کاش ہم حادثات سے کچھ سیکھ سکیں

بدھ کی سہ پہر اچانک ٹی وی چینلز پر چترال سے اسلام آباد آنے والے طیارے کے کنٹرول روم سے رابطہ ختم ہونے کی خبر چلنے لگی۔ کسی طیارے کے حوالے سے رابطہ ٹوٹنے یا ریڈار سے غائب ہوجانے کی خبرکا مطلب ایک بڑا المیہ ہی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں اس روح فرسا خبر کی تصدیق ہوگئی ۔چند منٹوں بعد یہ بھی علم ہو گیا کہ معروف نعت خواں اور مبلغ جنید جمشید بھی مسافروں میں شامل ہیں، ڈی سی چترال بھی اسی طیارے میں تھے۔ ٹی وی سکرین پر جہاز کے کریو کی زندگی سے بھرپور دلکش تصاویر چلنے لگیں ، حزن وملال کی دھند سی سانسوں میں اترنے لگی۔یہی ہے وہ زندگی جس کی خاطر ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں کھپا دیتے ہیں اور پھر ایک لمحے میںجھٹکے سے سب کچھ لپیٹ دیا جاتا ہے۔کاش ا یسے المناک واقعات ہی سے ہم دنیا کی بے ثباتی ، انسان کے فانی ہونے اور زندگی کی ناپائیداری کا سبق لے سکیں۔ یہ سمجھ لیں کہ سب کچھ مایا ہے،صرف وہی سکہ اہم ہے جس کی روز آخرت کچھ قیمت لگ سکے ۔ 
جنید جمشید کے یوں اچانک چلے جانے کا احساس دلدوزہے۔ جنید جمشید میری نسل کے ناسٹلجیا کا حصہ ہے۔ جنید جمشیدنے جب وائٹل سائنز میوزک گروپ کے پلیٹ فارم سے دل دل پاکستان گایا تو پورا پاکستان اس کے سحر میں آ گیا تھا۔ ان دنوں ہر جگہ یہی ملی نغمہ گایا جاتا۔ جنید کے میوز ک البم بہت مقبول ہوئے، ان کا ملتان کے حوالے سے گایا سریلا گیت آج بھی کسی نہ کسی شادی کی محفل میں گایا جاتا ہے۔ پھر یوں اپنے کیریئر کے عروج پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تبلیغ کے کام میں لگ جانا ایک انہونی بات تھی۔ جنید جمشید اس نیک کام میں ایسے جتے کہ پھر مڑ کر نہ دیکھا۔ اپنی پرانی موسیقی کو ڈس اون کر دیا اور نعت خوانی شروع کی۔ٹی وی چینلز کے رمضان پروگراموں میںانہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ حادثے کی خبردیکھ کر یہی خیال آیا کہ زندگی تو ان کی اتنی ہی لکھی تھی، تقدیر کتنی مہربان تھی کہ درست وقت پررخ موڑا اور درست سمت میں چلے گئے اور اب موت آئی بھی تو دعوت وتبلیغ کے کام سے واپس آتے ہوئے۔ زندگی میں ایسی خوشگوار ، مفید تبدیلی اور ایسی رخصتی بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں کہیں بھی طیارہ کو کوئی حادثہ ہو، ہمارے گھر میں اسے معمول سے زیادہ شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ میری والدہ ایک بڑے ذاتی صدمہ سے گزر چکی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں پی آئی اے نے قاہرہ، مصر کے لئے اپنی پہلی پرواز شروع کی تو اس خصوصی فلائٹ کے لئے قومی صحافیوں کو بھی لے جایا گیا۔ میرے چھوٹے ماموں یاسین ترین ان میں شامل تھے ، ان کی زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا، خوشی خوشی سب گھر والے ائیر پورٹ چھوڑ کر آئے اور دوپہر کو خبر آگئی کہ طیارہ قاہرہ سے چند میل دور گر گیا۔ والدہ اس شدید صدمے کو کبھی نہ بھلا سکیں۔اپنے پیارے بھائی کے جانے کا گھائوکبھی نہیں بھر سکا۔ جب کبھی کوئی جہازگھر کے اوپر سے گزرتا تو والدہ ہمیشہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر مسافروں کی سلامتی اور خیریت سے پہنچنے کی دعا کیا کرتی ہیں۔جب کسی کا وقت آجائے تو پھر شائد کوئی دعا کارگر نہیں ہوتی۔ زہیر بن ابی سلمہ جاہلی عرب کے مشہور شاعر ہیں، ان کا ایک قصیدہ عرب کے مشہور سبع معلقات (وہ سات قصیدے جو سونے کے پانی سے لکھ کر کعبہ میں لٹکائے گئے)میں شامل ہے۔ زہیر کے بہت سے اشعار علم وحکمت کا نادر نمونہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے موت کو کمزور نظر والی لنگڑی اونٹنی کے مانند پایا ہے(جس کے ڈگمگاتے پائوں تلے کوئی بھی آ سکتا ہے)، جو اس کے نیچے آنے سے بچ گیا، اس کی زندگی طویل ہوگئی ۔کچھ دن پہلے تذکرہ تابعین دوبارہ پڑھنا شروع کی تو کئی ہلا دینے والے واقعات پڑھے۔ ان میں سے دو نقل کرتا ہوں۔
بنوامیہ کا دور تھا،ولید بن عبدالملک خلیفہ تھا۔ ایک دن دارالحکومت میں قبیلہ بنوعبس کا ایک گروہ آیا۔ اس میں ایک نابینا شخص تھا۔ خلیفہ نے گفتگو کرتے ہوئے رسماً پوچھا کہ تم کیسے نابینا ہوئے ۔ نابینا مہمان نے جواب دیا ،''اے امیر المومنین قبیلہ بنو عبس میں مجھ سے زیادہ کوئی مالدار اور عیالدار شخص نہیں تھا۔ میں اپنے مال ومتاع اور اہل وعیال سمیت ایک ایسی جگہ ٹھیرا، جہاں ہمارے قبیلے کے دوسرے لوگ بھی موجود تھے ۔ اتفاق سے ہمیں سیلاب نے آلیا ،... ایسا سیلاب ،جس کی مثال میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ۔ سیلاب کے تندوتیز ریلے میرا مال ومتاع اور اہل وعیال سب بہا کر لے گئے ۔ صرف ایک چھوٹا بچہ اور ایک اونٹ بچ رہا۔ اونٹ بڑا سرکش تھا،وہ بدک کر بھاگ نکلا۔ میں نے بچے کو چھوڑا اور اس کے پیچھے ہولیا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ مجھے بچے کی چیخ سنائی دی ۔ مڑ کر دیکھا تو ایک بھیڑیا بچے کا سر منہ میں دبوچے ہوئے تھا۔ میں بھاگ کر واپس آیا اور بھیڑیے کو بھگایا ،مگر اتنی دیر میں اس کے موزی دانت بچے کی گردن کاٹ چکے تھے۔ بچے کے جاں بحق ہونے کے صدمہ سے بے حال ہوکر کچھ دیر بیٹھا رہا ،پھر دوبارہ اونٹ کی طرف گیا۔ جب اس کے قریب گیا تو اس نے اس قدر زور سے مجھے لات رسید کی کہ میری پیشانی پچک گئی اور دونوں آنکھیں ضائع ہوگئیں۔ اس طرح میں ایک ہی رات میں اہل واولاد ، مال ودولت اور بینائی سے محروم ہوگیا۔ صرف ایک دن پہلے تک پہلے میں بنو عبس کا سب سے مالدار شخص تھا،ایسا آدمی جس کا ہاتھ ہمیشہ دینے کے لئے کھلا رہتا تھا ، ایک ہی رات نے مجھے دینے کے بجائے لینے والا بنا دیا۔ ‘‘ ولید بن عبدالملک یہ ماجرا سن کر چند منٹوں تک سرجھکائے خاموش بیٹھا رہا۔ پھر اس نے خادموں کا حکم دیا کہ بنوعبس کے اس نابینا شخص کو ہمارے مہمان عروہ ؒ کے پاس لے جائو تاکہ اس کی غم زدہ داستان سن کرانہیں اندازہ ہوکہ دنیا میں ان سے بھی بڑی آزمائشوں سے لوگ گزرے ہیں ۔ 
ولید بن عبدالملک کے مہمان عروہ ؒ مشہور تابعی بزرگ عروہ بن زبیر تھے ۔ حضرت عروہ ؒ صحابی رسول ﷺ حضرت زبیرؓ بن العوام کے صاحبزادے ،حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نواسے اورعرب کے مایہ ناز جنگجوحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے بھائی تھے۔حضرت عروہ ؒ ان دنوں خلیفہ ولید بن عبدالملک کی دعوت پردارالحکومت دمشق آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا بڑا بیٹا بھی تھا۔ خلیفہ نے ان کا شاندار استقبال کیا اور کچھ عرصہ ٹھیرنے کے لئے کہا۔ ان کا بیٹا شاہی اصطبل میں گھوڑوں کو دیکھنے گیا تو وہاں ایک سرکش گھوڑے نے اس قدر زور سے دولتی ماری کہ حضرت عروہ ؒ کا بیٹا موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ دل شکستہ عروہ ؒ بیٹے کی تدفین سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے ایک پائوں کو ''ہڈی خور ‘‘بیماری لگ گئی۔ ورم تیزی سے پھیلنے لگا۔ خلیفہ نے دور دور سے معالج اور طبیب منگوائے ،مگر سب کی رائے تھی کہ پائوں کو پنڈلی تک کاٹ دیا جائے ورنہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ مجبوراً ایسا ہی کرنا پڑا۔ حضرت عروہ کو معذور ہونا پڑا۔ ہوش میں آنے کے بعد انہوںنے اپنے کٹے ہوئے پیر کو منگوایا اور چند اشعار پڑھے ،آخری شعر یہ تھا ع
مجھے معلوم ہے کہ زمانے سے جو مصیبت مجھے پہنچی
وہ مجھ سے پہلے بھی کئی جوانوں کو پہنچ چکی ہے
مدینہ واپس آئے تو گھروالوں کو غمزدہ دیکھ کر حضرت عروہؒ نے کہا،'' اللہ نے مجھے چار بیٹے عطا کئے تھے ، پھر ان میں سے ایک لے لیا اور تین چھوڑ دیے ،اس ذات کا شکر ہے ۔ اس نے مجھے دو ہاتھ اور دو پائوں عنایت فرمائے ،پھر ان میں سے ایک لے لیا اور تین چھوڑ دیے ، اس پر اللہ کا شکر ہے ۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے مجھ سے تھوڑا سا چھینا ہے تو بہت سا باقی چھوڑ دیا ہے ۔ اگر ایک بار مجھے آزمائش میں ڈالا ہے تو ہزاروں بار مجھے عافیت میں رکھا ہے ۔‘‘ان کی غمخواری اور بیٹے کی تعزیت کے لئے اہل مدینہ ان کے پاس آتے رہے ، کہاجاتا ہے کہ کلمات تعزیت میں سے سب سے بہترین ابراہیم بن محمد بن طلحہ نے کہے ،''خوش ہوجائیں کہ آپ کے اعضاء میں سے ایک عضو آپ سے پہلے اور ایک بیٹا دوسرے بیٹوں سے پہلے جنت میں پہنچ گئے ۔ انشاء اللہ کل بھی جز کی پیروی کرتے ہوئے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ آپ کے علم وفقہ اور رائے میں سے جس چیز کے ہم حاجت مند تھے ،اللہ نے اس کو بچا لیا ، اللہ ہمیں اور آپ کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ اللہ آپ کے اجرو ثواب کا ولی اوربہترین حساب کا ضامن ہو۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں