تین روز کے جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کے لرزہ خیز واقعات کے دوران پاکستان کے حوالے سے عالمی میڈیا میں دو انتہائی شاندار اور متاثر کن خبریں بھی آئیں مگر بد قسمتی سے یہ خبریں ہیجان انگیز ماحول کی سموگ میں دب کر رہ گئیں۔ پہلی خبر کے مطابق اس سال دنیا کے پانچ سو مؤثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں وزیر اعظم عمران خان سمیت کئی پاکستانیوں کا نام شامل ہے۔ یہ فہرست اردن اسلامی سٹریٹیجک سٹڈیز سنٹر نے جارج ٹائون امریکی یونیورسٹی کے اشتراک سے ٹاپ فائیو ہنڈرڈ مسلمز پر مبنی سالانہ اشاعت میں شائع کی ہے۔ فہرست کے مطابق وزیر اعظم عمران خان انتیسویں نمبر پر ہیں۔ یوں وہ پاکستان کی جانب سے دنیا کے پچاس با اثر ترین مسلمان رہنمائوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کا دنیا میں دسواں‘ ایچ ای سی کے سابق چیئرمین پروفیسر عطاالرحمن کا تیرہواں‘ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف کا چودھواں اور فزکس کے عالمی مسلمان ماہرین میں عرفان صدیقی کا پندرہواں نمبر ہے۔ یہ پاکستان کے لئے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے اس کا اندازہ آپ گزشتہ چند روز کے دوران پیدا ہونے والے حالات اور کیفیات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ جب ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل چھائے تھے اور اپنی ہی املاک کو جلانے اور ملیامیٹ کرنے کے حوالے سے پاکستان کی ہر جانب جگ ہنسائی ہو رہی تھی۔ اس دوران ایسا لگ تھا جیسے پاکستان خدانخواستہ عراق یا شام جیسی کوئی ریاست ہو‘ جہاں ترقی‘ ٹیکنالوجی اور تعلیم نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ شکر ہے حکومت نے عوام کو اس صورت حال سے نجات دلائی اور حالات معمول پر آ گئے۔ جریدہ عمران خان کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ بائیس برس کی سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم بنے۔ وہ شروع سے ہی کرپشن کو پاکستان میں تمام خرابیوں کی جڑ مانتے تھے لہٰذا انہوں نے سیاست اور کرپشن مافیاز کے خلاف توانا آواز بلند کی۔ جریدہ ان کی کینسر ہسپتال کے قیام کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی بیماری اور وفات کے بعد ملک میں کینسر کے غریب مریضوں کے علاج کے لئے ہسپتال قائم کیا‘ جس میں ہر مکتبہ فکر نے ان کا ساتھ دیا۔ انہی کی کپتانی میں پاکستان نے بانوے کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا‘ جس کے بعد انہوں نے ریٹائرمنٹ اور پھر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دسویں نمبر پر آنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں جریدہ لکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب 1970ء میں پاکستان کے لئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی لائے۔ پاکستان میں ایٹم بم کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی‘ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بغیر مکمل نہیں ہو گی۔ جریدے کے مطابق تیرہویں نمبر پر آنے والے پروفیسر عطا الرحمن پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی فروغ کے حوالے سے ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سابق دور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بنیاد رکھی۔ اس منصوبے کی وجہ سے سینکڑوں غریب طالب علم بھی سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے کے قابل ہوئے۔ فی الوقت وہ او آئی سی کے رکن ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی تنظیم کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل ہیں۔ وہ پہلے مسلمان سائنسدان تھے جنہوں نے 1999ء میں یونیسکو کا عالمی سائنسی مقابلہ جیتا۔ چودھویں نمبر پر ڈاکٹر عمر سیف ہیں جن کے بارے میں جریدہ لکھتا ہے‘ وہ ایک ٹیکنالوجی ٹائیکون اور ایوارڈ یافتہ سائنسدان ہیں۔ ایم آئی ٹی میں دوران تعلیم ہی وہ پانچ کروڑ ڈالر مالیت کے منصوبے کے رکن بنے۔ انہوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی انکوبیٹر کی بنیاد رکھی جہاں عام طالب علم اپنا منصوبہ لا کر اسے عملی شکل میں ڈھال سکتا ہے۔ پنجاب میں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی واحد یونیورسٹی موجود ہے‘ ڈاکٹر عمر سیف ہی اس کے منصوبہ ساز تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جریدے نے اس سال مسلسل پانچویں مرتبہ انہیں دنیا کے پانچ سو متاثر کن مسلمان ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ سولہویں نمبر پر فزکس کے عالمی ماہر عرفان صدیقی ہیں۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے۔ بعدازاں امریکہ چلے گئے۔ کولمبیا‘ ہارورڈ اور ییل یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ اس وقت یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ فزکس میں کوانٹم نینوسائنس لیبارٹری میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔
دوسری خبر ورلڈ بینک کے حوالے سے تھی‘ جس نے ٹیکنالوجی کے ذریعے پبلک سیکٹر کی کارکردگی بہتر بنانے والے دنیا بھر کے پندرہ جدید منصوبوں میں پاکستان کے دو آئی ٹی منصوبوں کو بطور مثال اپنی گلوبل رپورٹ میں شامل کیا ہے۔ یہ آئی ٹی منصوبے پنجاب آئی ٹی بورڈ نے صوبائی حکومت کے لئے وضع کئے تھے لیکن ان کی شاندار کامیابی کے بعد انہیں بعد ازاں خیبر پختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان سمیت دنیا کے سات ممالک میں لاگو کر دیا گیا۔ ورلڈ بینک کی اکتوبر میں جاری گلوبل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب آئی ٹی بورڈ کے سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام کے تحت2011ء سے اب تک اڑھائی کروڑ شہریوں نے استفادہ کرتے ہوئے حکومتی کارکردگی سے متعلق آراء اور شکایات درج کروائیں جبکہ شہریوں کی آراء کی روشنی میں متعلقہ ضلعی افسران نے ستر ہزار سے زائد معاملات پر ایکشن لیا۔ اس منصوبے کے مطابق عوام کی بڑی تعداد جو روزانہ سرکاری اداروں اور ہسپتالوں وغیرہ میں جاتی ہے‘ انہیں بعد ازاں ایک نمبر سے کال آتی ہے جس میں ان سے ان کے وزٹ کے بارے میں آراء لی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی سرکاری ہسپتال سے علاج کراتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اسے علاج یا ہسپتال کے حوالے سے کوئی مشکلات پیش آئی ہیں تو وہ اپنی رائے دے سکتا ہے۔ ان آراء کو متعلقہ ضلعی افسران کو بھجوا دیا جاتا ہے جو اس پر ایکشن لیتے ہیں۔ ورلڈ بینک نے جس دوسرے نظام کو دنیا کے لئے بطور مثال اپنی رپورٹ میں شامل کیا‘ وہ ای ویکس نظام ہے جس کے باعث پنجاب بھر میں دو سال کے عرصے میں ویکسی نیشن والے علاقوں کی شرح 43 فیصد سے بڑھ کر 83 فیصد ہو گئی ہے‘ جس سے پولیو کے خاتمے میں بڑی مدد ملی ہے۔ یہ اس لئے بھی اہم خبر ہے کہ چند برس قبل پاکستان میں پولیو کے کیس سامنے آنے کے بعد پاکستان اور پاکستانیوں پر بہت سی پابندیاں عائد ہو گئی تھیں جن میں سفری پابندیاں بھی شامل تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستانیوں پر دیگر ممالک میں آنے اور جانے کے لئے مکمل پابندی لگ جائے گی۔ اس مشکل سے نکالنے کے لئے اس ای ویکس نظام میں موبائل فون کو استعمال کرتے ہوئے پولیو ویکسی نیشن کا تمام ڈیٹا آن لائن کیا گیا‘ ہر ورکر کو ایک موبائل فون دیا گیا‘ ایک ایپ بنائی اور چلانا سکھائی گئی جس کے ذریعے وہ گھر گھر جا کر یہ رپورٹ کرتے کہ کس علاقے میں ویکسی نیشن کی گئی ہے‘ کہاں پر کسی نے انکار کیا ہے اور کس جگہ پر کوئی گھر میں موجود نہ تھا۔ اس سے قبل جو پولیو ٹیمیں جاتی تھیں وہ مینوئل طریقے سے کام کرتی تھیں‘ ان کے پاس سادہ رجسٹر ہوتے تھے‘ یہ رجسٹر ردی کے ڈھیر میں گم ہو جاتے تھے جس سے یہ تک پتہ نہیں چلتا تھا کہ کس علاقے میں ویکسی نیشن ہو چکی ہے اور کہاں ہونا باقی ہے‘ جبکہ موجودہ نظام کے تحت کوئی بھی شخص پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر جا کر آن لائن دیکھ سکتا ہے کہ صوبے میں کہاں کہاں ویکسی نیشن ہو چکی ہے۔ یہ تمام ڈیٹا جی پی ایس کے ذریعے رئیل ٹائم ریکارڈ ہو کر سامنے آ رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ کی تازہ رپورٹ پیش کر رہا ہے۔ اس کارنامے کا سہرا بھی ڈاکٹر عمر سیف کو جاتا ہے جنہوں نے اس پروگرام کو سادہ رجسٹروں سے نکال کر موبائل فون کے ذریعے آن لائن کیا تاکہ پولیو کے حوالے سے پاکستان کی اصل صورتحال سامنے آ سکے ورنہ دوسری صورت میں ہمارے پاس دکھانے کو کچھ نہیں تھا کیونکہ روایتی رجسٹروں سے رپورٹس بنانا طویل اور تقریباً ناممکن کام ہے۔ اس منصوبے کو ایسے ممالک میں لاگو کیا گیا‘ جہاں پولیو کا خطرہ بڑھ رہا تھا اور یہ دنیا سے بالکل کٹ چکے تھے جن میں البانیہ‘ رومانیہ‘ موزمبیق‘ افغانستان‘ ایتھوپیا‘ کانگو اور روانڈا شامل تھے۔
پس ثابت ہوا‘ پاکستان کا نام جلائو گھیرائو اور مار دو‘ اُجاڑ دو کی بجائے تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی اور سماجی خدمات کے حوالے سے بھی اُجاگر ہو رہا ہے‘ ضرورت صرف دیکھنے والی آنکھ کی ہے!