کامیابی کا ایک نیاماڈل

کہتے ہیں شکست یتیم بچوں کی مانند ہوتی ہے، جن کے سر پر ہاتھ پھیرنے والا کوئی نہیں ملتا، جبکہ کامیابی یا فتح کا کریڈٹ لینے والے بہت پیدا ہوجاتے ہیں۔ کامیابی کا جادو ہے ہی ایسا خیرہ کن کہ اس کے سحر سے نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ایک خوشگوار پہلو یہ بھی کہ ہر کامیابی اپنے ساتھ امید کی کرن بھی لاتی ہے۔ اس کے اندر ایسے سبق پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ اہم نکات، جن سے سیکھ کر، سمجھ کر دوسرے بھی کامیابی کے زینے چڑھ سکتے ہیں۔
ایسا ہی ایک حیران کن کرشمہ اسی ہفتے انگلینڈ میں ہوا جب ایک چھوٹے شہر کے غیر نمایاں کلب نے فٹ بال کی جدید تاریخ کا بڑا معجزہ تخلیق کر ڈالا۔ منگل کی شام نیٹ پر برطانوی اخبارات سرچ کرتا رہا، مختلف ماہرین کے تجزیے، آرا، رپورٹیں... جاننا چاہ رہا تھا کہ لیسٹر سٹی کی مسحور کن کامیابی کے پیچھے کیا اسباب کارفرما رہے ۔ جو کچھ جانا، وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ اتنا ہی امیدافزا بھی تھا۔ اس کہانی کو بیان کرتے ہیں، مگر پہلے کچھ تفصیل فٹ بال کی اس لیگ کی،لیسٹر سٹی کلب جس کا نیا چیمپئن بنا ہے۔ 
انگلش پریمئر لیگ (EPL) برطانیہ کی ٹاپ پروفیشنل فٹ بال لیگ ہے۔ اس میں بیس کلب شریک ہوتے ہیں۔ ہر کلب دوسری ٹیم کے ساتھ دو میچز کھیلتا ہے، ایک ہوم گرائونڈ اور دوسرا اوے۔ اگست میں اس کا سیزن شروع ہوتا ہے ، مئی کے پہلے ہفتے تک یہ چلتا ہے۔ ہر کلب اس طرح اڑتیس میچز کھیلتا ہے ۔ زیادہ پوائنٹس لینا والا چیمپئن بن گیا، جبکہ آخری تین نمبر وں پر رہنے والی ٹیموں کی ہر سال تنزلی ہوجاتی ہے، وہ انگلش پریمئر لیگ سے نکل کر دوسرے نمبر کی لیگ ''فٹ بال لیگ چیمپئن شپ ‘‘میں چلی جاتی ہے۔ انگلش پریمئر لیگ کی ٹاپ ٹیموں میں مانچسٹریونائٹیڈ، مانچسٹر سٹی، چیلسی ، آرسنل ، لیورپول وغیرہ شامل ہیں۔رواں سیز ن کو ملا کر انگلش پریمئر لیگ کے چوبیس لیگ سیزن بنتے ہیں۔ مانچسٹر یونائٹیڈ سب سے زیادہ یعنی تیرہ بار چیمپئن بنی ہے۔چیلسی چار بار، آرسنل تین ،مانچسٹر سٹی دو بار اور بلیک برن ہوورزصرف ایک بار(1994-95ء )چیمپئن بنا ہے۔ مانچسٹر یونائٹیڈ ، چیلسی، آرنسل ، مانچسٹر سٹی وغیرہ انگلش لیگ کی مہنگی ترین ٹیمیں سمجھی جاتی ہیں۔دنیا کے مشہور اور بہترین کھلاڑیوں کو یہ انتہائی مہنگے داموں خرید کر اپنی ٹیم کی زینت بناتی ہیں اور ان کی ٹیم کی کاسٹ کئی سو ملین پونڈز تک چلی جاتی ہے۔ 
اس سال (2015-16ء )کی انگلش پریمئر لیسٹر سٹی (فوکس) نے جیت کر ہر ایک کو حیران کر دیا ہے۔ لیسٹر سٹی صرف ساڑھے تین لاکھ افرادکی آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا شہر ہے۔ لیسٹر سٹی فٹ بال کلب بھی نسبتاً ایک چھوٹا اور غیر نمایاں کلب ہے، پچھلے دو عشروں میں اس کی کارکردگی غیر متاثرکن رہی ہے۔ کئی برسوں تک وہ انگلش پریمئر لیگ سے بھی باہر رہا اور دوسرے ، تیسرے درجے کی لیگ کھیلتا رہا۔ پچھلے سال وہ انگلش پریمئر لیگ میں کھیلنے کا اہل ہوا۔ پچھلے سال اس کی کارکردگی اگرچہ نہایت مایوس کن رہی، لیسٹر سٹی چودہویں نمبر پر رہا اور وہ بمشکل تنزلی ہونے سے بچا۔ ایسے میں کوئی خواب میں بھی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ اس بار لیسٹر میدان مار لے گی۔ حد تو یہ ہے کہ سٹہ بازوں نے سیزن کے شروع میں لیسٹر کو ایک کے مقابلے میں پانچ ہزار پونڈ کا مضحکہ خیز ریٹ دیا۔ یعنی جو لیسٹر کی فتح پر ایک پائونڈ لگائے گا، اسے پانچ ہزارپائونڈز ملیں گے۔ اگر کوئی ہمت کر کے اس وقت لیسٹر پر ایک ہزار پائونڈ لگا دیتا تو اب اسے پچاس لاکھ پائونڈز مل جاتے ۔
لیسٹر شائر کی کرشماتی جیت میں کئی کردار وں کے نام آتے ہیں، ان میں سب سے نمایاں اس کا مینجر( اطالوی نژاد) کلایڈیو رینیری (Ranieri) ہے۔کرکٹ کے برعکس فٹ بال میں کلب مینجر کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ وہ کھلاڑیوں کو لینے، نکالنے، ان کی پریکٹس، کھانے پینے، میچز وغیرہ کے شیڈول کا نگران ہوتا ہے۔ مینیجر ہی نتائج دیتا اور اسی سے مواخذہ ہوتا ہے۔ کلایڈیو رینیری اطالوی اور بعض دوسرے یورپی ممالک کے کلبوں کی کوچنگ کرتا رہا ہے۔ وہ دس بارہ سال قبل انگلش پریمئر لیگ میں چیلسی کا کوچ رہا، مگر پھر ہٹا دیاگیا۔ لیسٹر سٹی کے تھائی نژاد مالک نے جب رینیری کو کلب کا مینجر بنایا تو کلب کے بعض سابق مشہور کھلاڑیوں نے اس پر منفی تبصرے کئے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ چونسٹھ سالہ اطالوی کوچ اس سال معجزہ تخلیق کر دے گا۔ برطانوی اور عالمی میڈیا میں لیسٹر سٹی کی کامیابی اور رینیری کے کامیابی کے ماڈل پر مسلسل بحث ہو رہی ہے۔
رینیری ماڈل کے نمایاں پوائنٹس یہ کہے جا رہے ہیں۔ کلایڈیو رینیری نے اپنے تیس سالہ تجربے سے بہت کچھ سیکھا، اس نے اپنی غلطیوں کو نہیں دہرایا اوربڑے دعوے کرنے کے بجائے کام کرنے پر توجہ دی۔ چیلسی کے ٹیم مینیجر کے طور پر رینیری نے بہت زیادہ تجربات کئے، بار بار کھلاڑیوں کو تبدیل کیا اورنت نئی حکمت عملی کا تجربہ کیا۔ اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انگلش پریس میں طنزاً رینیری 
کو دی ٹنکر مین کا نام دیا گیا۔اس بار رینیری نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی۔ وہ سکون، مستقل مزاجی اور تحمل سے اپنے ہد ف کی طرف گامزن رہا۔ اس سے پہلے جو ٹیم مینجمنٹ موجود تھی، رینیری نے اسے بھی بدلنے کی زحمت نہیں کی۔ اسسٹنٹ کوچ سٹیووالش ، کوچ کریگ شیکسپیئرکو برقرار رکھا گیا۔ سٹیو والش کا لیسٹر کی کامیابی میں نمایاں حصہ مانا جا رہا ہے۔ والش نے دراصل مختلف کلبوں سے اچھے اور باصلاحیت کھلاڑی لئے ۔ وہ بڑے ناموں کے بجائے ٹیلنٹیڈ کھلاڑیوں کو اہمیت دیتا رہا۔ لیسٹر کے ٹاپ سکورر جیمی وارڈی ، الجزائری سٹرائیکر ریاض محرز اور فرانسیسی مڈ فیلڈر کانتے نے اپنے عمدہ کھیل سے آج دنیائے فٹ بال کے ٹاپ کلبوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس سے پہلے کوئی انہیں اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ ڈینی ڈرنک واٹر اور ڈینی سیمسن مانچسٹر یونائٹیڈ میں دلبرداشتہ تھے، رابر ٹ ہتھ کو چیلسی نے فارغ کیا، مارک البرائیٹ آسٹن ولا میں سرپلس تھا۔ ان سب کو والش نے لیسٹر سٹی کی ٹیم میں شامل کیا۔ رینیری کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس دلبرداشتہ، لو پروفائل کھلاڑیوں میں ایک ایسا جذبہ اور آگ بھر دی، جس نے کمال کر دکھایا۔ رینیری نے خود صحافیوں کو بتایا کہ میںکھلاڑیوں کو ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اپنے اندر آگ جلنے دو، اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، یہ آپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ 
رینیری کے ریلیکس مینجمنٹ سٹائل پر بھی بہت بات ہورہی ہے۔ اکثر ٹاپ کلبوں کے مینجرز سخت ٹریننگ اور ڈسپلن کے حامی ہوتے ہیں۔ رینیری نے لیسٹر سٹی کے کھلاڑیوں کے لئے ہفتے میں دو دن چھٹی کا شیڈول رکھا۔پیر کو وہ ہلکی پھلکی ایکسرسائز کرتے، منگل کو سخت ٹریننگ سیشن، بدھ کو مکمل چھٹی، جمعرات کو پھر سخت ٹریننگ، جمعہ کو میچ کی تیاری کا سیشن جبکہ ہر ہفتہ کو میچ ہوتا اور اتوار کو چھٹی۔ رینیری کھلاڑیوں کے ساتھ دوستانہ طریقے سے پیش آتا، انہیں موٹی ویٹ کرتا، ان کی صلاحیتوں کو سامنے لے آتا اور میچز میں اچھی کارکردگی پر پزا کھلانے لے جاتا۔ لیسٹر کے اکثر کھلاڑی اب یہ بات مان رہے ہیں کہ ہم میں سے کسی نے کبھی اپنی کارکردگی کا کریڈٹ نہیںلیا۔ میں کے بجائے ہم کے انداز میں بات ہوتی ، کھلاڑی ایک جان ہو کر کھیلے اور جیت کے لئے جان لڑا دی۔ رینیری کھلاڑیوں سے کہتا کہ پیسہ اہم ہے، جیتنے کے بعد آپ سب کو پیسہ ملے گا، مگر اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ نے اتنے زیادہ لوگوں کو جیتنے کی امید دلائی ہے، ان لوگوں کی خاطر لڑواور جیت کر دکھائو۔ لیسٹر سٹی کی ٹیم نے اپنی ایک سو چوبیس سالہ تاریخ میں پہلی بار انگلش پریمئر لیگ جیت کر وہ معجزہ کر دکھایا۔ اسے فیری ٹیل کہا جا رہا ہے،ایسی کہانی جو صرف خوابوں کی دنیا میں ملتی ہے، مگر اب وہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ 
سچ تو یہ ہے کہ لیسٹر سٹی کی کامیابی صرف ایک فٹ بال کلب کی کسی پروفیشنل فٹ بال لیگ میں چیمپئن شپ جیتنا نہیں ہے۔ یہ عزم وہمت کی ایک اچھوتی مثال ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانے، حوصلہ بلندرکھنے اور کبھی ہار نہ ماننے کی داستان۔ دبائو میں ابھرنے ، نیچے جا کر پھر اٹھنے اور تمام تجزیوں، پیش گوئیوں اور اندازوں کو غلط ثابت کرنے والی سچی کہانی۔یہ بات ایک فرد پر بھی صادق آ سکتی ہے، تنظیم،گروہ ، آرگنائزیشن پر بھی۔ اس ماڈل کوبڑا کرتے جائیں تو شہر اور ملک بھی آ جائیں گے۔ انوکھی، اچھوتی داستانیں ایسے ہی رقم ہوتی ہیں۔ مایوسیاں پھیلانے والے ، تاریکیوں سے محبت کرنے والے صرف منفی مثالیں پیش کرتے اور انہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ کامیاب ہونے والے حوصلہ پست کرنے کے بجائے جدوجہد کرتے اورخودایک نئی کہانی ، تاریخ اوراُمید کانیا ماڈل بن جاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں