"ACH" (space) message & send to 7575

ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا

ذہنی‘ جسمانی اور پیدائشی نقص کے حامل یہ چند افراد شہرت کی بلندیوں تک کیسے پہنچے‘ یہ انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔
مزاحیہ اداکار مسٹر بین کا اصل نام روون اکنسن تھا‘ یہ بچپن سے ہی انگریزی کا حرف ''B‘‘نہیں بول سکتا تھا جس کی وجہ سے اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا‘ وہ خصوصی تعلیم کے سکول میں داخل ہوا‘ وہاںاس کی نفسیاتی تربیت کے دوران اسے ایک خیال سوجھا‘ اس نے ایک تھیڑ میں ایک مزاحیہ کردار ادا کیا اور کچھ بولنے کی بجائے صرف چہرے کی حرکات و سکنات سے اداکاری کی‘ یہ ڈرامہ ہٹ ہوا اور یوں وہ راون اکنسن سے مسٹر بین بن گیا‘1990ء میں اس کا پہلا مزاحیہ شو مسٹر بین برطانوی چینل سے نشر ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں پار کر ڈالیں‘ وہ جیمز بانڈ کی فلم میں بھی آیا اور پچاس برٹش ایوارڈز حاصل کئے۔ آپ تھیڈور روزویلٹ کو دیکھ لیں‘ روزویلٹ پیدائشی طور پر مرگی کا مریض تھا‘ اس کی بصارت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی اور اسے دمے کی بھی شکایت تھی‘ اس شخص کو خصوصی امریکی اداروں کا تعاون اور تربیت ملی تو یہ شخص امریکہ کی فوج میں سپاہی بھرتی ہوا‘ یہ تاریخ دان بنا‘اس نے دنیا کی کئی دریافتوں پر کتب لکھیں‘ طبیعات میں اپنا لوہا منوایا‘یہ ادیب بنا‘نیویارک کا گورنر منتخب ہوا اور یہی شخص‘ جی ہاں تھیڈور روزویلٹ بیالیس سال کی عمر میں امریکہ کا صدر بن گیا۔ آپ سر آئزک نیوٹن کو دیکھ لیں‘ یہ شخص شروع سے مرگی کا مریض تھا‘ اسے مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے اور یہ عام لوگوں سے میل جول بھی نہیں رکھ سکتا تھا لیکن اسی شخص کو جب خصوصی تربیت ملی تو اس کے مسائل ایک ایک کر کے حل ہوتے چلے گئے‘ اسی نیوٹن نے ایک دن کشش ثقل اور حرکت کے تین اہم قوانین دریافت کئے اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گیا۔ آپ جولیا رابرٹس کو دیکھ لیجئے‘ جولیا کو بچپن سے ہی بولنے میں مشکل پیش آتی تھی‘ وہ ہکلاتی بھی تھی اور روانی سے بول بھی نہیں سکتی تھی‘ اسے خصوصی تربیت ملی تو اس کی ہکلاہٹ بھی دور ہو گئی اور وہ روانی سے بولنے اور گانا گانے کے قابل ہو گئی اور پھر وہ دن بھی آیا جب یہی جولیا رابرٹس ہالی ووڈ اور دنیا کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنی اور یہ اعزاز اس نے مسلسل چار سال اپنے پاس رکھا۔ آپ فرینکلین روزویلٹ کو دیکھ لیجئے‘ فرینکلین 1882ء میں پیدا ہوا‘ 1921ء میں پولیو کی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ہو گیا‘ وہ خصوصی اداروں میں داخل رہا جہاں اس کی فزیو تھراپی ہوئی‘اس دوران وہ تعلیم بھی حاصل کرتا رہا اور ہمت اور امید کا دامن بھی نہ چھوڑا اور یہی شخص ‘ جی ہاں فرینکلین ڈی روزویلٹ اس بیماری کے باوجود بارہ سال بعد1933ء میں امریکہ کا صدر بن گیا اور اس تقریباً نابینا صدر کے دور میں امریکی معیشت نے بے پناہ ترقی کی۔آپ کرسٹی یاما گوچی کو دیکھ لیں‘ کرسٹی پیدا ہوئی تو اس کے دونوں پائوں ٹیڑھے اور مڑے ہوئے تھے‘ وہ بیساکھی کے ساتھ بھی نہیں چل سکتی تھی‘ کرسٹی چونکہ امریکہ میں رہتی تھی چنانچہ اسے ہر طرح کی مدد ملی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے حوصلہ نہیں ہارا‘ کرسٹی آئس سکیٹنگ کے کھیل میں کود پڑی اور 1992ء کی اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت لیا۔ آپ جیکوب بولٹن کو بھی دیکھ لیجئے‘ بصارت سے محروم یہ شخص شکاگو میں پیدا ہو ا‘ اسے نابینائوں کے سکول میں داخل کیا گیا جہاں اس نے جدید خصوصی آلات کی مدد سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور ایک روز جیکوب سے ڈاکٹر جیکوب بولٹن بن گیا‘ یہ دنیا کی تاریخ کا پہلا نابینا ڈاکٹر کہلایا‘ یہ دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا ماہر تھا‘اسے امریکن نیشنل فیڈریشن آف بلائنڈز کی طرف سے متعدد ایوارڈز ملے اور اس نے بصارت سے محروم افراد کی تعلیم و تربیت‘ رہائش اور انہیں معاشرے کیلئے مفید اور کارآمد بنانے کیلئے بہت کام کیا اور آپ ایرک وینمر کو بھی دیکھ لیجئے‘ ایرک ایک عجیب و غریب بیماری کے ساتھ پیدا ہوا اور تیرہ سال کی عمر میں مکمل طور پر بصارت سے محروم ہو گیا‘ لیکن یہی شخص خصوصی اداروں میں داخل رہنے کے باعث اس قابل ہو گیا کہ سکائی ڈائیور تک بن گیا‘ اس نے موٹرسائیکل پر طویل ترین سفر کیا‘یہ کئی میراتھن ریس جیتا‘کوہ پیما بنا اور اسی شخص جی ہاں اسی شخص نے 25مئی 2001ء کو دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ سر کر لی‘ یہ دنیا کے بلند ترین مقام پر پہنچنے والا پہلا نابینا شخص بن گیا اور آپ برٹنی سپیرز کو دیکھ لیں‘ برٹنی ایک عجیب بیماری موڈ ڈس آرڈر کے ساتھ پیدا ہوئی‘ اس بیماری میں انسان کا موڈ یکدم بدل جاتا ہے‘ وہ ہنستے ہنستے یکدم رونے اور چیخنے چلانے لگتا ہے اور روتے روتے قہقہے لگانے لگتا ہے‘ برٹنی سپیشل سکولز اور ہسپتالوں میں کئی ماہ داخل رہی اور بالآخر ایک نارمل انسان بنی اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے شہرت کی بلندیوں تک پہنچ گئی‘ اس کے گانے '' بے بی ون مور ‘‘ نے اس کیلئے شہرت کے دروازے کھول دئیے اور اس نے ہالی وڈ میں گلوکاری کے میدان میں اپنا لوہا منوالیا اور آپ تھامس ایڈیسن کو دیکھ لیجئے‘ ایڈیسن کو بچپن میں بخار ہوا‘ اس نے ایڈیسن کی سماعت زائل کر دی‘ یہ چاہتا تو اسی طرح ساری زندگی گزار دیتا لیکن اسے بھی خصوصی اداروں کی معاونت حاصل ہوئی‘ اس نے عام انسانوں سے زیادہ آگے نکلنے کا فیصلہ کیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب یہ شخص امریکہ کی تاریخ کا روشن ستارہ بنا‘ یہ صحتمند لوگوں سے آگے نکل گیا‘ اس نے بلب ایجاد کیا اور اس بلب نے ساری کی ساری دنیا روشن کر دی اور آج جب ہم کسی تاریک کمرے کو بٹن دباکر روشن کرتے ہیں تو ایڈیسن تاریخ کے آسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔
تاریخ ایسی سینکڑوں ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے‘ جو نابینا تھے‘ جو سماعت سے محروم تھے‘ جو بول اور چل نہیں سکتے تھے اور جو معاشرے پر بوجھ بن سکتے تھے‘ وہ رہتی دنیا تک کیلئے ایک زندہ مثال بن گئے۔ خصوصی بچوں میں بظاہر کوئی چیز کم دکھائی دیتی ہے‘ وہ بصارت‘ قوت گویائی‘ بھرپور دماغی صلاحیت اور اہم ترین جسمانی اعضا سے محروم نظر آتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں ایسی صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں‘ جن پر محنت کی جائے تو وہ ضرورسامنے آتی ہیں۔ میں نے بل گیٹس سے لے کر مارزکربرگ اور وارن بفٹ سے ملک ریاض تک دنیا کے بڑے بڑے کھرب پتیوں کی زندگی کا مشاہدہ کیا ہے‘ یہ لوگ دولت اور شہرت کی بلند ترین سطح تک پہنچے لیکن پھر ایسا وقت آیا کہ انہیں معلوم ہوا اب ان کی یہ دولت‘ یہ شہرت اور یہ اثاثے ان کی خوشیوں میں مزید اضافہ نہیں کر سکتے‘ اگر انہیں خوش رہنا ہے تو اپنے مال کا معقول حصہ ان لوگوں پر خرچ کرنا ہو گا جو بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں کر پاتے‘ جو دو وقت کی روٹی اور سر درد کی گولی تک افورڈ نہیں کر سکتے اور جو کسی پیدائشی بیماری یاجسمانی نقص کی وجہ سے معاشرے کی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتے۔ یہ نقطہ سمجھ آنے کے بعد ان ٹائیکونز نے معاشرے کی فلاح کو اپنی زندگی کا باقاعدہ حصہ بنا لیا
اور انسانیت کی خدمت پر مامور ہو گئے ۔
ڈاکٹر عبدالتواب ان لوگوں میں سے ایک تھے‘ جن سے مل کر لگا کہ برسوں کا یارانہ ہے۔ سات برس قبل ان کی دعوت پر ڈی ایچ اے میں خصوصی بچوں کے سکول رائزنگ سن کا دورہ کیا تو سینکڑوں ذہنی و جسمانی معذور بچوں کے لئے اس قدر جدید کیمپس دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ پاکستان میں بھی ایسے ادارے بن رہے جہاں ڈس ایبل بچے باعزت انداز میں جینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔خصوصی بچوں کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کیلئے یہ ادارہ شاندار خدمات انجام دے رہا ہے۔ڈاکٹر عبدالتواب نے بتایا‘ دو لوگوں نے اس ادارے کی تعمیر و ترقی میں جنون کی حد تک حصہ لیا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان۔گزشتہ روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغل پورہ میں اس ادارے کی دوسری برانچ کا افتتاح کیاتو خوشی دوبالاہو گئی۔ چار کنال پر مشتمل اس عمارت کے تمام اخراجات علیم خان نے اٹھائے ہیں اور اس عمارت کو اپنے والد عبدالرحیم خان کے صدقہ جاریہ کے طور پر وقف کر دیا ہے۔ اس میں سوئمنگ پول سے لے کر فزیو تھراپی اور نصابی تعلیم سے ہنر سکھانے تک تمام سہولیات عالمی معیار کے مطابق ڈیزائن کی گئی ہیں۔ ہارٹ سرجن ڈاکٹر شہزاداور ان کی والدہ مسز عبدالتواب نے اسے ایک یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ اگر اس کار خیر میں اور لوگ بھی شامل ہوتے گئے تو یہ اتنا بڑا ادارہ بن جائے گا کہ ایک روز یہاں کے بچے بھی مسٹر بینـ ‘تھامس ایڈیسن اور آئزک نیوٹن کی طرح تاریخ کے آسمان پر جگمگا رہے ہوںگے اور مرحوم ڈاکٹر عبدالتواب کے اس پسندیدہ شعر کی تعبیر بن کر ابھریں گے: ؎
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں