کہا جاتا ہے کاروبار میں بہت برکت ہے۔ انسان کو نوکری کی بجائے کاروبار کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ رزق کے نو حصے کاروبار میں اور ایک حصہ نوکری میں ہوتا ہے۔ کاروبار کرنے والا کئی گھرانوں کا چولہا جلانے کا سبب بنتا ہے جبکہ نوکری پیشہ ساری عمر اپنے ہی چولہے کی آگ روشن رکھنے میں لگا رہتا ہے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کاروبار ہر بندے کے بس کی بات نہیں۔ کاروبار کے کچھ الگ ہی تقاضے‘ چلن اور ضروریات ہوتی ہیں‘ جو ہر شخص میں نہیں پائی جاتیں۔ ہر بندہ کاروباری یا ہر بندہ نوکری پیشہ نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص میں الگ الگ صلاحیتیں‘ خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ کسی کی زبان چلتی ہے تو کسی کا قلم۔ کسی کا دماغ تو کسی کا علم۔ کسی کا محض آئیڈیا کروڑوں میں بِک جاتا ہے اور کوئی کروڑوں لگا کر بھی کاروبار سے ہزاروں نہیں کما پاتا۔ کوئی دو سطروں کا نسخہ لکھ کر دو منٹ میں پانچ ہزار بنا لیتا ہے تو کوئی دو سو صفحات کی کتاب لکھ کر بھی پانچ ہزار نہیں کما پاتا۔ یہ قدرت کی تقسیم ہے۔ ہر کسی کا کام ایک تناسب کے ساتھ چل رہا ہے؛ چنانچہ ان صلاحیتوں‘ خوبیوں اور کمزوریوں کی اس تقسیم کے باعث کچھ لوگ کاروبار کرتے ہیں اور کچھ نوکری۔ خواہشوں پر بات بنتی ہوتی تو ہر شخص کئی کاروباروں کا مالک ہو چکا ہوتا۔ ہمارے کئی مہربان موٹیویشنل سپیکر بعض اوقات کاروبار کی طرف اتنی زیادہ رغبت دلاتے ہیں کہ ہم جیسے نوکری پیشہ اس گمان میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید دنیا میں سب سے ناکام ہمی ہیں اور کامیاب و کامران وہ جو اپنا کوئی کام دھندا کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کاروبار میں رزق کے مواقع نوکری سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ مہینے کی ایک کروڑ روپے تنخواہ بھی لیتے ہیں تو کاروبار میں آپ روزانہ ایک کروڑ یا ایک ارب بھی کما سکتے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہر بندہ اگر کاروبار کرنے لگ جائے گا تو پھر نوکری کون کرے گا کیونکہ کاروبار بغیر سٹاف کے تو چل نہیں سکتا اور اگر ہر شخص یہ کہہ کر نوکری سے انکار کر دے کہ وہ صرف کاروبار ہی کرنا چاہتا ہے تو کاروبار کے لئے ورک فورس کہاں سے آئے گی؟ ایک شخص کوئی جنرل سٹور بھی کھولتا ہے تو اسے سامان کسی نہ کسی نے تو پہنچانا ہے‘ گاڑی سے اتارنا ہے‘ دکان پر کیش کی وصولی ہونی ہے‘ سکیورٹی گارڈ بھی چاہیے‘ سیلز مین کی بھی ضرورت ہے‘ آخر اکیلا مالک یہ سب خود تو نہیں کر سکتا اور یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کیشئر‘ سکیورٹی گارڈ‘ سیلز مین‘ ہیلپر اور صفائی کرنے والے‘ سب کو منافع میں حصہ دار بنا لے۔
یہ بھی سچ ہے کہ بعض لوگ پیدا ہی نوکری کے لئے ہوتے ہیں۔ آپ ایسوں سے پوچھیں گے کہ کاروبار کرنا چاہیے یا نوکری تو وہ کاروبار کے کیڑے گنواتے ہوئے کہیں گے کہ اس کیلئے بہت زیادہ پیسہ درکار ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر ڈھیر سارا پیسہ دے دیا جائے تو بھی یہ کاروبار نہیں کر پائیں گے۔ یہ سارا پیسہ کھا پی جائیں گے اور بعد میں کہیں گے فلاں مسئلہ نہ ہوتا تو میرا کاروبار ضرور چل پڑتا۔ یہ اپنی غلطی کبھی نہیں مانیں گے۔ مثال کے طور پر یہ ایسی جگہ جنرل سٹور ڈال لیں گے جہاں پہلے ہی دس جنرل سٹور موجود ہوں گے اور ان میں سے آٹھ مکھیاں مار رہے ہوں گے۔ یہ ابتدائی تیاری اور سروے کے بغیر ہی سٹور کھول لیں گے اور دیگر کے ساتھ یہ بھی ڈوب جائیں گے لیکن یہ نہیں دیکھیں گے کہ ہم نے غلطی کہاں کی۔ ایسے لوگ صرف انگلی پکڑ کر یا ڈانٹ کھا کر چلنا جانتے ہیں۔ وہ خود سے کوئی انیشی ایٹیو نہیں لے سکتے‘ باس جو کہے‘ جیسا کہے اتنا کرتے ہیں اس سے آگے ایک انچ نہیں ہلتے‘ ایسے لوگ ہمیشہ کھڑے پانی کی طرح رہتے ہیں جس میں ارتعاش کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
کاروبار کے لئے درکار دوسری چیز صبر ہے۔ پندرہ برس قبل لاہور کی ایک پوش ہائوسنگ سکیم میں ابھی چند گھر ہی بنے تھے۔ وہاں ایک جنرل سٹور تھا اور کافی بڑا تھا۔ میں نے اس کے مالک سے پوچھا‘ آپ کو یہاں کتنا عرصہ ہو گیا ہے؟ وہ بولا‘ تین سال۔ میرا اگلا سوال منافع کے بارے میں تھا جس پر وہ بولا‘ ابھی تک تو صرف نقصان چل رہا ہے؛ تاہم جیسے جیسے آبادی بڑھے گی ایک دن آئے گا جب میں سب سے زیادہ کمائوں گا۔ اس کی بات درست نکلی۔ آج وہ گروسری سٹور تین منزلوں پر کھڑا ہے اور گاہک پیسے پکڑانے کے لئے بے تاب رہتے ہیں لیکن ان صاحب کے پاس پکڑنے کا وقت نہیں۔ یہ تو چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار تھے۔ جہاں تک بڑے کاروباری گروپوں اور صنعتوں کی بات ہے تو یہاں میاں عبدالمجید جیسے نام بھی ہیں جو گوجرانوالہ کے قریب چھوٹے سے گائوں کلاسکے سے نکلے اور تعلیم کے میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آکسفورڈ تک پہنچے۔ انہوں نے دنیا بھر سے ٹیکسٹائل کی جدید مشینری قیام پاکستان کے بعد یہاں منگوائی اور یوں پاکستان میں اس صنعت کی بنیاد رکھی۔ ان کا سفر بہت طویل اور کٹھن تھا۔ اس میں صبر بھی تھا‘ لگن بھی اور سیکھنے کی جستجو بھی۔ ہم مگر یہ نہیں دیکھتے وہ کون سی ایسی عادات اور مراحل تھے جن سے گزر کر کوئی شخص کامیاب ہوا۔ ہم ماضی کی ساری جدوجہد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں: فلاں صنعت کار‘ فلاں بزنس مین نے کوئی غبن کیا ہو گا‘ قرض کھایا ہو گا یا پھر یہ سب باپ دادا کی بدولت ہے۔
ٹیکنالوجی کی اٹھان سے کاروبار کی ایک نئی جہت انتہائی سرعت سے پروان چڑھ رہی ہے اور وہ ہے اینٹرپرینور شپ۔ آپ کو اردو لغت میں اس کا کوئی مناسب ترجمہ نہیں ملے گا‘ ملا بھی تو انتہائی دقیق۔ اینٹرپرینور کو آپ بزنس کی جدید شکل کہہ سکتے ہیں۔ فرق یہ ہے بزنس مین لاکھوں کروڑوں روپے لگا کر کاروبار شروع کرتا ہے لیکن اینٹرپرینور کو بہت بڑا کاروبار شروع کرنے کیلئے صرف ایک اُچھوتا آئیڈیا‘ مہارت اور دو چار لوگوں کی چھوٹی سی ٹیم درکار ہوتی ہے۔ آج کے دور میں ایک پڑھے لکھے نوجوان کو کاروبار کے یہ جدید مواقع انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے فراہم کئے ہیں۔ اپنے ملک کی بات کریں تو یہاں چار پانچ نوجوان ایک گروپ بناتے ہیں‘ کسی آئیڈیا پر کام کرتے ہیں اور اسے لے کر سرکاری اداروں پی آئی ٹی بی کے شعبہ پلان نائن یا اسلام آباد میں اِگنائیٹ کے پاس چلے جاتے ہیں جہاں آئی ٹی ماہرین ان کے آئیڈیاز کو دیکھتے‘ پرکھتے اور تولتے ہیں‘ اگر ان میں جان ہو‘ یہ کلک کر سکتے ہوں تو انہیں چھ ماہ کے لئے اپنے ہاں جگہ‘ تربیت اور تکنیکی سہولیات فراہم کر دیتے ہیں اور انہیں عالمی اداروں سے فنڈنگ دلوانے میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ پلان نائن سے اب تک سینکڑوں سٹارٹ اَپس اربوں روپے کے منصوبے شروع کر کے انہیں دیگر ممالک تک پھیلا چکے ہیں؛ چنانچہ آج اگر کسی نوجوان کے پاس صلاحیت اور کوئی اچھوتا آئیڈیا ہے جس میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے کسی عوامی مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہو تو وہ نوجوان بغیر لاکھوں کروڑوں خرچ کئے عالمی سطح کی کمپنی بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ پاکستان سے باہر کی بات کریں تو کاروبار کی یہ شکل عالمی سطح پر تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور دنیا میں جتنی بڑی یونیورسٹیاں ہیں سبھی سے چھوٹے چھوٹے سٹارٹ اپ نکل کر تیزی سے عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صحت‘ تعلیم‘ ٹرانسپورٹ‘ انفارمیشن اور دیگر شعبوں میں جدت لا کر آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اینٹرپرینورشپ اور عام کاروبار‘ دونوں میں کچھ چیزیں مشترکہ ہیں کہ ان دونوں میں رِسک‘ محنت‘ صبر اور مسلسل لگن درکار ہوتی ہے‘ نوکری پیشہ انسان جن سے عاری ہوتا ہے۔ اس کی نظر صرف تنخواہ پر ہوتی ہے‘ وہ گھڑیاں گن گن کر مقررہ تاریخ کا انتظار کرتا ہے‘ تنخواہ سے کچھ بچا نہیں پاتا‘ کبھی بچ جائے تو بن بلائے اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔ کاروبار کرنا چاہے تو نوکری چھوڑنے کا خطرہ نہیں مول لیتا کہ جانے آمدن کب شروع ہو۔ ہر سال کے آغاز میں سوچتا ہے نوکری سے کچھ بچا نہیں پایا‘ چھوٹا موٹا کاروبار کیا ہوتا تو اپنا تو ہوتا اور جاب سکیورٹی کا مسئلہ بھی نہ ہوتا‘ انہی سوچوں میں وقت کچھوے کی مانند گزرتا چلا جاتا ہے۔ بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعلیم‘ شادی‘ رہائش اور دیگر اخراجات کے بوجھ اور فکر سے بال وقت سے پہلے سفید ہونے لگتے ہیں‘ چہرے پر جھریاں اور کمر میں خم آ جاتا ہے‘ دماغ کے کونے کھدرے میں پڑا کاروباری آئیڈیا بھی آخری سانسیں لینے لگتا ہے اور پھر ایک دن آتا ہے جب انسان کاروبار کے اس خیال کو ہمیشہ کیلئے زمین میں دبا کر فاتحہ پڑھ لیتا ہے۔