راولپنڈی واقعے کے بعد جس تیزی سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال شروع ہو گیا ہے‘ یہ ہمیں ذلت اور تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا کر چھوڑے گا۔ آپ خود ہی دیکھیں ‘ یوم عاشور پر ایک واقعہ ہوا‘ اس میں کون قصور وا ر تھا‘ کس نے پہل کی‘ کون غفلت کا مرتکب ٹھہرا‘ اس بارے میں سوشل میڈیا خود ہی منصف بنا ہواہے۔ یہ اس قدر خوفناک پہلو ہے جس کا فوری ادراک نہ کیا گیا تو آگ پھیلتی چلی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ قصور سوشل میڈیا کا ہے‘ اسے استعمال کرنے والوں کا یا پھر حکومتوں کا جو آج تک اس بارے میں کوئی لائحۂ عمل ہی طے نہیں کر سکیں کہ اسے کنٹرول کیسے کرنا ہے۔ اس وقت میڈیا چار یا پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ٹی وی‘ ریڈیو‘ اخبارات و جرائد ‘سوشل میڈیا اور موبائل فون میسجنگ شامل ہے اور ان سب میں سب سے خطرناک کردار سوشل میڈیا ادا کر رہا ہے۔ آپ خود ہی سوچیں‘ آپ کسی شخص کو پسند نہیں کرتے‘ وہ کوئی سیاستدان ہے یا بزنس مین‘ آپ اس کی تصویر فیس بک پر لگاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس سے ایسے کلمات منسوب کر دیتے ہیں جو اس نے کبھی کہے ہی نہیں اور اس کے بعد یہ مواد چند منٹ میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے ‘ یہ سلسلہ پھیلتا جاتا ہے اور اتنا پھیلتا ہے کہ جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے اسّی فیصد نوجوان اور کم عمر بچے ہیں ۔ایسی چیزوں کا ان پر کیا اثر پڑتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم نئی نسل کو خود سے کمپیئر نہیں کر سکتے۔ یہ آنہ لائبریری کا زمانہ نہیں۔ بچوں کو نصابی کتابوں سے فرصت نہیں ملتی اور مل بھی جائے تو وہ اپنا وقت جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ بِتانے کو اہمیت دیتے ہیں۔انہیں اشفاق احمد‘ کرنل محمد خان اور شفیق الرحمن کی بجائے ڈورے مون‘ فیس بک اور اینگری برڈز زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ ہماری تاریخ کیا تھی‘ انہیں اس سے غرض ہے کہ فلاں موبائل کمپنی اگلا موبائل سیٹ کون سا لانچ کر رہی ہے‘ رات کو کال کرنے کیلئے سستا پیکج کس کمپنی کا ہے اور سوشل میڈیا پر کسے کیسے بیوقوف بنانا ہے۔ ایسی نسل جب فیس بک اور دیگر جگہوں پر فرقہ وارانہ منافرت سے بھرپور مواد دیکھے اور سنے گی تو لا محالہ اس کے ذہن بھٹک جائیں گے۔ چونکہ کم عمر بچے ایسے ایشوز کی گہرائی اور بیک گرائونڈ سے واقف نہیں ہوتے اس لیے یہ فرقہ وارانہ فساد کا عملی طور پر حصہ بھی بن سکتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے گروہ سے وابستہ ہو جائیں جو انہیں مخالف گروہ کے خلاف استعمال کر نے لگے تو آپ کیا کرلیں گے؟ آپ کو پتہ اس وقت چلے گا جب پانی سر سے گزرجائے گا۔ یہ درست ہے کہ ذمہ داری حکومت کی بھی ہے لیکن حکومت آپ کے گھر میں گھس کر آپ کے بچوں کی انگلیوں اور دماغوں کو تو قابو نہیں کر سکتی۔ یہ کام آپ نے کرنا ہے۔ آپ کا بچہ آپ کے ساتھ بارہ چودہ گھنٹے گزارتا ہے۔ اس کا دوست کون ہے ‘ موبائل فون میں کن سے رابطے ہیں یہ آپ بہتر جانتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ ان کی جاسوسی کرنے لگیں۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آپ ان کے ساتھ مکالمہ کریں‘ان کے ذہن کو پڑھیں اور ان کے سوالات کا جواب دیں۔ یہ مکالمہ جتنا زیادہ طویل اور جامع ہو گا‘ آپ کے بچے کی کردار سازی میں اتنی ہی زیادہ پختگی آئے گی اور اگر اس کا کردار پختہ ہو گیا تو پھر وہ ایسی چیزوں کا اثر قبول نہیں کرے گا۔ فیس بک غیرہ کے ذریعے ہونے والے جرائم سے متعلق ایف آئی اے کے تحت نیشنل ریسپانس سنٹر فار سائبر کرائم بھی قائم ہے لیکن یہ سنٹر کس قدر کامیابی سے اپنا کام کر رہا ہے اس کا اندازہ فیس بک اور دیگر جگہوں پر موجود اشتعال انگیز مواد اور سرگرمیوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو دھمکی آمیز ای میل اور ایس ایم ایس پیغامات بھیج رہے ہیں‘ افغانستان کی سموں سے بھتے کی کالیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور انٹرنیٹ پر فراڈ کی سکیمیں لوگوں کو دھڑا دھڑ لوٹ رہی ہیں لیکن یہ سنٹر ان میں سے کتنے لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہا ہے‘ کسی کو معلوم نہیں۔ مجھے ایسے لوگوں کی ای میلز موصول ہوئی ہیں جنہیں انٹرنیٹ پر کسی نہ کسی طرح سے لوٹا گیا تھا اور وہ لوگ ایف آئی اے اور سائبر ونگ کو اپنا کیس بھیج بھیج کر تھک چکے ہیں لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملتا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی واقعے کے بعد حکومت پھر جاگ اٹھی ہے اور سوشل میڈیا پر فرقہ واریت سے متعلق مواد جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی پہلے کیوں نہیں ہوئی ، اب کیسے ہو گی‘ کس کے خلاف ہو گی اور اسے قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے گا‘ کچھ بھی واضح نہیں۔ وزارت داخلہ نے نفرت انگیز اور بے بنیاد مواد سوشل ویب سائٹ سے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان ذرا واضح کر دیں کہ کیا سوشل میڈیا اور فیس بک وزارت داخلہ پاکستان کے زیر اثر آتی ہیں؟ فیس بک پر گزشتہ دور حکومت میں توہین رسالت پر مبنی مواد تو ہٹایا نہیں جا سکا تھا ‘ مجبوراً لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر مئی 2010ء میں پاکستان میں فیس بک ہی بلاک کرنا پڑی تھی جس طرح ابھی تک یو ٹیوب بلاک ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ فیس بک پر چلنے والے اکائونٹ پاکستانی قوانین کے تحت کام نہیں کرتے بلکہ فیس بک کی اپنی پالیسی اور اپنے قوانین ہیں۔ حکومت عوام کے ساتھ ہر جگہ ڈبل گیم کر رہی ہے۔ وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی کے اپنے ذرائع کہتے ہیں کہ ملک میں سائبر کرائم کا کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ پرویز مشرف نے پاکستان الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2007ء جاری کیا تھا جس کے بعد سائبر کرائم آرڈیننس ایکٹ کے تحت آئی ٹی کورٹس اور آئی ٹی ججز مقرر کئے جانے تھے۔ بل 31 دسمبر 2007ء کو اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر قانون کا حصہ نہ بن سکا۔ ایک طرف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا دائرہ کار محدود ہے تو دوسری جانب ٹیلی گراف ایکٹ میں سائبر کرائم کی سزائیں موجودہی نہیں۔ان حالات میں وزارت داخلہ کا حکم کیا معنی رکھتا ہے‘ اس کا فیصلہ خود کیجیے۔ حکومت پر سب کچھ چھوڑنے کی غلطی مت کریں‘ اسے اور بہت سے کام ہیں۔ سوشل میڈیا کے خلاف کارروائی کا حکم بذات خود ایک ’’کارروائی‘‘ ہے لہٰذا حکومت کو کارروائیاں ڈالنے دیں۔ آپ اتنا سمجھ لیں کہ اب آپ کو سوشل میڈیا کے ساتھ ہی جینا ہے‘ لہٰذا اولاد کی تربیت کے لیے وقت نکالیں اس سے قبل کہ دیر ہو جائے۔