یہ تین سال قبل کی بات ہے۔ میری والدہ بائی پاس آپریشن کے بعد ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ ایک رات وہ شدید درد محسوس کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر نے درد کی دوا دی؛ تاہم آرام نہ آیا۔ دوبارہ دوا دی۔ اس کا بھی اثر نہ ہوا۔ ایک خیال سوجھا۔میں نے اُن کے سرہانے موبائل فون پر شیخ عبدالباسط عبدالصمد کی آواز میں سورہ الرحمن کی تلاوت لگا دی۔ میرا خیال تھا یہ نسخہ کام کرے گا اور کافی حد تک کیا بھی ۔ درد میں کمی واقع ہو گئی لیکن وہ اب بھی بے چین دکھائی دے رہی تھیں۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے قریب بلایا اور کہنے لگیں:میرے بچوں کی آواز میں کوئی تلاوت لگائو۔ میںسمجھ گیا ۔ میں نے ایکسپو سنٹر لاہور میں ہونے والے تلاوت قرآن کے پروگرام کی ایک آڈیو لگا دی جس میں ملک کے نامور قراء حضرات کے ساتھ ساتھ میرے آٹھ سالہ بیٹے نے بھی شرکت کی تھی۔ پھر میں نے ایک معجزہ ہوتے دیکھا۔ میں نے دیکھا میری والدہ کے چہرے پر چند منٹ قبل درد‘ تکلیف اور بے چینی کے جو اثرات تھے وہ یکایک دور ہونا شروع ہو گئے۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ وہ ابھی تک سو نہیں سکی تھیں۔ لیکن اپنے خون‘ اپنی اولاد کے لبوں سے اس عظیم کتاب کی تلاوت سنتے ہی ان کا وہ چہرہ جو پریشانی اور کرب میں مبتلا تھا‘ اس پر سکون اور اطمینان کی لہریں نمودار ہونا شروع ہوگئیں اور سکون سے سو گئیں۔
میں نے اس واقعے کا ذکر گزشتہ دنوں اپنے اپنے بیٹے کی تکمیل حفظ قرآن کی ایک تقریب میں کیا جس کے مہمان خصوصی جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور جمعیت اہلحدیث کے امیر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر تھے۔ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح والدین کے دل سے نکلی ہوئی خواہش پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہتے ہیں لیکن خاطرخواہ معلومات کی کمی کی وجہ سے دل چھوڑ دیتے ہیں۔میں نے جب اپنے بیٹے کو حفظ کرانے کا فیصلہ کیا تو شہر کے تقریباً تمام نامور قراء اور حفاظ کرام سے فرداً فرداً ملاقاتیں کیں۔ بیٹے کو ساتھ لے کر ان کے انٹرویوز کئے۔شہر کے تمام حفظ سکول اور مدارس چھان مارے اور تقریباً ڈیڑھ برس کے بعد جا کر اللہ کے فضل سے درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوا ۔ میں اس تقریب میں حفظ قرآن کی اہمیت‘ اس کے تقاضوں اوراس کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالنا چاہتا تھا لیکن وقت کی قلت آڑے آ گئی۔ یہ موضوع ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے اس لئے ایک سلسلے کی ابتدا کر رہا ہوں ‘اس امید پر کہ اگر کسی کو میری وجہ سے کچھ رہنمائی مل سکتی ہے تو میرے لئے بڑی سعادت کی بات ہو گی۔
میں نے گھر میں والدہ کی اس خواہش کا ذکر ان کی وفات کے چند روز بعد کیا۔ بچے کی اپنی بھی خواہش اور شوق تھا ‘وہ گھر میں دو سیپارے حفظ کر چکا تھا اور سکول کی اسمبلی میں اکثر اسے ہی تلاوت کے لئے بلایا جاتا تھا‘ اس لئے فیصلہ ہوا کہ باقاعدہ طور پر حفظ میں داخلہ لیا جائے۔ اگلا مرحلہ سکول کے انتخاب کا تھا جو انتہائی مشکل امر تھا۔ روایتی سکول سے نکل کر مدرسے میں جانے کو وہ تیار نہ تھا۔ کئی سکول دیکھے جن میں حفظ کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ان میں ایک دو کافی اچھے تھے لیکن کسی نے مشورہ دیا کہ حفظ قرآن کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لئے پورا وقت نکالا جائے۔ اگر منزل پکی کرنی ہے اور ٹھیک طریقے سے یاد رکھنا ہے تو صرف اور صرف حفظ پر توجہ دیں۔ اس سلسلے میں مسلم ٹائون میں ایک سکول قدرے بہتر لگا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی سکول کی اس برانچ کی تعریف کی۔ ان کے دو بچے بھی یہیں سے فارغ التحصیل تھے۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر بیٹے کو داخل کرا دیا جہاں سے اس نے قلیل عرصے میں حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ حفظ قرآن کی مدت کے حوالے سے یہ عرض کرتا چلوں کہ مجھے اس حوالے سے کوئی جلدی نہ تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دو سے تین سال میں بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ قرآن حفظ میں تین فیکٹر بہت کائونٹ کرتے ہیں:بچے کا شوق ‘ والدین کی معاونت اور یادداشت۔ میں نے کئی بچے ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے چھ ماہ میں حفظ مکمل کیا
جبکہ کئی بچے تین سال سے کچھ زیادہ عرصہ بھی لگا لیتے ہیں۔ اصل بات دہرائی اور یاد رکھنے کی ہے۔ بعض لوگ بچوں کو حفظ تو کروا لیتے ہیں اور نام کے ساتھ حافظ بھی لگا لیتے ہیں لیکن پھر زندگی کی مصروفیات میں یوں گم ہوتے ہیں کہ قرآن سے تعلق کمزور پڑتا جاتا ہے۔ اس بارے میں دین کیا کہتا ہے یہ تو علما ہی بتا سکتے ہیں لیکن قرآن کو یاد کر کے بھلا دینا اچھا شگون نہیں۔ قرآن کو دل میں بسانا اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ یاد رہے کہ قرآن حفظ کرنا فرض نہیں لیکن یاد کر کے اسے سنبھالنا فرض ہو جاتا ہے اور اسی لئے دنیا اور آخرت میں باعمل حافظ قرآن کا رتبہ اور تکریم عام انسانوں سے کہیں زیادہ بیان کی گئی ہے۔ دوسرا فیکٹر والدین ہیں۔ بچے والدین کی پرچھائی ہوتے ہیں‘ وہ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ اس کا امکان بہت کم ہے کہ ماں باپ دن رات لغو و لہب میں مبتلا رہیں اور بچے کو تلاوت قرآن کا شوق پیدا ہو جائے۔ بچہ وہی کرے گا جو والدین کو کرتا دیکھے گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج کل حفظ قرآن کے بیس نمبر ملتے ہیں یا نہیں لیکن ماضی میں بہت سے لوگ اس وجہ سے بھی قرآن یاد کرتے تھے‘ ایسے بچوں کو حفظ کی سند تو مل جاتی تھی لیکن میٹرک میں داخلے سے قبل جب ان کا ٹیسٹ لیا جاتا تو کم ہی قرآن سنا پاتے تھے۔ چنانچہ پہلے اپنا مقصد واضح کریں۔ عموماً قرآن پاک کے حفاظ کا تعلق غریب اور دیہاتی طبقے سے ہوتا ہے۔ ہم بڑے ظالم لوگ ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں قرآن پاک یاد کرنا غریب اور نادار طالب علموں کا کام ہے اور اشرافیہ کے بچوں کیلئے بے ڈھنگے بڑی فیسوں والے اور ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی سکھانے والے سکول اور ہارورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی تعلیم سے زیادہ اہم اور کوئی بات نہیں۔ روایتی تعلیم بھی اہم ہے لیکن قرآن کے ساتھ اس کا مقابلہ یا موازنہ ممکن نہیں۔ اصولاً ہر گھر سے ایک بچے کو
قرآن یاد کرنا چاہیے‘ چاہے اس کا تعلق غریب گھرانے سے ہو یا امیر سے۔اس کے کئی فائدے ہوتے ہیں‘ رمضان المبارک کا پورا مہینہ گھر میں عید کا سماں رہتا ہے‘ بچے ذوق و شوق سے تراویح کیلئے جاتے ہیں‘گھر میں برکتوں اور رحمتوں کا نزول رہتا ہے اور اولاد لغویات اور بے راہ روی سے محفوظ ہو جاتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ جس طرح والدین کی دعا سب سے زیادہ اپنی اولاد پر اثر کرتی ہے اسی طرح اولاد کا قرآن پڑھنا اور سیکھنا والدین کے لئے باعث رحمت اور باعث شفا ثابت ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال میں اپنی والدہ کی شکل میں دے چکا ہوں۔ تیسرے نمبر پر یادداشت ہے۔ کچھ لوگ فوٹوگرافک میموری کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ کوئی چیز دیکھ لیں‘ کسی کا نام سن لیں‘ یا کوئی شعر یا واقعہ ان کی نظر سے گزر جائے وہ انہیں آسانی سے نہیں بھولتا۔ ایسے لوگوں کو لازمی طور پر قرآن حفظ کرنا چاہیے۔ اچھی یادداشت اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔بادام وغیرہ کھانے سے انیس بیس کا فرق تو شاید پڑ جائے لیکن زمین آسمان کا فرق دور نہیں ہو سکتا۔ اس کام کیلئے صرف اسی بچے کو منتخب کریں جو یہ کام بآسانی کر سکتا ہے۔ میں نے دیگر بچوں کو بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔ اللہ نے ہر بچے کو مختلف خصوصیات کا مالک بنایا ہوتا ہے۔ کسی کا مشاہدہ مضبوط ہوتا ہے‘ کوئی حساب کتاب میں تیز ہوتا ہے‘ کوئی فیصلہ سازی میں مہارت رکھتا ہے اور کسی کی یادداشت اچھی ہوتی ہے۔ چنانچہ فیصلہ کرنے سے قبل بچے کے مزاج اور خصوصیات کو مدنظر رکھیں اور بچوں کو صاف صاف بتلائیں کہ اگر قرآن کریم یاد کر لو گے تو اس سے بڑی سعادت اور کوئی نہیں ‘ لیکن کوتاہی برتی تو اس کا بھی حساب ہو گا اور جو بچے حفظ نہ کر سکیں ان کی حوصلہ شکنی نہ کریں بلکہ انہیں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائیں اوران کی دیگر خصوصیات کو اجاگر کریں ‘ ان کو پالش کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔
جو والدین بچوں کو حفظ کرانا چاہتے ہیں انہیں ایسا کیا کرنا چاہیے کہ جس سے ان کے بچے اس طرف مائل ہوں‘ حفظ قرآن کے دوران والدین اور بچے کے معمولات کیسے ہونے چاہئیں‘ سکول منتخب کرتے ہوئے کیا دیکھنا چاہیے‘حفظ قرآن کے بچوں کی زندگی پر کون سے کرشماتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کاتفصیلی ذکر ان شاء اللہ آئندہ کالم میں...