دیوا ر ِمہربانی سے پس ِپردہ مہربانی تک

چند دن پہلے گھر سے دفتر جاتے ہوئے مغلپورہ چوک سے گزرا تو سڑک کنارے ایک بورڈ نے توجہ کھینچ لی، سیاہ پس منظر میں دیوار ِمہربانی لکھا ہوا تھا۔ مغلپورہ سے دھرم پورہ جانے والی نہروالی سڑک پر دو‘ ریلوے کراسنگ ہیں، ایک کو'' چوبچہ ‘‘پھاٹک کہتے ہیں۔وہیں پر یہ دیوارِ مہربانی بنائی گئی۔ اس اصطلاح اور اس کے پس منظر کا مجھے علم تھا، اس لئے تجسس پیدا ہوا کہ دیکھنا چاہیے۔ چوبچہ پہنچ کر گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کر کے اترا ، دیوارِ مہربانی کا جائزہ لیا اوراس کی دو تین تصاویر بھی کھینچ لیں۔ سڑک کنارے کچھ جگہ خالی تھی، وہاں ایک بڑا پوسٹر سا لگا کر دیوار ِمہربانی لکھ دیا گیا اور چند گز لمبی ایک تار باندھ کر اس پر کپڑوں کے آٹھ دس جوڑے ہینگر سمیٹ لٹکائے ہوئے تھے، نیچے پرانے جوتوں کا سٹینڈ رکھا تھا، جس میں چند ایک جوڑے پڑے تھے۔ اس طرح کی دوچار اوردیوار ِ مہربانی لاہور میں مختلف جگہوں پر قائم ہیں، معلوم ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ نے بھی ایسی دیوار بنائی ہے، جہاں اچھی حالت والے استعمال شدہ کپڑے اور جوتے رکھے گئے۔ 
دیوار ِمہربانی کی اصطلاح ہمارے ہاں ایران سے آئی ہے، یہ ترکیب بھی فارسی ہے۔ اس حوالے سے ایک دو کالم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس حوالے سے خاصی معلومات دستیاب ہیں۔کہاجاتا ہے کہ ایران میں کسی نامعلوم شخص نے یہ سلسلہ شروع کیا۔اس نیک دل آدمی نے محلے کی کسی دیوار پر دیوار ِمہربانی لکھ دیا اور وہاں پردو تین کھونٹیاںلگا کر استعمال شدہ جیکٹ، کوٹ، سوئیٹر وغیرہ لٹکا دئیے، ساتھ موٹا موٹا لکھ دیا کہ جس کو ضرورت ہے ، وہ بلاتکلف لے جائے۔ ضرورت مندوںنے اس سے فائدہ اٹھایا اوردعائیں دیں۔ یہ رجحان چل نکلا اور ایک کے بعد دوسری ، تیسری اور پھر سلسلہ بڑھتا گیا۔ اخبارات نے خبریں لگائیں، چینلز نے کوریج دی تو مختلف شہروں میں اس تجربے کو دہرایا گیا۔ سوشل میڈیا کی کوریج کے باعث یہ بات دوسرے ملکوں تک پھیل گئی اور کئی ملکوں نے اس تجربے کو دہرایا، چین ان میںنمایاںہے۔پاکستان میں بھی اس تجربے سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ نے پہل کی۔ ایران جانے والے زائرین نے مشہد اور دوسرے شہروں میں اس کامشاہدہ کیا تھا، واپسی پر ان میں سے نیک دل افراد نے یہ تجربہ دہرانے کی کوشش کی۔ ہمارے میں سے کوئی جب کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرے تو اس کام میں اس قدر برکت پڑ جاتی ہے کہ کسی کو یقین ہی نہیں آتا۔ سنا ہے ایران میں فریج میزبانی کا تجربہ بھی ہوا۔ بعض لوگوں نے گھر کے باہر پرانا فریج رکھ دیا۔ اس میں کھانے پینے کی اشیا ،پھل وغیرہ رکھ دیتے ، باہر لکھا ہوتا کہ جس کو ضرورت ہو ، اس کا جی چاہے ، وہ فریج کھول کر اٹھا لے۔ دیوار ِمہربانی کا تجربہ ہمارے ہاں بھی چل رہا ہے۔کئی شہروں میں ایسی دیواریںبن چکی ہیں۔اگرچہ پاکستان میں ممکن ہے، ایران اور چین کی طرح جیسے بھرپور نتائج برآمد نہ ہوں۔ ہمارے ہاں تو یہ خدشہ بھی ہے کہ رات کو کوئی چرسی، تمام ہینگر اڑا کر چلتا بنے اور لنڈے کے کپڑوں میں بیچ کر اپنی ایک دن کی پڑیا کھری کر لے، اسی طرح کوڑا اکٹھا کرنے والے بچے ممکن ہے اپنی ضرورت کا ایک آدھ جوتوں کا جوڑا لینے کے بجائے پورا سٹینڈہی بوری میں ڈال کر چلتے بنیں۔ایرانیوں کی سوک سینس اور ہمارے معروضی حالات میں بڑا فرق ہے۔ اس تجربے کی بہرحال حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی مددکرنا بھی ہم پر لازم ہے، جو سفید پوش ہیں، دنیا والوں پر اپنا حال کھولنا نہیں چاہتے، خالی پیٹ ،مگر ایسی طمانیت آمیز مسکراہٹ سے ملتے ہیں ، گویا ابھی کچھ دیرپہلے سیرہو کر کھانا کھایا ہو... ایسے صبر کرنے والوں کی زندگی میں آسانیاں لانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک چھوٹی سی سچی کہانی پڑھ لیجئے۔ 
کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے یہ واقعہ سنایا۔ بھلے آدمی ہیں، نرم دل، دوسروں کی مدد کرنے پرہمہ وقت آمادہ، اس روز آئے تو چہرے پر دلگیر سی مسکراہٹ تھی۔ وجہ پوچھی تونمناک آنکھوں کے ساتھ کہنے لگے:'' جس کالونی میں رہتے ہیں، وہاں ملے جلے لوگ رہتے ہیں، بعض پوش فیملیز ہیں، بڑی گاڑیاں، اچھے گھر، دوچار مکان ایسے ہیں، جہاں لوئر مڈل کلاس ملازم پیشہ کرایہ دار مقیم ہیں۔ہمارے گھر سے دوچار گھر چھوڑ کر ایک فیملی رہتی ہے، حالات ان کے کچھ زیادہ اچھے نہیں، کسی عزیز کا مکان ہے، وہ بیرون ملک رہائش پزیر ہے، مکان میں انہیںحفاظت کی غرض سے بٹھا رکھا ہے، کرایہ نہیںلیتا۔ خاتون خانہ سلائی کڑھائی کر کے اپنے خاوند کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ میری اہلیہ بھی اپنے اور بچیوں کے کپڑے وہیں سے سلواتی ہیں۔ اگلے روز دفتر سے گھرپہنچا تو بیگم کا موڈ آف تھا، چہرہ غمگین اور بجھا بجھا سا تھا۔ وجہ پوچھی تو ٹال گئیں۔ رات کو بعد میں بتایا کہ آج اسی گھر کی سلائی کرنے والی خاتون آئی تھیں، کپڑوں کی ڈیزائننگ پر کچھ بات کرنا تھی ۔ باتوں باتوں میںانہوںنے بتایا کہ میری چھوٹی بیٹی کمزور ہے، وجہ یہ ہے کہ اسے ناشتہ میں انڈہ بریڈ کھانا بہت پسند ہے، مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں روز اسے ڈبل
روٹی کے ساتھ انڈہ کھلانا افورڈ نہیں کرسکتی، چائے روٹی دیتی ہوں تو وہ دوچار نوالے سے زیادہ نہیںکھا سکتی۔ اہلیہ نے یہ واقعہ سنایا تو یوںلگاجیسے کسی نے تیز دھار چھری سے دل کو چیر کر رکھ دیا ہو۔ بے اختیار مجھے روزانہ اپنے گھر والی ڈائننگ ٹیبل یاد آئی، ناشتہ کے بعد جس کی تباہ حالی دیکھی نہیں جاتی، آدھ کھائے انڈے، کترے ہوئے توس،آدھے بھرے جوس کے گلاس۔ ہم میاں بیوی بچوں کی منتیں کرتے رہتے ہیں، دو تین قسموںکے انڈے بنواتے ہیں، فرائی ، آملیٹ، کبھی فرنچ ٹوسٹ، انڈوں کا خاگینہ اور نجانے کیا کیا کچھ...بچے کھائے بغیر ہی اٹھ جاتے ہیں۔ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ایسے گھر بھی ہیں، جہاں بچے صبح ڈبل روٹی کے ساتھ ایک فرائی انڈہ کھانے کا سپنا آنکھوں میںسجائے سوتے ہیں اور صبح ماں کا مایوس چہرہ دیکھ کر خاموشی سے سر جھکائے، چائے پاپے یا کالی کم دودھ والی چائے کے ساتھ روٹی کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
دوست نے یہ واقعہ سنایا تو ان کی جیسی کیفیت ہماری ہوگئی۔ کچھ دیر تک بولا ہی نہیں گیا۔ دوست نے پوچھا کہ میں ان کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، مگر وہ خوددار لوگ ہیں، براہ راست مدد کی کوشش کی تو انکار کر دیں گے۔میں نے دوست کو مشورہ دیا کہ زیادہ بہتر ان کے کام کو سپورٹ کرنا ہے۔اپنے کپڑے وہاں سے سلوائیں،محلے کے اور دوستوں کو بھی وہاں سے سلوانے کا مشورہ دیں،انہیں بروقت معاوضہ دیں بلکہ کچھ زیادہ پیسے دیاکریں ، یہ کہہ کر کہ ہماری من پسند ڈیزائننگ کریں ہم آپ کو مارکیٹ سے بہتر پیسے دیں گے۔ اس طرح ان کی عزت ِنفس مجروح نہیں ہوگی اور آمدنی بھی بڑھ جائے گی۔ ایک اور کام یہ ہوسکتا ہے کہ موسمی پھل یا دوسری ایسی اشیا ان کے گھربھیجا کریں۔ سردیوں میں ڈرائی فروٹس آپ لیتے ہوں گے، کبھی پستہ، کاجو، چلغوزے کا ایک آدھ پیکٹ ان کے گھر بھی بھجوا دیں، بہانہ کر دیں کہ کسی دوست نے زیادہ بھیج دیا ہے ۔ ہمارے بے شمارگھروں میں برسوں سے ان مہنگے ڈرائی فروٹس کی شکل تک نہیں دیکھی گئی، بچوں کی عید ہوجائے گی۔ گھر میں بریانی یا کوئی ایسی لذیز ڈ ش بنے توایک ٹرے یا سالن کا ڈونگا ادھر بھی بھیج دیں۔کینو، مالٹے اور خاص کر گرمیوں کے موسم میں آم کے حوالے سے ایساکرنا چاہیے۔ ہم میں سے بہت سے اپنے خاص دوستوں، افسروںاور دیگر بااثر رفقا کو پھلوں کی پیٹیاں تحفے میںبھیجا کرتے ہیں۔ ایسا ضرور کریں، مگر اپنی گلی ، محلے کے نسبتاًکم وسیلہ ، نادار گھرانوں کے ساتھ بھی یہی فراخدلانہ سلوک کریں۔ آس پاس کے گھروں، اپنے کم وسائل رکھنے والے رشتہ داروںکے معاملات سے آگاہ رہنا چاہیے۔ بہت سے لو گ اپنے لائق بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتے کہ اب توبیشترسرکاری اداروں میں بھی اچھی خاصی فیس ہوا کرتی ہے۔لاہور میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ایف سی کالج، لاہور کالج یونیورسٹی، ہیلے کالج، نیشنل کالج آف آرٹس جیسے پریمئر اداروں میںداخلہ لینے کے لئے صرف بہت اچھے نمبر آنا کافی نہیں، ان کی فیس بھرنا اچھے بھلے لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے لئے ممکن نہیں۔ اگر صاحبِ حیثیت لوگ اپنے دفتر، گھر، خاندان کے دائیں بائیں، ادھر ادھر ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور خاموشی سے مدد کر دیں، اس کے لئے ایک خاص فنڈ مختص کر دیا جائے تو پس ِپردہ مہربانی کا یہ عمل دیوار ِ مہربانی سے کسی درجہ کم نہیں ہوگا۔سفید پوش گھرانوں کا بھرم قائم رکھیں، ان کا یہ پردہ چاک نہ ہونے دیں،رب تعالیٰ یقیناًآپ پر زیادہ مہربان ہوگا، آپ کابھرم، نام،پردہ تاحیات قائم رہے گا۔ اس سے بڑھ کر آدمی کو اور کیا چاہیے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں