ تعلیمی ادارے اور دیگر دفاتر کسی حد تک ان کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ چارسدہ یونیورسٹی کی دہشت گردی میں بنیادی ناکامی ریاستی اداروں کی ہے۔ خاص کر انٹیلی جنس سسٹم مکمل طور پر ناکام ہوا۔ ہیومن انٹیلی جنس کے ذریعے ہی دہشت گردوں کے منصوبوں کا پہلے سے اندازہ لگایا جاتا ہے، ان کے نیٹ ورک کو توڑتے ہوئے سہولت کاروں کو دبوچ کر دہشت گرد سکواڈ کو باہر نکلنے سے روکا جاتا ہے۔ جب تربیت یافتہ دہشت گرد اسلحے سے لیس ہو کر کہیں چڑھ دوڑیں گے تو ان کو گیٹ پر روکنا آسان نہیں ہوگا۔ چارسدہ یونیورسٹی دور ہونے کی وجہ سے فورس کچھ تاخیر سے پہنچی؛ تاہم یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ فورسز نے آپریشن بڑی برق رفتاری اور عمدگی سے کیا اور بروقت دہشت گردوں کو مار ڈالا، ورنہ نقصان زیادہ ہوسکتا تھا کہ اس وقت تین ہزار سے زیادہ افراد یونیورسٹی کی عمارت میں محبوس تھے۔ 
یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی کہ تعلیمی اداروں کے گارڈ زیادہ مستعد نہیں ہوتے۔ ایک پروفیشنل ٹریننگ کا ایشو، دوسرے وہ عام حالات میں کسی بڑے دہشت گرد حملہ کے لیے ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ یونیورسٹیوں میں سکیورٹی گارڈزکا بڑا مقصد یونیورسٹی میں غنڈہ عناصر کو گھسنے نہ دینا، کیمپس میں امن وامان قائم رکھنا، اساتذہ کی گاڑیوں وغیرہ کی حفاظت کرنا اور طلبہ کے مابین کسی ناخوشگوار واقعے کا بر وقت سدباب کرنا ہوتا ہے۔ یوں بھی مسلسل نو عمر طلبہ و طالبات کو حسب معمول آتے جاتے دیکھ کر گارڈز نفسیاتی طور پرایزی ہو جاتے ہیں۔ خودکش جیکٹوں اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ دہشت گردوں کے حملوں کو روکنا سکول، کالج اور یونیورسٹی کے گارڈزکے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تعلیمی ادارے دو چار گارڈز مزید رکھ لیں گے تو ان کی حفاظت یقینی ہوجائے گی تو ایسے لوگوں کو فوری طور پرکسی مستند ذہنی معالج کے کلینک کا پتا بتانا چاہیے۔ یہ کام بنیادی طور پر ریاست کا ہے اور یہ اسی کو ہی کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں