ٹی وی ڈرامے، بعض توجہ طلب پہلو

بعض اوقات یہ خیال آتا ہے کہ ہماری نسل بعض حوالوں سے خوش نصیب رہی ہے، ہمارے بھانجے، بھتیجے جن سے محروم رہے اور بچوں پر تو ان کا سایہ پڑنے کا بھی امکان نہیں۔ ستر کے عشرے میںپی ٹی وی نے شاہکار ڈرامے تیار کئے ، ان میں سے کچھ دیکھنے سے ہم محروم رہے ،مگر بیشتر نشر مکرر کے طور پر دیکھے۔ انکل عرفی، شہ زوری، کرن کہانی، ٹال مٹول وغیرہ۔کون ہے جو ففٹی ففٹی، الف نون جیسے شگفتہ ترین پروگرام بھلا سکے۔ ففٹی ففٹی کے بعض خاکے تو پچیس تیس سال بعد بھی اسی طرح ذہن میں تازہ ہیں۔ اسی(1980ء) کے عشرے میں وارث سے سونا چاندی اور ان کہی سے تنہائیاں ،دھوپ کنارے اور لاہور ٹی وی کے غیرمعمولی اثر چھوڑنے والے ٹیلی تھیٹر تک‘ کیسے کیسے مقبول ڈرامے نشر کئے گئے۔مجھے یاد ہے کہ ان دنوں کراچی سٹیشن کے ڈرامے قدرے گلیمرائزڈ سمجھے جاتے تھے۔ حسینہ معین کا فن اپنے عروج پر تھا،ان کے ڈراموں کا ایک الگ ہی ذائقہ اور مزا تھا۔ انور مقصود ، معین اختر اور بشریٰ انصاری کی تکون نے شاندار مزاح تخلیق کیا، ایسے خاکے، گانوں کی اتنی دلکش پیروڈی کہ دیکھنے والا تاحیات نہ بھلا سکے۔کراچی ہی سے سندھی ڈرامے اپنی تاثیر لئے تھے۔شفیع محمد، سکینہ سموں ، منصور بلوچ ، انور سولنگی اور ان جیسے بہت سے۔ 
لاہور سینٹر کے ڈراموں میں ایک خاص انداز کی پختگی اور دانش جھلکتی تھی۔ اشفاق احمد اور بانوقدسیہ بھی لکھ رہے تھے۔ اشفاق صاحب کا من چلے کا سودا جیسا ڈرامہ اب کبھی ، کہیں ، کسی بھی ٹی وی چینل پر نہیں دکھایا جا سکتا۔ منو بھائی کے سونا چاندی کے کردار آج بھی تازہ لگتے ہیں۔امجد اسلام امجد کے ڈرامے، ہر ایک میں مقبول تکیہ کلام والا کامیڈین، پھر اصغر ندیم سید کی آمد ہوئی اور پیاس جیسا شاہکار ڈرامہ ہمیں دیکھنے کو ملا۔پشاو ر سٹیشن کے موضوعات میں اس خطہ کی ثقافت جھلکتی تھی، یہی بات کوئٹہ کی تھی۔ بلوچ تہذیب وتمدن کے عکاس ایسے ایسے ڈرامے نشر ہوئے کہ ہر ایک نے حظ اٹھایا۔ اسلام آباد سنٹر قدرے تاخیر سے آیا، مگر اس نے بھی اپنی جگہ بنائی۔پی ٹی وی ڈرامے کی خاص بات پوری قوم کا انہیں بیک وقت دیکھنا تھا۔ یہ ڈرامے ایک ساتھ کروڑوں لوگوں پراثرانداز ہوتے تھے۔ رات آٹھ سے نو کا وقت ڈرامے کے لئے مختص تھا ۔ان ڈراموں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے تھے۔مقامی ثقافت کے دلکش رنگ اس سے جھلکتے تھے۔ نئے خیالات، شاندار اداکاری ، پُراثر موسیقی کے ساتھ ساتھ ان میں تربیت کے کئی پہلو موجود تھے۔ اٹھنے بیٹھنے، بڑوں سے کلام کا سلیقہ، شائستگی اور نفاست ان ڈراموں کے جوہر تھے۔ فیشن کے رنگ بھی پاکستانی کلچر سے ہم آہنگ تھے۔
یہ سب مگر ماضی کی پرچھائیاں ہو چکی ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ان سے لطف انداز ہوئے۔ بہت کچھ سیکھا،ذوق کی بھی تربیت ہوئی اور خوبصورت یادیں بھی ان سے وابستہ ہوئیں۔آج ٹی وی ڈرامے کا پورا منظر بدل چکا ہے۔ ایک بڑا ظاہری فرق تو کلر ، سکرین رزلٹ اور پروڈکشن کا پڑا ہے۔ ڈرامے میں اب بہت ہی خوبصورت تیز رنگ شامل ہوچکے ہیں۔ سیٹ نہایت کلر فل ہوتے ہیں، ملبوسات بھی ۔پرانے ڈرامے دیکھنے والی کی نظر ہی شروع میں چندھیا جائے گی۔بجٹ بہت بڑھ گیا ہے، کئی ڈرامے بیرون ملک شوٹ کئے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں کسی ڈرامے کی شوٹنگ مری میں ہوجاتی تو کمال تصور کیا جاتا تھا۔ آج امریکہ، انگلینڈ ، ترکی وغیرہ میں بہت سے ڈراموں کی شوٹنگ ہوتی ہے۔ فنکاروں کے معاوضے بھی بہت بڑھ گئے ہیں، اس خوشحالی کا عکس فنکاروں پر بھی نظر آنے لگا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈراموں کے موضوعات میں خوفناک قسم کا زوال آ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ڈرامہ رائٹر تخلیق نام کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں۔ جہاں دیکھو ایک ہی گھسے پٹے موضوع پر ڈرامہ ملے گا۔ بھارتی چینلز خاص طور پر سٹارپلس نے ہمارے ہاں سوپ ڈراموں کا ٹرینڈ ڈال دیا۔ کئی کئی سال تک یہ ڈرامے چلتے اوراچانک ہی کسی کردار کا چہرہ بدل جاتا، بچے حیرانی سے پوچھتے کہ پاروبھابھی تو کوئی اور تھی، اسے کیوں پارو بھابھی کہا جا رہا ہے۔ معلوم ہوتا کہ نہیں اب سے یہی خاتون ہی 
پارو بھابھی ہیں۔ بھارتی ڈراموں نے گھریلو سازشوں کو موضوع بنایا۔ کبھی ساس بہو کے خلاف سازش کرتی ہے، کبھی آنکھیںمٹکاتی نند فتنے پیدا کرتی ہے تو کہیں معنی خیز زہریلی مسکراہٹ لئے دیورانی قیامت کھڑی کر رہی ہے۔ یہ اب یہ سوپ ڈرامے پاکستانی چینلز میں چل رہے ہیں، پوری آب وتاب کے ساتھ۔ صرف یہی نہیں ، کچھ عرصہ پہلے تو ایک اور خطرناک رجحان آیا، وہ شادی شدہ عورتوں کا اپنے سابق عشاق کے ساتھ تعلقات کا تھا۔ ان دنوں اس پر لکھا بھی تھا، بعض قارئین نے باقاعدہ خطوط لکھے تھے کہ چلو گھریلو سیاست تو ہمارے ہاں بھی کسی نہ کسی حد تک تھی ہی ، مگر یہ کیا ہے کہ بیوی اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ کر کے رات گئے آ رہی ہے اور اگر خاوند پوچھے کہ کہاں گئی تھی تو اس پر آگ بگولہ ہوگئی کہ پوچھنے کی جرأت کیسے کی، میری زندگی نہیں ہے کیا، مجھ پر اعتماد نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ لوگ سوال اٹھاتے کہ یہ کیا تربیت دے رہے ہیں آپ بچوں ، بچیوں کو؟ یہ سب مگر ہوتا رہا۔
گزشتہ روزبرادرم خورشید ندیم نے بھارتی ڈراموں کے حوالے سے کالم لکھا۔اللہ انہیں جزائے خیر دے، بات ان کی بالکل درست ہے ، میں اس میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ بھارتی ڈراموں سے ایک اور مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ ان میں دیوی دیوتائوں اور پوجا پاٹھ کے بہت زیادہ مناظر ہیں۔ یہ سب اب پاکستانی چینلز سے نشر ہو رہے ہیں۔ صرف ایک چینل ایسا ہے جو اس پوجا پاٹھ کو یا گینش دیوتا کی مورتی کے منظر کو دھندلا کر دیتا ہے، باقی کوئی اس کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ زیادہ خطرناک اس لئے ہے کہ بھارتی چینلز پر یہ سب چلے تو بات سمجھ آتی ہے، بچوں کو بھی سمجھانا آسان ہے کہ یہ بھارتی کلچر ہے۔ مین سٹریم پاکستانی چینلز جو پاکستانی خبریں، پروگرام دکھاتے ہیں، وہ اگر دوسرے پاکستانی ڈراموں میں اچانک ہی یہ ہندو تہذیب سے معمور ڈرامہ دکھا دیں تو بچے کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شائد یہ بھی ہمارے پاکستانی کلچر کا کوئی حصہ ہے ۔ ایک اور بات پاکستانی چینلزمیں مشترک ہے کہ دوپٹہ سرے سے غائب ہی ہوگیا ہے۔ مشہور فیشن ڈیزائنر ماریا بی سے کسی پروگرام میں سوال بھی پوچھا گیا کہ آپ ڈیزائنرز نے اپنے تمام ملبوسات سے دوپٹہ ختم ہی کر دیا ہے تو وہ بوکھلا گئیں، جواب نہ بن پایا۔ یہ حقیقت ہے کہ دوپٹہ پاکستانی ٹی وی چینلز سے رخصت ہوچکا ہے۔ وہ تربیت، تہذیب جو پرانا ٹی وی ڈرامہ دکھاتا تھا،وہ سب کچھ اب اُلٹ چکا ہے۔ 
آخر میں کل سے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک پوسٹ ملاحظہ کر لیں:''تیئس مارچ کی ایک تقریب میں اینکر کہہ رہی تھی کہ پاکستان اس لئے بنا کہ ہماری مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے سروں سے کوئی آنچل نہ کھینچ سکے۔ کیمرہ مین نے اس بات کے ساتھ حاضرین پر کیمرہ دوڑایا تو حیران کن منظر سامنے تھا، بیشتر خواتین کے سر تو کیا‘ شانے سے ہی آنچل غائب تھا۔ دوپٹہ پہننے کی زحمت ہی نہیں فرمائی تھی، ان سب نے ۔ ‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں