یہ کیسی جمہوریت ہے ؟

مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک جملہ بہت مشہور ہواتھا، ''سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘‘ اسے بہت بار استعمال کیا گیا، پاکستانی سٹائل کی سیاست کے ہر دور پر یہ صادق آتا ہے۔ اسی فقرے کو دیکھ کر ایک اور جملہ تراشا گیا، ''سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فقرے کی بھی بے شمارمثالیں مل جائیں گی۔ ایوب سے بھٹواور ضیا سے مشرف، بے نظیربھٹو سے آصف زرداری اورچودھر ی شجاعت سے میاں نواز شریف تک ہر کسی کی سیاست پر نہایت آسانی کے ساتھ اسے منطبق کیا جاسکتا ہے۔ ایک تیسری بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ سیاست میں اخلاقیات کی حیثیت ایک ڈھکوسلے سے زیادہ نہیںرہی۔ صرف اور صرف مفادات اہم ہیں، باقی ہر چیز ثانوی ہے۔ 
اب یہی پانامہ لیکس کے طوفان اور پھر اسکے عین درمیان میںوزیراعظم نواز شریف کے چپکے سے بیرون ملک جانے کے معاملے کو دیکھ لیجئے ۔ان لیکس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔فنانشل ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اب مالیاتی دنیا پہلے سے مختلف ہوگی۔ عالمی میڈیا میں ان پر بحث ہورہی ہے کہ کس طرح وہ رخنے بند کئے جائیں، جن سے سرمایہ دار اپنا ٹیکس بچاتے اور کالے دھن والے قانون سے بچ نکلتے ہیں۔ خود مغربی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آف شور کمپنیوں سے ڈرگ ٹریفکنگ ، اسلحے کی سمگلنگ کرنے والے اور دہشت گرد بھی فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسے اب روکنا چاہیے ۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفا دے دیا، برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرے ہور ہے ہیں۔ کئی ممالک میں ان پر تحقیقات شروع ہوگئی ہیں، ہر جگہ نئی بحثیں چھڑی ہیں، ملکی قوانین کو بہتر بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ ہمارے وزیرداخلہ نے اگلے روز اپنی گھنٹوں پر محیط پریس کانفرنس میں کمال بے نیازی سے کہہ ڈالا کہ دنیا بھر میں پانامہ لیکس کو جعلی قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔سبحان اللہ!۔ کہاں اسے جعلی کہا گیا، کس نے مسترد کیا؟ زیادہ سے زیادہ یہ تنقید ہوئی کہ ان لیکس میں روس، چین جیسے ممالک کے سربراہان اور سرمایہ داروں پر زد پڑی ہے ، تو یہ سی آئی اے کی شرارت نہ ہو۔ اسے مسترد تو برطانوی وزیراعظم نے بھی نہیں کیا۔پاکستان میں بھی وزیراعظم کے صاحبزادگان نے ان کمپنیوں کوتسلیم کیا ہے۔یہ نہیں کہا کہ موساک فونسیکاکی دستاویزات جعلی ہیں۔
اعتراف کی بھی ویسے خوب رہی۔ آج تک جناب وزیراعظم ، ان کے صاحبزادوں یا کسی دوسرے نے اس اعتراف کی زحمت نہیں فرمائی۔وزیراعظم کے صاحبزادوں کی منی لانڈرنگ اور برطانیہ میں جائیداد کی خرید کے بارے میں بہت بار میڈیا میں آیا، مگر ہر بار شریف خاندان نے اسے شرانگیز پراپیگنڈہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ اب جب موساک فونسیکا کی دستاویزات لیک ہوئیں اوردنیا بھر کے متعدد ممالک کے کچھ منتخب صحافیوں سے مزید تحقیقات کرنے کے لئے یہ شیئر کی گئیں تو بات آہستہ آہستہ نکلنے لگی۔کہا جاتا ہے کہ ایک بھارتی اخبارنے اس سٹوری کی تصدیق کے حوالے سے شریف خاندان سے رابطہ کیا، جس پر وہ پاکستان آئے اور حفظ ماتقدم کے طور پر دو ٹی وی انٹرویوز دے کر کچھ باتوں کی تصدیق کر دی تاکہ اچانک دھماکہ نہ ہو۔ان میں سے ایک انٹرویو نگار کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حسین نواز شریف کو انٹرویو کے لئے آمادہ کیا اور دوران انٹرویو اپنی صحافیانہ چابک دستی سے کام لیتے ہوئے آف شور کمپنیوں کے بارے میں اچانک سوال کر ڈالا۔ بقول ان صحافی کے ،حسین نوازجو جھوٹ نہیں بول سکتے، انہوں نے سوال کے جواب میں اقرار کر ڈالا، یوں یہ سٹوری کنفرم ہوگئی۔ یہ کہانی اگر درست مان لی جائے تو اس کا یہ مطلب نکلا کہ جناب حسین نواز کااعتراف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ ایک کمزور لمحے میں صحافیانہ سوال کا نشانہ بن گئے۔ اگر اس موقف کو نہ مانا جائے تو پھردوسری صورت پلانٹڈ انٹرویوز ہی کی بنتی ہے، جو کہ زیادہ مایوس کن منظرنامہ ہے۔ 
اصل میں معاملہ آف شور کمپنیوں اور ان کی تصدیق کا نہیں۔پاکستانی سیاست میں شریف خاندان، زرداری خاندان، چودھری خاندان اور اس طرح بعض دوسرے روایتی سیاسی گھرانوں کے بارے میں یہ تصور راسخ ہے کہ انہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کر کے اپنے کاروبار کو بے پناہ وسعت اور ترقی دی اور بیرونی ممالک میں جائیدادیں خریدی ہیں۔ ہمارے یہ سب سیاسی گھرانے اور شخصیات اس بات سے انکاری رہے ہیں۔موساک فونسیکا کا ڈیٹا چوری ہونے سے جو تفصیلا ت سامنے آئی ہیں، ان سے میاں نواز شریف کے خاندان کے بارے میںعوامی سطح پر پھیلی بعض افواہیں ، خبریں اور گپ بازی سچ ثابت ہوگئی ہے۔ چونکہ ایک بڑا حصہ کنفرم ہوگیا تو پھر باقی اجزا کے درست ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
میاں صاحب کے باہر جانے کا معاملہ بھی عجیب نوعیت کا ہے۔ پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے اگلے دن وہ ٹی وی پر آئے اور قوم سے خطاب کر کے اپنی وضاحت پیش کی۔اس خطاب کو اب سارے فساد کی جڑ قرار دیا جارہا ہے۔میاں صاحب کے قریبی ساتھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ خطاب کا مشورہ انہوںنے دیا تھا۔ سنا ہے کہ وزیراطلاعات سے لے کر خصوصی معاون تک ہر کوئی اپنی صفائی دیتا پھر رہا ہے ۔ کوئی اس مشورے کا وزن اپنے کاندھے پر اٹھانے کو تیار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے نئی نکتہ سنجی فرمائی ہے ، کہ اگروزیراعظم خطاب نہ کرتا توکچھ بھی نہیں ہونا تھا۔ یہ بھی عجیب بات ہے۔ یعنی وزیراعظم اور ان کی اولاد پر اتنے سنگین الزامات کوئی ایشو نہیں ۔ قوم اس کو کوئی اہمیت نہ دیتی، وزیراعظم کے خطاب نے اسے ہائی پروفائل بنا دیا۔ اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان صرف پاکستان ہی میں دیا جاسکتا ہے ۔دوسری طرف سیاست کی بے رحمی اور سفاکی دیکھیںکہ مسلم لیگ ن کا بہت بڑا حصہ اچانک ہی منظر عام سے غائب ہوچکاہے۔ بہت سوں کو تو گویا سانپ سونگھ گیا ۔ یہ الزامات جیسے ان کی پارٹی کے قائد پر نہیں، بھارت میں کانگریس کے راہول گاندھی پر لگائے جار ہے ہیں۔ خود جناب شہباز شریف جو مسلم لیگ ن ہی کی بدولت ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنے ہیں، وہ اس موضوع پر بالکل ہی نہیں بول رہے ۔روزانہ اخبارات کے فرنٹ پیج پر ان کے بیانات شائع ہو رہے ہیں، مگر وہ اپنے بڑے بھائی اور پارٹی رہنما کا دفاع قطعی طورپر نہیں کر رہے۔ ان کے صاحبزادے جو کبھی اپنے چچا کواپنا آئیڈیل مانتے تھے ، وہ بھی پراسرار خاموشی کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ 
ادھرجناب وزیراعظم کی بیماری کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہو رہا۔وہ کب بیمار پڑے، کس میڈیکل بورڈ نے ان کا معائنہ کیا اور انہیں باہر جانے کا مشورہ کیوں دیا ؟ انہیں کون سی ایسی بیماری لاحق ہے جس کا علاج ملک میں نہیں ہوسکتا؟ کون سا ایسا ٹیسٹ یا معائنہ ہے جو یہاں نہیں ہوسکے گا؟ باہر جانے سے پہلے کیا کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں یہ طے کیا گیا کہ میاں صاحب کی عدم موجودگی میں کون معاملات سنبھالے گا؟ خبر آئی ہے کہ میاں صاحب کی عدم موجودگی میں اسحاق ڈارمعاملات سنبھالیں گے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریم نواز معاونت کریں گی۔ خبر کا آخری حصہ دلچسپ وعجیب ہے۔ مریم نواز کس حیثیت میں معاونت کریں گی؟ کس طرح ان سے معاونت کا کام لیا جا سکتا ہے؟ جناب چودھری نثار کو اپنی طویل گفتگو میں کچھ روشنی اس پر بھی ڈالنی چاہیے تھی۔ویسے چودھری صاحب کو کمیونیکیشن کے ماہرین سے مشاورت کرنی چاہیے۔ انہیں یہ سادہ اصول معلوم نہیں کہ جتنی طویل گفتگو کی جائے ، اس کی کشش اور قوت ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔چودھری صاحب ویسے بھی بے رس گفتگو فرماتے ہیں، انہیں تو ٹو دی پوائنٹ بولنا چاہیے ۔ وہ ڈیڑھ دو گھنٹہ سے کم پریس کانفرنس نہیں کرتے، اوپر سے سوالات کے جواب میں آدھا پون گھنٹہ مزید لے جاتے ہیں۔مغربی دنیا میںابلاغ عامہ کے ماہرین باقاعدہ طور پر وزرا کی تربیت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ ٹرینڈ آنا چاہیے۔ اگر ایسا کبھی ہوا توپہلا بیچ بہت بڑا ہوجائے گا، مگرجناب شاہ محمود قریشی کو ترجیحی بنیاد پر داخلہ ملنا چاہیے۔ آنجناب کو اس کی شدید ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں