وہ دوسرے ڈاکٹر جن کا اہل پنجاب اور 23لاکھ غریب گھرانے شاید کبھی احسان نہ چکا سکیں‘ وہ ''اخوت‘‘ کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔ان کے بارے میں مزید جاننے سے قبل ایک واقعہ سن لیجئے۔
12 اپریل 2008ء کا دن چند ہی لوگوں کو یاد ہو گا۔ اس روز لاہور کی تیس سالہ بشریٰ بی بی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں پانچ سالہ زبیر اور تین سالہ صائمہ سمیت لاہور سیون اپ پھاٹک پر ٹرین کے سامنے کود گئی تھی۔ اس واقعے میں معصوم صائمہ کا دھڑ جسم سے الگ اور سکول بیگ کی کتابیں پٹری پر بکھر گئی تھیں جبکہ بشریٰ اور زبیر کے ٹکڑے دور جا گرے تھے۔ یہ اتنا دلدوز واقعہ تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بشریٰ کے گھر جانا پڑا۔ اس موقع پر بشریٰ کے شوہر اور والدین نے وزیراعظم سے کہا کہ اس خودکشی کی وجہ غربت کی انتہا تھی۔ خدا کے لئے آپ ایسے پروگرام شروع کریں کہ ہم جیسے غریب خود کما کر کھا سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا وہ قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے منصوبے بنائیں گے کہ لوگ غربت کی وجہ سے خودکشیاں نہ کریں۔ اس واقعے کو پانچ سال گزر گئے‘ 2013ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہو گئی لیکن پیپلزپارٹی نے بشریٰ کے والدین سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کیا۔
میں نے اس واقعے کے بعد ایک کالم میں ڈاکٹر امجد ثاقب سے درخواست کی۔ میں نے عرض کی‘ یہ درست ہے کہ آپ کی تنظیم بہت حوصلہ افزا نتائج دے رہی ہے‘ ہزاروں غریب خاندانوں کا بھلا ہو رہا ہے اور لوگ بھیک مانگنے اور خودکشیاں کرنے کی بجائے اخوت سے بلا سود قرض لے کر چھوٹا موٹا کام کر
کے عزت کی روٹی کما رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی بھی لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں اخوت کا علم نہیں اور وہ بے بسی کے عالم میں ادھر اُدھر ہاتھ پائوں مارنے کے بعد خودکشی کا جام پینے پر مجبور ہیں۔ میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے سامنے یہ تجویز رکھی‘ میں نے کہا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں‘ وزیراعلیٰ نے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ چلانے کی ذمہ داری بھی آپ کی ''اخوت‘‘ کیلئے بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے دی تھی اور اخوت کی ہر بڑی تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب ضرور شرکت کرتے ہیں چنانچہ اگر مائیکرو فنانس کا ایسا ہی پروگرام حکومت پنجاب کی سطح پر شروع کیا جائے‘ اگر پنجاب کے سالانہ بجٹ میں سے چند ارب اخوت جیسے کسی پراجیکٹ کے لئے رکھ دئیے جائیں اور سرکاری سطح پر بھی صوبے کے تمام اضلاع میں وسیع پیمانے پر بلاسود قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو یہ جو آئے روز غربت کے باعث خودکشیاں ہو رہی ہیں‘ بیروزگار نوجوان انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر یونان کے راستے مچھلیوں کی خوراک بن رہے ہیں اور لوگ اپنے ہی بچوں کا گلا دبانے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ یہ سلسلہ ختم نہیں تو کم از کم محدود ضرور ہو جائے گا۔ کوئی بھی این جی او کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو جائے‘ وہ بہرحال حکومتی انفراسٹرکچر اور وسائل کا مقابلہ نہیں کر سکتی چنانچہ میں نے یہ تجویز دی کہ اگر وفاقی یا صوبائی حکومت ایسا پروگرام شروع نہیں کر سکتی تو پھر یہ اخوت کے ساتھ اشتراک بھی کر سکتی ہے‘ یہ آسان بھی ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ وقت اور وسائل بھی درکار نہیں۔اخوت کا نیٹ ورک پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں پہلے سے موجود ہے‘ اگر اس کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیا جائے تو اس کے شاندار اور حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔ اس کالم کے چند ماہ بعد ڈاکٹر صاحب نے خوش خبری سنائی کہ بہت غور و خوض کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے بالآخر فیصلہ کیا ہے کہ وہ مائیکرو فنانسنگ کے اس کامیاب منصوبے کا ہاتھ تھامیں گے اور آپ یقین کریں جب پنجاب حکومت اس عظیم مشن کا حصہ بنی تو 10 سال میں ایک ارب کے ہدف تک پہنچنے والی تنظیم صرف ایک ہی سال میں 2 ارب کے بلا سود قرضے دینے لگی اور ترقی کا یہ سفر تیزی سے چل نکلا۔ یہ کیوں کامیاب ہوا اس کی کئی وجوہات ہیں‘مثلاً اخوت صرف ایک ادارہ یا پروگرام
نہیں بلکہ غریب خاندانوں کی زندگی بدلنے والا ایک ایسا سلسلہ ہے جس سے ہر ماہ لاکھوں خاندانوں کا بھلا ہو رہا ہے‘یہ ادارہ مواخات، بھائی چارے، ایثار اور قربانی جیسے نظریات پر قائم ہے ‘ یہ بلا سود قرضے دے رہا ہے‘ اس میں اتنی برکت موجود ہے کہ ہر قرض دار کا کاروبار چل نکلتا ہے‘ اس سے عوام کام چوری سے ہنرمندی کی طرف آ رہے ہیں‘ اس سے غربت اور بیروزگاری کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی کمی آ رہی ہے اور یہ ماڈل گزشتہ پندرہ برس سے مسلسل کامیابیوں کے زینے بھی طے کر رہا ہے ۔ آج اخوت بلا سود چھوٹے قرضے فراہم کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے‘ پندرہ سال قبل اس کا آغاز صرف دس ہزار روپے قرض سے ہوا تھا‘ اب تک وزیراعلیٰ خودروزگار سکیم کے اشتراک سے یہ 53 ارب روپے غریب لوگوں میں بطور قرض تقسیم کر چکا ہے‘ یہی نہیں بلکہ اخوت کا یہ سفر اس دوران میں ایک گھرانے سے تئیس لاکھ سے گھرانوں تک‘ ایک دفتر سے 709سے زائد برانچز تک اور ایک رضاکار سے شروع ہو کرایک ہزار سے زائد ملازمین تک پہنچ چکا ہے اور آپ حیران ہوں گے یہ دنیا کی واحد فنانس سکیم ہے جس کی ریکوری ننانوے اعشاریہ نوآٹھ فیصد ہے۔ اخوت کے تحت ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بھی قائم ہو چکی ہے جہاں ابتدائی طورپر 350کے قریب طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹی کا مقصد محض صرف دنیاوی تعلیم دینا نہیں بلکہ طالب علموں کی مثبت سوچ اور صلاحیتوں کو نکھارنا اور ان میں احساس پیدا کرنا ہے کہ زندگی اپنے لیے جینے کا نام نہیں بلکہ دوسروں کی خدمت کر نے کا نام ہے۔اس یونیورسٹی کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے لیے فی اینٹ 1ہزار روپے مقرر کیے گئے اور اب تک 4لاکھ اینٹیں صاحب حیثیت لو گ خرید چکے ہیں جن کی مجمو عی طورپر مالیت 40کروڑ روپے بنتی ہے۔ اخوت معیاری طبی پروگرام ‘ کلاتھ بینک اور خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود اور دیکھ بھال کے منصوبے بھی چلا رہا ہے۔ اخوت کا ماڈل بڑا عجیب ہے‘ یہ لینے والے کو دینے والے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ہر سال اسے کروڑوں روپے کے عطیات وہ لوگ دیتے ہیں جنہوں نے بیس ہزار روپے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا‘ کوئی ریڑھی لگائی تھی یا پھر اپنی دکان کو اپ ڈیٹ کیا تھا‘یہی وجہ ہے کہ آج اخوت کا ماڈل دنیا کی کئی یونیورسٹیز میں پڑھایا جاتا ہے اور کئی ممالک میں اپنا لیا گیا ہے اور یورپ اور امریکہ سے تحقیقی وفد صرف یہ دیکھنے آتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قرضدار خوشی خوشی خود قرض واپس کرنے جائے اور قرض واپسی کی مجموعی شرح ننانوے فیصد سے زائد ہو۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اتنی ساری کامیابیاں کسی شخص کو مل جائیں وہ سب سے پہلے سینیٹ کے ٹکٹ یا پھر وزارت کے حصول کا سوچے گا یا پھر کوئی نجی ہائوسنگ سکیم شروع کر کے اربوں روپے کمانے کے خواب دیکھے گا لیکن عجیب بات ہے کہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والا یہ افسر آج غریبوں کے علاوہ کچھ اور سوچنے کو تیار ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب جہاں ملتے ہیں‘ جب ملتے ہیں‘ ان کا بنیادی نکتہ ایک ہی ہوتا ہے کہ'' پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لیے پاکستانیوں کو ہی اٹھنا ہوگا‘‘اس معاشرے میں سینکڑوں لوگوں کے پاس پچاس پچاس کروڑ فالتو پڑے ہیں‘ وہ اپنے پیسے محفوظ کرنے کیلئے پاناماجیسے گمنام جزیرے ڈھونڈتے ہیں جبکہ اسی معاشرے میں آٹھ کروڑ لوگوں کی روزانہ آمدنی دو سو روپے سے بھی کم ہے اور اگر ہر خوشحال پاکستانی سالانہ دس بیس ہزار روپے بھی اس راہ میں دے تو ملک کے لاکھوں غریب گھرانوں کے دُکھ سمیٹے جا سکتے ہیں اور یہ کام صرف ڈاکٹر امجدثاقب کا نہیں بلکہ ہر اس شخص کا ہے جس نے قبر میں جانا اور روزِمحشر اپنی جمع کی گئی دولت اور اثاثوںکا حساب اور جواب دینا ہے۔
پنجاب کے تیسرے بے انتہا فائدہ مند ڈاکٹر کا ذکر آئندہ کالم میں۔