کرکٹ ٹیم سے مایوسی کیوں؟

بنگلہ دیش سے پاکستانی قومی ٹیم کی شکست پر شدید مایوسی کی لہر ہر طرف دوڑ گئی ہے۔ جس کو دیکھو منہ لٹکائے نظر آیا۔سوشل میڈیا آج کل فوری ردعمل بھانپنے کا بہترین آلہ بن چکا ہے۔ ٹی وی چینلز بھی اگرچہ اپنی بساط کے مطابق زور لگاتے ہیں، مختلف جگہوں پر رپورٹر بھیج کر عوامی رائے اورفیڈ بیک نشر کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جو تند وتیز تبصرے اور دل کھول کر ہجویہ اشعار اور ویڈیو ز فیس بک اور ٹوئٹر پر شیئر کی جاتی ہیں،دوسرا کوئی میڈیم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پاکستانی ٹیم کی شکست پر دل گرفتہ ہم بھی ہیں، مگر مجھے اس قدر مایوسی کی کوئی وجہ یا تک نظر نہیں آ رہی۔ میں حیران ہوں کہ کیا مایوس ہونے والے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ موجودہ قومی ٹیم ایشیا کپ جیت کر آئے گی؟ یا پھر یہ سوچ رہے تھے کہ ہارنا تو ہے ہی، مگر بھارت سے فائنل میں جا کر ہارے تو بہتر ہے؟ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے یہ واضح تھا کہ پاکستان اس ٹورنامنٹ کی کمزور ٹیموں میں سے ایک ہے اور بھارت کو ہرانا تو خیر ان کے لئے ایک ناممکن ٹاسک ہے، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے جیتنا بھی تقریباً ناممکن ہدف ہے۔
ہم پاکستانی خوش فہمیوں میں زندہ رہتے اور اپنے لئے ہمیشہ معجزات کی امید رکھتے ہیں ۔ایک سادہ اصول ہم نظرانداز کر دیتے ہیں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے، کرشمے اور معجزے اس میں بار بار نہیں ہوتے اور آخر کیوں ہوں؟ کروڑوں روپے سالانہ کمانے والے پروفیشنل کرکٹرز اگر پرفارم نہ کریں، نااہلی اور حماقتوں کی بدترین مثالیں قائم ہوں تو اس میں قصور پھر کس کا ہے؟ دنیائے کرکٹ میں دس ٹیموں کو ریگولرسٹیٹس حاصل ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کھیل کے کم از کم دو فارمیٹ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں آٹھویں، نویں نمبر کی ٹیم ہیں۔ ون ڈے میں تو حال یہ ہوچکا ہم سری لنکا سے میچ جیت کر بمشکل نمبر آٹھ پر پہنچے، پھر اس ڈر سے زمبابوے میں ہونے والی مجوزہ تین ملکی ٹورنامنٹ منسوخ کر دیا کہ کہیں وہاں ویسٹ انڈیز یا زمبابوے سے ہار کر نمبر آٹھ سے نیچے نہ آجائیں کہ ایسی صورت میں آئندہ سال چیمپئنز ٹرافی کے لیے کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنے کی ذلت اٹھانی پڑتی۔ یہ امر کچھ کم شرمناک اور ذلت آمیز نہیں تھا کہ ویسٹ انڈیز اور زمبابوے جو رینکنگ میں سب سے نیچے کی دو ٹیمیں ہیں، ان سے کھیلتے ہوئے ہمیں شکست کا خوف دامن گیر تھا۔ یہی حال ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا ہوچکا۔ ایشیا کپ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ حالت کس نے کی؟ تین مجرم سامنے کھڑے نظر آئیں گے۔پہلا ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ ، دوسرے سلیکٹر، تیسرا فریق پاکستان کرکٹ بورڈہے۔
ٹیم اور ٹیم مینجمنٹ پر تنقید اس لئے نہیں کی جارہی کہ وہ میچ ہار گئے۔ ہار جیت کھیل میں ہوتی رہتی ہے، کسی کھلاڑی کی خراب فارم بھی معمول کا حصہ ہے،،کرکٹ دیکھنے اور سمجھنے والے یہ بات سمجھتے ہیں۔ دکھ اور کرب کی بات یہ ہے کہ بیشتر کھلاڑیوں میں احساس ذمہ داری نہیں اور وہ اپنی غلطیاں دہراتے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ ان کی شکست صرف ایک ٹیم یا کھلاڑی کی شکست نہیں، کروڑوں شائقین کرکٹ کے دل ٹوٹتے ہیں اور ایک طرح سے یہ قومی مورال ڈائون کرنے کا باعث بنتا ہے۔ 
سب سے پہلا سچ تو یہ ہے کہ جناب شاہد خان آفریدی قومی ٹیم کی قیادت کے اہل ہی نہیں۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ فارم کی بنیاد پر کسی بھی اچھی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت کے بھی حق دار نہیں رہے۔ وہ سپیشلسٹ سپنر نہیں ہیں،بائولنگ میں ورائٹی نہیں، بلے بازوں کو پریشان کر کے وکٹ نہیں لے سکتے۔ زیادہ سے زیادہ گزارے لائق سکور دے کر اوورز کا کوٹہ ختم کرا لیں۔ اس حیثیت میں وہ صرف اس طرح کھیل سکتے ہیں کہ قابل اعتماد ہٹر کی طرح آخری اوورز میں دس پندرہ گیندوں پر پچیس تیس رنز لازمی بنا سکیں۔ جیسا کہ ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی یا آرنلڈ کر تے ہیں۔آفریدی کی بیٹنگ نہایت ناقابل اعتماد ہے، دس میں سے آٹھ نو میچز میں وہ مایوس کرتے ہیں۔ بیشتر میچز میں ان کی بائولنگ ، بیٹنگ ٹوٹل فلاپ رہتی ہے۔ ایسی کارکردگی والا کھلاڑی اگر کپتان ہو توپھر ٹیم تباہ ہونی ہی ہے۔ کپتان خود احمقانہ شاٹس کھیل کر آئوٹ ہو، لیگ سٹمپ سے باہر گیندیں کرا کر چوکے کھائے تو کسی دوسرے بائولر یا بلے باز کو سختی سے تنبیہ کر سکتا ہے؟ آفریدی ٹاپ نو ٹیموں کے خلاف تینتیس میچز میں کپتانی کر چکے ہیں، بیس میں شکست ہوئی، فتح کا تناسب چھتیس فیصد ہے، ان سے زیادہ بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا دنیا میں ایک ہی کپتان رہا ہے، وہ انگلینڈ ٹیم کا کپتان سٹورٹ براڈ ہے۔ جاوید میانداد جیسے عظیم کھلاڑی کی رائے نقل کر رہا ہوں، جو آفریدی کے مخالف نہیں ، کراچی ہی کے رہنے والے ہیں، وہ بھی گزشتہ روز چلا اٹھے، ان کا کہنا تھا، ''آفریدی بہت پہلے قومی ٹیم میں اپنی جگہ گنوا چکے ہیں، ہم ایسے کھلاڑی کوکیسے کپتان بنا چکے ہیںجس کی کارکردگی کا کوئی بھروسہ نہ ہو۔ ‘‘
ناکام او ر نالائق کپتان کے ساتھ ٹیم میں بدترین اوپنر، کمزور اہلیت والے ٹاپ آرڈر بلے باز اوردبائو برداشت نہ کرنے والے بائولرز بھی موجود ہیں۔ شرجیل خان کے پاس ہٹنگ پاور ہے، مگر اس کا دماغ کسی سات سالہ بچے کی طرح کام کرتا ہے۔ شاٹ سلیکشن شرمناک حد تک کمزور اور فٹ ورک سرے سے ندارد ہے۔ خرم منظور جیسے کھلاڑی کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کرنے پر سلیکٹرز کی پوری ٹیم کو فوری طور پر استعفا دے دینا چاہیے۔ اس سے بری سلیکشن ممکن ہی نہیں۔ عمرا کمل کا ٹمپرامنٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوا، محمد حفیظ توقعات کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں ۔ محمد سمیع کئی بار ٹیم میں آ چکے ہیں، پندرہ سولہ سال سے کھیل رہے ہیں، مگر دبائو ہینڈل نہیں کر سکتے۔ وہاب ریاض ورلڈ کپ میں اپنے طوفانی سپیل کے سحر سے باہر نہیں آ سکے۔ صرف محمد عامر نے غیر 
معمولی کارکردگی دکھائی یا محمد عرفان کی مجموعی کارکردگی ٹھیک رہی ، اگرچہ وہ بھی آخری اوورز میں بے دریغ چھکے کھا رہے تھے۔شعیب ملک اچھا کھیلے یا پھر سرفراز احمداپنے جارحانہ مگر ذمہ دارانہ کھیل سے کپتانی کے مضبوط امیدوار بن کر ابھرے۔ موجودہ ٹیم کی بیٹنگ اس قابل نہیں کہ اچھا ہدف دے سکے، بائولنگ اس درجے کی نہیں کہ مخالف ٹیم کو آئوٹ کر سکے یا ڈیتھ اوورز میں دفاع کر پائیں۔ ٹیم انتظامیہ کو بدلنے کا وقت بھی آ گیا ہے۔ وقار یونس بطور کوچ ناکام ہوئے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کو دراصل ایک اعلیٰ پائے کے بیٹنگ کوچ کی ضرورت ہے ۔چیف کوچ کو بیٹنگ کوچ ہونا چاہیے، بائولنگ کوچ البتہ رکھا جا سکتا ہے۔ وقار یونس ہر اعتبار سے اوسط سے نیچے درجے کے کوچ ثابت ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں سلیکٹرز کا احتساب کبھی نہیں ہوتا۔ اقبال قاسم سے وسیم باری اور ہارون الرشید تک سب نے ما یو س ہی کیا۔سعید اجمل کا متبادل ڈھونڈا ہی نہیںتھا۔ یاسر شاہ نے موقعہ ملنے پر اچھا کھیل کر سب کا بھرم رکھ لیا، مگر کیا یاسر کا متبادل لیگ سپنر ہم نے تلاش کیا؟ ۔ اوپننگ کا مسئلہ کوئی حل نہیں کر پایا۔ احمد شہزاد ناکام ہو کر باہر بیٹھتے ہیں، پھر انہیں واپس لانا پڑتا ہے کہ ان کی جگہ پر آنے والے ان سے بھی برا کھیل رہے ہیں۔ انور علی جیسے ناکام آل رائونڈر کو بار بارٹیم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جو آل رائونڈر اپنے کوٹے کے اوور نہ کرا سکے، دھڑکا لگا رہے، اسے آل رائونڈر کہنا، اس لفظ کی توہین ہے۔ موجودہ سلیکشن کمیٹی کو فارغ کر کے ایسے دیانت دار لوگوں کو لیا جائے جو سفارش پر یا شہروں کی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دبائو میں آ کر فیصلے نہ کریں۔سب سے بری حالت کرکٹ بورڈ کی ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں جو بھی مینجمنٹ اورجیسا بھی چیئرمین آیا، کسی نے بھی ڈومیسٹک کرکٹ کو ٹھیک نہیں کیا ۔آج بھی وہی صورتحال ہے، جو اگلے پانچ سالوں میں ہوگی۔ ایسے کمزور کرکٹ سٹرکچر ، ایسے نااہل سلیکٹرز کے ساتھ ایسا نالائق ٹیلنٹ ہی سامنے آئے گا، جسے عقل وفہم سے عاری کپتان اوراورغبی، انا پرست کوچ میچ میں جس طرح استعمال کرے گا، نتائج پھر ویسے نکلیں گے، جو ایشیا کپ میں آئے ہیں۔ کرکٹ سے پھر مایوسی کیسی ؟ کیکر کے پودے لگا کر آم کی فصل کا انتظار احمق ہی کرتے ہیں۔ میچ دیکھیں یا نہ دیکھیں، اپنا شمار تو عقل مندوں میں کرانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں