ڈاکٹری کتنا مشکل اور تھینک لیس پیشہ ہے اس کا اندازہ مجھے ایک ڈاکٹر سے مل کر ہوا ۔ آج سے بیس سال قبل ڈاکٹر اور انجینئر کی بہت زیادہ طلب تھی اور اس میں پیسہ بھی تھا ‘لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم نے ان دونوں شعبوں کا زوال بھی دیکھا۔ ڈاکٹر اور انجینئر اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع ہوئے تو حیرانی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی کہ اگر یہ دونوں مطمئن نہیں تو پھر عام بندہ کیسے گزارہ کرتا ہو گا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے ‘ لائف سٹائل تبدیل اور جنک فوڈ کے عام ہونے اور موبائل فون کے ساتھ چپکے رہنے کی وجہ سے عوام کی صحت مجموعی طور پر خرابی کی طرف جا رہی ہے‘ بلڈ پریشر‘ ٹینشن‘ دبائو ‘ شوگر جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اور ان سب عوامل کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ برداشت بھی کم ہو رہی ہے۔ یہ صرف ہسپتالوں میں ہی نہیں ہوتا کہ لواحقین ڈاکٹروں سے یہ کہہ کر لڑ پڑتے ہیں کہ انہوں نے ان کے مریض کا صحیح علاج نہیں کیا‘ بلکہ معاشرے میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوک جھونک ‘ لڑائیاں؛ حتیٰ کہ قتل تک ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک عوام اور ڈاکٹروں کے تصادم کا تعلق ہے تو اس میں عوام کا قصور زیادہ نظر آتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ڈاکٹر مریض کو پانچ دن اینٹی بائیوٹک دوائی دے بھی دے تو زیادہ تر مریض دو تین دن کھا کر چھوڑ دیتے ہیں‘ یوں بیماری کچھ دیر بعد واپس آ جاتی ہے اور مریض کہتا ہے؛ ڈاکٹر نے میرا صحیح علاج نہیں کیا۔ عوام میں شعور اور آگاہی کی بھی کمی ہے۔ وہ پرہیز کے ذریعے خود کو درست رکھ سکتے ہیں‘ لیکن بازار کی کیمیکل ملی اشیا اور کڑاہیاں کھا کر جب ہسپتال پہنچتے ہیں تو سارا غصہ ڈاکٹر پر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی نوے فیصد بیماریوں کی بڑی وجوہات میںغربت‘ جہالت‘ بے روزگاری‘ معاشرتی ناہمواری‘ صحت و صفائی کے ناقص انتظامات اور سب سے بڑھ کر خوراک کی بدپرہیزی ہے ‘لیکن ہم لوگ معاشرے کی خامیوں اور ناہمواریوں کو بھی ڈاکٹروں کے سر ڈال دیتے ہیں اورکوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔آپ جانتے ہیں ہے کہ جو مضر صحت کولڈ ڈرنکس ہم روزانہ پیتے ہیں ‘ان میں گندگی‘مضرکیمیائی اجزا اور خطرناک کیمیکلز شامل ہوتے ہیں ۔یہ پانی جب خون میں شامل ہوتا ہے اوریہ خون ہماری رگوں اور شریانوں سے ہوتا ہوا دل کے والو سے گزرتا ہے توایک چلتا پھرتا شخص موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔اسی طرح جب بچے کی پیدائش کا وقت آتا ہے‘ اماں‘ساس‘جیٹھانی اور بڑی باجی دائی کو لے آتی ہیں‘ لیکن جب بات نہیں بنتی اور بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے تو خاتون کوہسپتال لے جایا جاتا ہے اور ڈاکٹر کے علاج شروع کرنے سے قبل ہی بچے کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس موت کا ذمہ داربھی ڈاکٹر کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ہمیں علم ہے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے چھ حفاظتی ٹیکوں کا کورس کرانے کی تلقین کی جاتی ہے‘لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ ان ٹیکوں کو بے معنی سمجھ کر توجہ نہیں دیتے اور جب بچہ کسی بیماری کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو توپوں کا رخ ڈاکٹر کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ملک میںگیسٹرونامی مرض سے لوگوں کی جانیں ضائع ہو تی ہیں۔اس مرض کی بنیادی وجہ صحت و صفائی کے ناقص انتظامات اور سیوریج کا خراب نظام ہے۔اس نظام کو درست طور پر چلانے کی ذمہ داری محکمے پر عائد ہوتی ہے ‘ لیکن جب غلاظت بھرا یہ پانی پی کر مریض گیسٹرو جیسی بیماریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں‘ اس کا قصوروار بھی ڈاکٹر ٹھہرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹی بی کی بڑی وجوہات میںناقص غذا‘پان چھالیہ کا استعمال‘ جگہ جگہ تھوکنا اور صفائی پر توجہ نہ دینا شامل ہیں۔آپ گلاب دیوی ہسپتال جا کر دیکھ لیں۔یہ ہسپتال ٹی بی کے علاج کے لیے مشہورہے‘ لیکن یہاں جب کوئی مریض ٹی بی کا شکار ہو کر موت کی دلدل میں اُتر جاتا ہے تو متوفی کے رشتہ دار آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اورڈاکٹر کوغفلت اور نااہلی کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ آ پ جانتے ہیں بازار میں گندم کی گولیاں عام دستیاب ہیں۔یہ گولیاں زہر کی سب سے خوفناک شکل ہیں۔جب کوئی دوشیزہ یہ گولیاںاس وجہ سے کھا لیتی ہے کہ وہ اپنی پسند کے کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی ‘لیکن اس کے والدین راضی نہ تھے اور حالت غیر ہونے پر جب لڑکی کو ایمرجنسی وارڈ میں لایا جاتا ہے اور جب یہ قاتل زہر مریضہ کے جسم کو ڈیڈ کر کے اسے موت کے حوالے کر دیتا ہے تو مریضہ کے رشتہ دار توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں ‘تو اس وقت کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ اگرمتوفیہ کے والدین یہ مسئلہ اس کی زندگی میں طے کر لیتے تو آج وہ اپنی بیٹی کو سفید کفن کی بجائے سرخ جوڑے میںرخصت کر رہے ہوتے۔
عموماً جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو وہ مختلف ٹوٹکوں سے اپنا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ کبھی ہومیوپیتھی تو کبھی چائنیز ہربل طریقہ علاج اختیار کر لیتا ہے‘ تو کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے کسی نیم حکیم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ‘جو اسے جانوروں اور فصلوں کی بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات کے اجزا سٹیرائڈز میں ملا کر دوا کے طور پر دے دیتے ہیں۔اس کے بعد جب اس کے گردے مکمل طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض کی روح پرواز کر جاتی ہے تو متوفی کے ورثا ساری ذمہ داری ڈاکٹر پر ڈال کر اسے کٹہرے میں لے آتے ہیں۔ایک اور چیز یہ دیکھی گئی ہے کہ ذیابیطس کا کوئی مریض شوگر کنٹرول کرنے کیلئے کریلا جوس‘ لہسن‘پیاز اور چائنیز چائے کا بکثرت استعمال کرتا ہے‘ لیکن جب یہ مرض کنٹرول نہیں ہو پاتا اور جسم کا کوئی حصہ زخم بن جاتا ہے توایسے شخص کی جان بچانے کیلئے اس کاوہ عضو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ایسے میں کہا جانے لگتاہے میں ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے گیا‘ لیکن اس نے مجھے معذور بنا دیا‘اسی طرح حکومت کی ہر طرح کی مہم کے باوجود زیادہ تر موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے اور بہت سے نوجوان ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔جب ایکسیڈنٹ ہوتا ہے اور مریض کومے میں چلا جاتا ہے تو ڈاکٹر کا گریبان تو سب کو نظر آتا ہے‘ لیکن مریض کی غفلت پر کوئی غور نہیں کرتا۔ اسی طرح جب کسی کی ٹانگ یا بازو کا فریکچر ہوتاہے اوروہ ڈاکٹر کی بجائے پہلوان کا رخ کرتا ہے‘ لیکن کیس خراب ہونے پر ڈاکٹر کے پاس آجاتا ہے‘ جو بعض اوقات چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا‘ لیکن قصور وار ایک بار پھر ڈاکٹر ہی ٹھہرتا ہے۔ آپ حیران ہوں گے برطانیہ میں ڈاکٹروں کو ہر تیرہ گھنٹے بعد گیارہ گھنٹے کا بریک ملتا ہے اور وہاں ڈاکٹرہر چار گھنٹے کے بعد آدھے گھنٹے کیلئے آرام کر سکتا ہے‘ لیکن یہاں ڈاکٹر ایک سو اڑسٹھ گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کرتے ہیں۔ اگر کبھی آدھی رات کو کرسی پر بیٹھ کر چند لمحے اونگھنے کا موقع ملے تو اسے بڑی غنیمت اور نعمت خیال کرتے ہیں اور اس دوران مریض تک پہنچنے میں ایک لمحہ تاخیر ہو جائے تو ڈاکٹروں کا سر پھاڑنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ شاید ہم انہیں ایسی خلائی مخلوق سمجھتے ہیں‘جسے نہ تو نیند آتی ہے‘ نہ بھوک لگتی ہے‘ نہ غم ہوتا ہے ‘ نہ تھکن ہوتی ہے نہ پریشانی چھوتی ہے۔
آئے روز سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے لواحقین کے مابین جھگڑوں کی خبریں آتی ہیں۔ ابھی وکلا اور ڈاکٹروں کا پنجاب کارڈیالوجی میں چند روز قبل ہی جھگڑا ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات اس لیے رکنے چاہئیں ‘کیونکہ طب انتہائی معزز پیشہ ہے‘ لیکن اس شعبے کی اس طرح عزت نہیں کی جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ کالی بھیڑیں ڈاکٹر وں میں بھی ہوں‘ لیکن یہ لوگ کم از کم جعلی سرٹیفکیٹ ‘سفارشوں اور چٹوں سے ڈاکٹر نہیں بنتے‘ بلکہ اس کے لیے پانچ سال اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کی جان مارنی پڑتی ہے‘ خود کو سماج سے الگ کر کے صرف اور صرف تعلیم کیلئے وقف کرنا پڑتا ہے اور اگر ڈاکٹروں کی یہ بے توقیری اسی طرح جاری رہی تو چند برسوں بعد ملک میں کوئی بھی ڈاکٹر موجود نہیں رہے گا‘ سب کے سب بیرون ملک جانے کو ترجیح دیں گے‘ جہاں انہیں پیسہ بھی ملتا ہے اور عزت بھی۔