اپنا قد دوسروں سے بلند کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ‘ یا تو آپ دوسروں کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں تاکہ وہ چھوٹے ہو جائیں اور آپ بڑے نظر آنے لگیں ۔دوسرا طریقہ یہ ہے آپ اپنا قد بڑھانے کی کوشش کریں یہاں تک کہ آپ دوسروں سے بلند ہو جائیں۔
یہ عام روایت ہے ہم کسی سے حسد کرتے ہیں اور عملی میدان میں اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی جائے تاکہ وہ کمزور پڑ کر پیچھے رہ جائے یا کم از کم آپ کے برابر رہے اور آگے نہ نکل پائے۔بہت سے لوگوں کو اس طرح تشفی اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ عمران خان ان میں سے ایک ہیں۔ انہیں دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو اپنا واحد ہدف ڈکلیئر کیا اور زرداری سمیت سب کو بھول گئے جو ان کی بنیادی غلطی تھی۔ انہیں واضح کرنا چاہیے تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف ہیں یا کسی مخصوص سیاستدان کے ۔ ہر دور میں ان کے ہدف بدلتے رہے۔ سابق دور میں صدر زرداری کے سوئس اکائونٹس کا معاملہ کم و بیش اسی زور و شور کے ساتھ ملکی سیاست اور میڈیا پر حاوی رہا جس طرح پاناما کیس۔ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش پر وزیراعظم گیلانی کو گھر بھی جانا پڑا۔ خان صاحب کو مگر سوئس اکائونٹس اور سرے محل اب یاد بھی نہیں۔پاناما کمپنیوں کے حوالے سے عمران خان پر بھی تقریباً وہی الزامات ہیں جو وہ نواز شریف پر لگا رہے ہیں۔ آف شور کمپنی کے شاید وہ پاکستان میں بانی ہیں لیکن 1992ء سے 2002ء تک انہوں نے بھی اسے کہیں ڈکلیئر نہ کیا۔ بنی گالہ
پراپرٹی پر ان کے سات آٹھ موقف سامنے آ چکے ہیں۔ اگر ان معاملات کو باریک بینی سے دیکھا گیا تو دونوں فریق نا اہل ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہو گیا تو اس میں خان صاحب کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس کی بجائے اگر کرپشن کیخلاف وہ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ‘اپنے صوبے میں کچھ کر کے دکھاتے اور اپنا قد بڑھانے کی کوشش کرتے تو انہیں شارٹ کٹ سے کامیابی حاصل کرنے کے جتن نہ کرنے پڑتے۔ ان کی خیبرپختونخوا میں کامیابیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پولیس کو آزاد کر دیا۔اب وہاں ایف آئی آر درج کرنے کے مراحل آسان ہو چکے ہیں۔ تھانوں میں عزت کے ساتھ درخواست لی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پچھلے دنوں لاہور میں ایک عزیز کی موٹر سائیکل چوری ہوئی۔ مجھے فون کیا کہ میں کوئی ریفرنس تلاش کروں۔ میں نے کہا آپ بسم اللہ پڑھ کر تھانے تشریف لے جائیں۔ درخواست دیں۔وہاں جو ہوتا ہے وہ بتائیں‘ پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ تھانے پہنچے۔ وہاں ایک کمرے میں کوٹ ٹائی میں ایک صاحب براجمان تھے۔ انہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ ان صاحب نے انہیں بیٹھنے کے لئے کہا‘ان سے شناختی کارڈ مانگا اور ایف آئی آر درج کرنے کے لئے سادہ کاغذ پر درخواست طلب کی۔ میرے عزیز نے وہیں درخواست لکھی اور ان صاحب کے حوالے کر دی۔ وہ صاحب درخواست لے کر کمپیوٹر پر جھک گئے۔ دس منٹ بعد بولے۔ آپ کی درخواست وصول کر لی گئی ہے۔ چند منٹ میں آپ کے موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہو جائے گا جس میں درخواست کا ٹریکنگ نمبر ‘ ویب سائٹ اور دیگر معلومات ہوں گی۔میرے عزیز نے اگلے روز اپنے موبائل پر موصول ہونے والے نمبر کو ویب سائٹ پر ڈالا تو ان کی درخواست کا تمام ریکارڈ آن لائن ہو چکا تھا۔ دو روز بعد انہیں موبائل پر پیغام آیا کہ ان کی ایف آئی آر رجسٹر ہو چکی ہے۔ انہوں نے پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر جا کر ایف آئی آر کی کاپی ڈائون لوڈ کی اور لے کر میرے پاس آ گئے۔ میں نے پوچھا کیا آپ نے انہیں ایف آئی آر کے اندراج کے لئے کوئی رشوت دی؟ان کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے پوچھا ‘ کوئی سفارش کرائی یا کسی کا ریفرنس دیا؟ بولے نہیں۔میں نے کہا آپ کو تھانے کے
کئی چکر لگانے پڑے؟ کہنے لگے: بالکل نہیں۔ میں نے سوچا اگر پنجاب میں بھی تھانوں کے حالات اسی طرح تبدیل ہو رہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آئندہ انتخابات میں مقابلہ الزامات نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہو گا۔آئی جی خیبرپختونخوا ناصر درانی نے اگر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر کیا ہے تو پنجاب میں سی سی پی او امین وینس‘ آئی پنجاب مشتاق سکھیرا اور ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف نے تھانہ کلچر کی تبدیلی کو عملی طور پر ممکن بنایا ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت جو مانیٹرنگ سسٹم بنایا گیا ہے اسے دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ یہ لاہور میں بنا ہے یا لندن یا نیویارک میں۔ ان دعوئوں میں اب وہ جان نہیں رہی کہ پولیس کلچر میں تبدیلی صرف پختونخوا میں ہی آئی ہے ۔ پنجاب میں اس کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک عام آدمی ان ثمرات سے مستفید ہو رہا ہے تو پھر وہ آئندہ ووٹ کس کو دے گا؟ اس جماعت کو جس کا سارا زور الزامات‘ کمزور مقدمہ بازی اور غیر منظم اقدامات پر ہے یا پھر اس کو جس نے اپنے آپ کو زمینی حقائق کے مطابق منظم بھی کیا ہے اور کارکردگی بھی بہتر کی ہے؟ اس میدان میں تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے اسے اپنا جائزہ خود لینا ہو گا۔ فی الوقت پاناما کیس سے پی ٹی آئی وکیل حامد خان کی علیحدگی عمران خان کے لئے دردِ سر بن چکی ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے کسی شہر میں پی ٹی آئی کی کسی تقریب سے خطاب کیا تو وہی دھکم پیل اور بدنظمی نظر آئی جس پر وہ بہت سٹپٹائے اور ساتھ ہی کہا کہ تحریک انصاف میں کبھی نہ کبھی تو نظم آ ہی جائے گا۔ ایسا وہ بیس برس سے کہتے آ رہے ہیں لیکن ہوتا اس کے اُلٹ ہے۔ اسلام آباد لاک ڈائون نے بھی ان کی جماعتی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ بنی گالا کے محل سے نیچے نہ اترنے پر ان پر بھی شدید تنقید ہوئی۔شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان سے فاصلہ رکھنے لگے ہیں۔ اب حامد خان کے جانے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ جس کیس کو وہ اپنے لئے اتنا مضبوط سمجھ رہے تھے‘ اس کے لئے ان کی تیاری صفر ہے۔ وہ الزامات لگاتے ہیں اور پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ پینتیس پنکچروں پر معافی‘ افتخار چودھری پر الزامات اور معافی‘ عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ کے مریم نواز کے پروٹوکول سکواڈ پر ہراساں کرنے کے الزامات اور پھر معافی۔ معافی کا یہ سلسلہ نہ جانے کہاں جا کر رکے گا۔ اسی بنا پر غالباً گزشتہ دنوں وزیرمملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب کو کہنا پڑا کہ عمران خان وکیل نہیں‘ اپنی نیت تبدیل کریں۔ مریم اورنگزیب نے بڑی سادگی سے خان صاحب کو انتہائی قیمتی مشور ہ دیا ہے۔ خان صاحب کی نیت واقعی اگر کیس لڑنے کی ہوتی تو پھر ان کی تیاری بھی مکمل ہوتی اور ان کی سپورٹ بھی حامد خان کے ساتھ ہوتی۔ حامد خان کے بارے میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا کہنا ہے کہ ان کے پائے کا وکیل اس وقت شاید ہی کوئی ہو۔ خان صاحب نے گزشتہ دنوں تیسری شادی کا عندیہ دیا ہے۔ وہ شادی ضرور کریں لیکن ساتھ ہی ساتھ سنجیدگی اختیار کرنے کی بھی کوشش کریں کیونکہ جس طرح وہ کتابوں کے الزامات بھرے تراشے عدالت میں جمع کرا رہے ہیں‘ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کی نیت ماضی کی طرح اب بھی قوم‘ میڈیا اور عدالت کا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں!