"ACH" (space) message & send to 7575

اِن ڈور تفریحی سنٹرز بنائیں!

ایک مسئلہ جو آج ہر والدین کو درپیش ہے‘ وہ بچوں کی جسمانی صحت مندانہ سرگرمیوں میں شدید کمی کا ہے۔ گزرے وقتوں میں امن و امان کی صورت حال بھی بہتر ہوتی تھی‘ موسم کی شدت بھی اتنی زیادہ نہ تھی اور سب سے اہم یہ کہ موبائل فون ایجاد نہ ہوا تھا۔ اس لئے بچے خود ہی باہر کھیلنے چلے جایا کرتے تھے۔ روزانہ عصر کے بعد پارک‘ گرائونڈز اور گلیاں آباد ہو جاتی تھیں۔ بچے گیند بلا‘ فٹ بال ؛حتیٰ کہ ہاکی بھی کھیلتے دکھائی دیتے تھے۔ اتوار کے روز بالخصوص بڑے میدانوں میں میچ لگتے تھے یا پھر ویران ہائوسنگ سوسائٹیوں میں ٹولیوں کی ٹولیاں کرکٹ کھیلا کرتی تھیں۔ ایک ہی میدان میں ایک وقت میں دس پندرہ میچ چل رہے ہوتے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس نے شاٹ ماری ہے اور کس کی گیند پاس سے گزری ہے۔ گرمی کا یا تو اتنا زور نہیں تھا یا پھر لوگ آج کی طرح آرام پسند نہ تھے۔ ایئرکنڈیشنر عام نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ کولر کی عیاشی ہوتی تھی۔ شیشے کی بوتلوں میں کولڈ ڈرنکس کا رواج تھا‘ جس کا ذائقہ اور معیار آج سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ بچے تو بچے بڑے بھی گھروں میں زیادہ دیر رہتے تو ان کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ شام کو گلی یا پارک میں واک معمول تھا۔ دوست یار سبھی پارکوں میں اکٹھے ہوتے تھے‘ دل کی باتیں دل کھول کر کرتے تھے‘ لیکن اب یہ ساری باتیں ہوا ہو گئی ہیں۔ موبائل فون نے گویا لوگوں سے ان کی زندگی ہی چھین لی ہے۔ بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جب موبائل نہیں تھا تو مائیں بچوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتی تھیں۔ بچے گھنٹوں کارٹونوں میں مگن رہتے‘ پھر جیسے ہی موبائل آیا یہ سب اسی ایک آلے میں سما گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی اس کی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ کسی نوٹیفکیشن کو دیکھنے کے لئے موبائل کو پکڑیں تو ساتھ ہی کوئی اور پوسٹ نظر آ جاتی ہے۔ کسی اونچے پہاڑ سے چھلانگ کی کوئی تین چار منٹ کی دلچسپ ویڈیو مکمل ہوتی ہے تو خود بخود ایک اور اس سے بھی دلچسپ ویڈیو سامنے آ جاتی ہے یوں ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا۔ 
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی‘ جس میں انڈونیشیا کی ایک چار سالہ بچی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ بچی کا آنکھوں کا آپریشن ہوا تھا۔ اس کی نظر موبائل فون کے کثرت استعمال سے خراب ہو گئی تھی۔ دو سال کی تھی جب اس کی والدہ نے اسے ایک موبائل ٹیبلٹ دے دیا۔ والدین صبح سے رات تک نوکری کرتے ‘جبکہ بچی ڈے کیئر میں ہوتی جہاں وہ سارا دن موبائل سے کھیلتی رہتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف دو سال کے عرصے میں چار برس کی عمر کو پہنچنے تک اس کی نظر اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ اسے پاس بیٹھا شخص بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے ایک سال کیلئے اس کے موبائل فون؛ حتیٰ کہ ٹی وی دیکھنے پر بھی سختی سے پابندی لگا دی۔ میڈیکل تحقیق کے مطابق ؛پانچ برس کی عمر تک کے بچے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ روزانہ موبائل فون استعمال کر سکتے ہیں‘ جبکہ پانچ سے بارہ سال کی عمر کے بچے روزانہ دو گھنٹوں سے زیادہ موبائل استعمال نہیں کر سکتے۔ اس سے بڑے افراد کو بھی دو سے تین گھنٹوں سے زیادہ کسی صورت موبائل استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ کریں گے تو نظر پر برا اثر پڑے گا۔ ہم ارد گرد دیکھیں تو سکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو میٹرک تک پہنچتے ہی پانچ چھ نمبروں کی عینکیں لگی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی اس قدر موٹے عدسوں والی عینکیں صرف ڈاکٹروں سے منسوب تھیں اور یہ بتایا جاتا کہ ڈاکٹر وں کو دوران تعلیم موٹی عینک لازمی لگ جاتی ہے ‘کیونکہ وہ روزانہ کم از کم سولہ گھنٹے ضرور کتابوں پر جھکے رہتے ہیں۔ کتابوں سے پھر بھی نظر اتنی خراب نہیں ہوتی تھی‘ کیونکہ موبائل فون سکرین سے جو شعائیں نکلتی ہیں‘ وہ آنکھوں کو بہت کم وقت میں بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ موبائل کے سگنلز کا بھی ہے‘ جو ہر لمحہ آپ کے علاقے کے قریبی ٹاور کو سگنل بھیجتے اور وصول کرتے ہیں۔ چاہے آپ کوئی کال کریں یا نہ کریں یہ مسلسل اپنا کام کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ موبائل فون کو سرہانے رکھ کر بھی نہیں سونا چاہیے‘ نہ ہی اسے بائیں جانب اوپر والی جیب میں رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ چارجر پر لگا کر کبھی بھی موبائل فون استعمال نہ کریں‘ کیونکہ چارجنگ کے دوران استعمال سے یہ بہت زیادہ گرم ہو جاتا ہے اور پھٹ بھی سکتا ہے۔ سستے موبائل فون اس حوالے سے زیادہ نقصان دے ہو سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مہم یہ چلی کہ ملکی مصنوعات خریدی جائیں‘ لیکن جہاں موبائل فون جیسی چیزوں کی بات آتی ہے‘ وہاں بندہ کیا کرے؟ پاکستان سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے تو کچھ بہتر ہے‘ لیکن ہارڈویئر کے معاملے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہارڈویئر انڈسٹری کے بارے میں آج تک شاید سوچا ہی نہیں گیا۔ کوئی ایسی قابلِ قدر چیز نہیں ‘جو پاکستان نے بنائی ہو اور اسے عالمی پذیرائی حاصل ہوئی ہو۔ کچھ سرکاری و نجی یونیورسٹیوں کے طلبا اپنے طور پر محنت اور تحقیق کر کے بعض اوقات دنگ کر دینے والی ایجادات کر دیتے ہیں‘ لیکن ان کے حقوق کو رجسٹر کرانا اور دیگر معاملات میں حکومتی معاونت نہ ہونے کے باعث ایسے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں معیار کا فقدان بھی بہت ہے۔ وہی چیز جو ہم دس روپے کی کم معیار کی اور تاخیر سے بنا کر دیتے ہیں‘ وہی چیز بھارت یا چین پانچ روپے میں اعلیٰ معیار کی بروقت بنا کر دے رہے ہیں تو کوئی ہم سے کیوں خریدے؟ جب تک ملکی مصنوعات عالمی معیار کی سطح پر نہیں آئیں گی اس طرح کی مہمات چلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اپنا معیار بہتر کریں‘ لوگ خود بخود ملکی مصنوعات کی طرف راغب ہو جائیں گے اور ملکی کرنسی کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ 
موسمی شدت اور بعض اوقات امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کو ان کے والدین گھروں سے باہر نہیں جانے دیتے‘ جس پر وہ موبائل کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اب موبائل فون بچوں اور نوجوانوں کو نہ دینا بھی ممکن نہیں۔ واحد حل یہ ہے کہ حکومت دبئی کی طرز پر بڑے بڑے اِن ڈور ہال اور میدان قائم کرے ‘جہاں ہر طرح کی غیر نصابی جسمانی سرگرمیاں ممکن ہو سکیں۔ دبئی میں درجہ حرارت پاکستان سے بھی زیادہ سینتالیس اڑتالیس ڈگری رہتا ہے لیکن وہاں ایسے اِن ڈور تفریحی سنٹرز ہیں جہاں برف کے پہاڑ تک بنائے گئے ہیں اور درجہ حرارت منفی بیس ڈگری تک رکھا گیا ہے‘ اسی طرح چھوٹے چھوٹے اِن ڈور سمندر بھی ہیں جن میں لوگ گرمی سے تنگ آ کر مصنوعی لہروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کئی بلند عمارتوں سے رسی کے ذریعے لٹک کر ایک کلومیٹر طویل راستہ طے کرنے کے تفریحی مواقع بھی موجود ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بھی بہت پیچھے ہے۔ یہاں پر قدرتی مناظر‘ جھیلیں‘ باغات سب کچھ ہے‘ لیکن ان تک جانے کیلئے سڑکیں موجود نہیں۔ تین گھنٹوں کا فاصلہ آٹھ آٹھ گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں کے انتظامات بھی ناقص ہوتے ہیں اور صفائی بھی اطمینان بخش نہیں ہوتی۔ شہروں میں زیادہ سے زیادہ آئوٹنگ ریسٹورنٹس تک محدود ہوتی ہے اور وہ بھی رات گئے۔ کھانا کھا کر فوری سونے سے معدے خراب ہوتے ہیں اور رات گئے تک جاگنے سے روٹین بھی ڈسٹرب ہوتی ہے۔ جبکہ آج بھی امریکہ اور برطانیہ میں شاپنگ مالز وغیرہ شام چھ بجے تک بند ہو جاتے ہیں اور لوگ رات کا کھانا شام پانچ سے رات آٹھ بجے تک کھا لیتے ہیں۔ جب عوام کے پاس سیروتفریح کے مواقع نہیں ہوں گے تو پھر وہ کھانے کھا کھا کے اپنے معدے ہی خراب کریں گے یا پھر نہروں کے گندے پانی میں ہی نہائیں گے۔ پاکستان سیاحت سے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔ فی الوقت حال یہ ہے کہ ایوبیہ کی چیئرلفٹ کو اپنی مدت پوری کئے ہوئے بھی پندرہ برس بیت چکے ہیں اور کئی حادثوں میں جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ دنیا پاکستان کی خوبصورتی کی قدردان ہے‘ لیکن اسے یہاں لانے کیلئے ضروری ہے کہ شمالی پہاڑی علاقوں میں انفراسٹرکچر کا ضروری جال بچھایا جائے اور ضلعی سطح پر مقامی آبادی کیلئے بڑی سطح پر اِن ڈور تفریحی سنٹرز بنائے جائیں وگرنہ بچوں سمیت پوری قوم یونہی بے سدھ پڑی موبائلوں پر انگلیاں مارتی رہے گی اور ان میں ڈپریشن‘ نفسیاتی‘ اعصابی‘ بینائی اور موٹاپے کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں