جان روبیلنگ12جون 1806ء کو جرمنی میں پیدا ہوا۔ 1831ء میں انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ آیا اور پھر یہیں کا ہو گیا۔ اس نے امریکہ کی بہت سی اہم عمارات کی تعمیر اور ڈیزائن میں مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر وہ کوئی ایسا کام ‘ کوئی ایسا شاہکار تخلیق کرنا چاہتا تھا جو معمول سے ہٹ کر ہو اور جو رہتی دنیا تک لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے۔ ہر شام وہ بروکلین کے ساحل پر بیٹھ جاتا اور دوسرے پار مین ہیٹن کی بلند عمارتوں کو دیکھنے لگتا۔ ایک دن انہی سوچوں میں گم تھا کہ اُسے ایک آئیڈیا آیا۔ اُس نے یہ آئیڈیا انجینئرز اور دوستوں کے ساتھ شیئر کیا۔ جب ساتھیوں نے اس کے خیالات سنے تو قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔ ان کے خیال میں روبیلنگ مکمل طور پر پاگل ہو چکا تھا۔ مگر روبیلنگ نہ تو پاگل ہوا تھا اور نہ ہی اس کا آئیڈیا ناممکن تھا۔ روبیلنگ ایسا برج یا پل تیار کرنا چاہتا تھا جو بروکلین کو مین ہیٹن سے ملائے اور جس کی بنیادیں پانی کے اندر نہ ہوں بلکہ لوہے کی لمبی لمبی تاریں اس برج اور اس پر موجود ٹریفک کا پورا وزن اٹھائے رکھیں۔ ڈیڑھ سو سال قبل یہ آئیڈیا یقینا عجیب و غریب تھا۔ اس کا بیٹا واشنگٹن روبیلنگ بھی انجینئر تھا‘ روبلینگ نے اسے ساتھ بٹھایا اور برِج کے ڈیزائن‘ مضبوطی اور دیگر نکات پر غور کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے انجینئرز اور سٹاف کی ایک ٹیم تیار کر لی اور کام شروع کر دیا۔ پراجیکٹ شروع ہوئے ابھی تین ماہ ہی گزرے تھے کہ تعمیر کے دوران ایک حادثہ پیش آیا جس میں جان روبیلنگ اور اس کا بیٹا واشنگٹن شدید زخمی ہو گئے۔ روبیلنگ ہسپتال لیجاتے ہوئے چل بسا جبکہ اس کا بیٹا واشنگٹن مکمل طور پر معذور ہو گیا۔اس کا پورا جسم
ساکت ہو گیا سوائے ایک انگلی کے‘ جس کے اشاروں سے اسے باقی زندگی بسر کرنا تھی۔ واشنگٹن ایک بہادر انسان تھا۔ وہ واحد شخص تھا جو اس تعمیراتی فارمولے کو جانتا تھا جو اس کا باپ اسے سمجھاگیا تھا۔ وہ اپنے باپ کا خواب بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور امریکہ کی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتا تھا۔ واشنگٹن نے اپنی بیوی ایملی وارن کو بلایا اور اپنی انگلی اس کے بازو پر گھماکر اسے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ اس برج پر کام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ایملی سمجھ گئی۔ اس نے انجینئر کو بلالیا۔ انجینئرز واشنگٹن کی بہت قدر کرتے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن کی انگلی کے اشاروں کو سمجھ کر کام شروع کر دیا۔ واشنگٹن انجینئرز کو کاغذ پر انگلی کے ذریعے آڑھی ترچھی لکیروں کے ذریعے سمجھاتا اور یوں تاریخی برج کی تعمیر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ تیرہ سال بعد 24مئی 1883کا دن بھی آ گیا جب اس ڈریم برج کا افتتاح ہونا تھا۔ سارا نیویارک اس شاہکار کو دیکھنے کیلئے بروکلین کے ساحل پر اُمڈ آیا تھا۔ ایک ویل چیئر پر واشنگٹن کو بھی وہاں لایا گیا اور امریکہ کی اہم ترین شخصیات کی موجودگی میں اس برج کا افتتاح ہوا اور اسے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ 85فٹ چوڑا اور چھ ہزار فٹ لمبا یہ دنیا کا سب سے پرانا‘ طویل اور اپنی نوعیت کے انوکھا ترین پل تھا۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ یہ پیرس کے ایفل ٹاور سے پانچ سال‘ امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ سے 50سال‘ گولڈن گیٹ برج سے 60سال اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے 90سال قبل تعمیر ہوا تھا۔ لیکن اگر آپ اس برج پر سفر کریں گے تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے اسے بنے ہوئے دو تین سال ہی ہوئے ہوں گے۔ اس پل کے بننے کے بعد بروکلین کے تیس لاکھ باشندوں کو سینکڑوں میل کی اضافی مسافت سے نجات مل گئی تھی اور یہ پل ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی قائم و دائم ہے۔
ہم جب بھی جدید ممالک میں اس طرح کے کامیاب پراجیکٹس دیکھتے ہیں تو لامحالہ ہمارے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں ایسے پراجیکٹس کیوں نہیں شروع ہوتے جو تاریخی طور پر یاد رکھے جائیںا ور جن کی اہمیت کو دنیا تسلیم کرے۔ امریکہ میں اگر ایک معذور شخص اتنا مضبوط اور دیر پا پل تعمیر کر سکتا ہے تو ہماری ہٹی کٹی سیاسی جماعتیں اور عوام یہ سب کیوں نہیں کر سکتے۔ شاید اس کی وجہ ہمارے اندر کی منافقت اور مفادات کی سیاست ہے۔ آپ سی پیک کو ہی لے لیں۔ہر طرح سے اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی گئیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی تاریخ بدل کر رکھ دے گا۔ گزشتہ روز بیجنگ میں سی پیک کے حوالے سے چھٹا مشترکہ اجلاس ہوا‘ جس میں تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا نے شرکت کی۔اس اجلاس کی اہم بات پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر واٹر سکیورٹی کو سی پیک کے فریم ورک میں شامل کرنا تھا۔اس فیصلے کے بعد سی پیک منصوبے کا حجم چھیالیس ارب ڈالر سے بڑھ کر ستاون ارب ڈالر ہو گیا۔ یہ بلا شبہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا۔ یہ درست ہے کہ سی پیک کا زیادہ فائدہ چین کو ہو گا لیکن اگر ہم اس منصوبے کو پاکستان کے مفاد ات سے مشروط کر دیں تو یہ پاکستان کے لئے بھی اتنا ہی سود مند ہو گا جتنا کہ چین کے لئے۔ سی پیک کے نئے روٹ بننے سے پاکستان کو بھی چین اور دیگر ایشیائی اور یورپی ممالک تک بآسانی رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ہم جتنی زیادہ صنعتیں لگائیں گے‘ جتنی زیادہ برآمدات بڑھائیں گے‘ اتنا ہی زرمبادلہ بڑھے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جوچند روز قبل تک اس منصوبے پر تنقید کرتے نہیں تھکتے تھے‘ وہ بھی اب اس کے گن گانے لگے ہیں۔اتوا ر کو صوابی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '' سی پیک پرتمام پاکستانیوں کو مبارک باد دیتا ہوںکیونکہ یہ ایسا منصوبہ ہے جو ملک کا مستقبل روشن کر دے گا‘‘۔ میں اسے عمران خان کا یوٹرن نہیں کہتا کیونکہ ممکن ہے ماضی میں سی پیک کے خلاف انہوں نے جو بیانات دئیے ‘ اس وقت وہ حقائق سے لا علم ہوں۔ا س کی ایک وجہ ان کا احتجاج اور جلسے جلوسوں پر فوکس تھا جس سے ہٹ کر وہ کچھ بھی دیکھنے ‘ کرنے اور سننے کو تیار نہ تھے۔ مغربی روٹ کے حوالے سے بھی انہوں نے کئی مرتبہ احتجاج کیا لیکن غالباً احسن اقبال نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو جب ان کے پاس جا کر تفصیلی بریفنگ دی تو انہوں نے خود عمران خان کو سمجھایا ہو گا کہ ہم خوامخواہ اتنے اہم منصوبے کی مخالف کئے جا رہے ہیں اور اس میں سے بلاوجہ کیڑے نکال رہے ہیں جس کے بعد خان صاحب کو بھی یقین آ گیا ہو گا کہ سی پیک حکمران جماعت نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے فائدہ مند ہو گا چنانچہ انہوں نے دیرآید درست آید کے تحت اس کا اعتراف بھی کر لیا ہے جو نہ صرف ملکی سیاست پر خوش کن اثرات مرتب کرے گا بلکہ ملکی معیشت کے لئے بھی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔پیپلزپارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ بھی سیاست کرے لیکن قومی مفاد کے منصوبوں کو بلا وجہ رگیدنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ اس سے نقصان حکمرانوں کا نہیں بلکہ ملک اور قوم کا ہوتا ہے۔
اس ضمن میں ایک معروف برطانوی جریدے کی رپورٹ نظر انداز نہیں کی جاسکتی جس میں کہا گیا ہے کہ'' پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے‘ کراچی چھٹے خطرناک ترین شہر سے اکتیس ویں نمبر پر آ گیا ہے اور آج کا پاکستان گزشتہ پندرہ برس کے مقابلے میں محفوظ تر ہے‘‘۔ سی پیک فریم ورک میں واٹر سکیورٹی کی شمولیت اس سال کی بڑی خوش خبری تھی جو پاکستانی معیشت اور ملکی سالمیت کے لئے بریک تھرو ثابت ہو گی۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں قومی مفادات اور منصوبوں پر اکٹھی ہو گئیں تو آئندہ سال اس سے بھی بڑی خوش خبریاں لائے گا۔