بالآخر نوجوانوں کی سنی گئی۔ پاکستان میں دیر سے ہی سہی لیکن سٹارٹ اپ کلچر کو قومی سطح تک پھیلانے کا بالآخر باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ اس سے قبل سٹارٹ اپ انکیوبیشن سنٹر لاہو ر میں ارفع ٹاور میں گزشتہ چند برس سے کامیابی سے کام کر رہا ہے۔خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے انکوبیشن کو قومی سطح پر شروع کرنے کے لئے گزشتہ روز ایک تقریب میں شرکت کی جس کے تحت پورے ملک سے نوجوانوں کو انکوبیشن سنٹر میں تمام تر حکومتی معاونت دی جائے گی او ر وہ اپنے اچھوتے آئیڈیاز اور منصوبوں پر عمل درآمد کر سکیں گے۔ اس انکوبیشن سنٹر میں منتخب کردہ نوجوانوں کو ایک سال تک کام کرنے کی مفت جگہ دی جائے گی۔ یہاں جدید آئی ٹی ماہرین ان کے آئیڈیا کو کامیاب بزنس پلان میں تبدیل کرنے میں ان کی معاونت کریں گے۔ ایک سال بعد یہ نوجوان نیشنل انکوبیشن نیٹ ورک کا حصہ بن جائیں گے اور انہیں اپنے منصوبوں کو ملکی اور عالمی سطح تک پھیلانے میں آسانی حاصل ہو جائے گی۔
اب دور بدل چکا۔ کاروبار کی شکل بھی اب وہ نہیں رہی۔ پہلے کاروبار کا ذہن میں آتے ہی ڈھیر سارا سرمایہ آ جاتا تھا۔ یہ سرمایہ جس کے پاس ہوتا تھا وہ تو کچھ کر لیتا تھا جس کے پاس نہیں ہوتا تھا وہ بہترین آئیڈیا ہونے کے باوجود سرمائے کی کمی کے باعث کچھ کر نہیں پاتا تھا۔ عموماً چھوٹے کاروباروں میں تشہیر پر اتنا زور نہیں دیا جاتا بلکہ چھوٹے کاروبار مقامی ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی تک محدود ہوتے تھے اس لئے ان کی تشہیر کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پھر فرنچائز کا دور آ گیا۔ اس نے کاروبارکو ملکی اور غیر ملکی سطح پر پھیلانے کی ایک نئی روایت ڈال دی۔ یہ روایت غیرملکی فائیوسٹار ہوٹلوں کی شکل میں تو کئی عشروں سے موجود تھی لیکن پھر سکولوں‘بیکریوں اور ریسٹورنٹس کی فرنچائز تیزی سے مقبول ہونے لگیں۔ اس کی وجہ سے کاروبار کو وسعت دینا آسان ہو گیا۔ جو برانڈ کسی شہر میں ایک جگہ کامیاب ہو گیا اس نے اسی شہر کے مختلف حصوں او ربعد ازاں دیگر شہروں میں فرنچائز دینا شروع کر دیں۔یہ کام بھی مگر بڑے سرمایہ دار ہی کر سکتے تھے۔ چھوٹے تاجر ابھی تک مقامی سطح تک ہی محدود تھے۔ نوجوانوں کی تو کوئی جگہ ہی نہ تھی۔ وہ زیادہ تر نوکریاں کرنے پر ہی مجبور تھے۔ کاروبار کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ مگر پھر نوے کی دہائی میں کمپیوٹر کے انقلاب نے نوجوانوں کو ایک نئی زندگی دے گی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں موبائل فون مارکیٹ میں آ گیا تاہم یہ ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا۔ انٹرنیٹ کی سپیڈ بھی کم تھی اور اس وقت انٹرنیٹ کا ایک گھنٹہ بھی دو تین سو روپے میں خریدنا پڑتا تھا۔ انٹرنیٹ پر صرف ٹیکسٹ اور تصاویر ہی دیکھی جاتی تھیں۔ سپیڈ کم ہونے کی وجہ سے ویڈیوز بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں جگہ نہ بنا سکیں۔ دو ہزار چار میں گوگل نے دیگر سرچ انجنوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس دوران فیس بک او ریوٹیوب نے بھی قدم جمانا شروع کر دئیے اور رہی سہی کسر وٹس ایپ نے نکال دی۔ دو ہزار دس تک سستے موبائل فون آنا شروع ہو گئے اور پھر ہر سال اس میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ انٹرنیٹ تیز اور سستا ہونے لگا اور دیہات اور پہاڑی علاقوں تک میں انٹرنیٹ سروس فراہم ہونے لگی۔ انٹرنیٹ‘ کمپیوٹر‘ موبائل یہ سب کچھ نوجوانوں کے لئے پر کشش ایجادات بھی تھیں اور وہی اس کا استعمال بھی جانتے تھے۔ مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس‘ گوگل کے سر لیری پیج اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ دنیا بھر کے نوجوانوں کے آئیڈیل بن گئے۔ یہ اپنی ایجادات کی وجہ سے چند برسوں میں اربوں بلکہ کھربوں ڈالر کے مالک بن چکے تھے۔ان کی ایجادات کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروبار کی نوعیت بھی تبدیل ہو گئی۔لوگ نہ صرف اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سہارا لینے لگے بلکہ انٹرنیٹ اور موبائل صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر نت نئی ویب سائٹ اور موبائل ایپلی کیشن بننا شروع ہو گئیں۔ انفارمیشن ہر کسی کی دسترس میں آ گئی اور لوگ اس انفارمیشن کے ذریعے اپنی زندگیاں سنوارنے اور اپنے کاروباروں کو وسعت دینے کے قابل ہو گئے۔ایسی ایسی ایپلی کیشن آ گئیں جن کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنانے اور ان کے مسائل کے حل نکالے جانے لگے۔عام ٹیکسیوں کی جگہ اُبر کریم نے لے لی جس سے دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع مل گئے۔ حتیٰ کہ ایسی ایسی ایپ بن گئیں کہ آپ نے اپنے علاقے سے کسی ترکھان کو تلاش کرنا ہے‘ کسی الیکٹریشن سے کام کروانا ہے یا کسی پلمبر کو ڈھونڈنا ہے تو یہی کام جو پہلے درد سر اور انتہائی مشکل ہوتا تھا‘ وہ سب موبائل فون کی ایک کلک سے کرنا ممکن ہو گیا۔ بس ایپ کھولیں‘ اپنی لوکیشن ڈالیں‘ درکار سروس کے بارے لکھیں چند ہی منٹوں میں آپ سے آپ کے علاقے سے درجنوں افراد کال کر کے آپ کا کام کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ اسی طرح آپ نے اگر دوائی کسی شخص کو فوری پہنچانی ہے تو موبائل ایپ کے ذریعے بائیک رائیڈر کو بلائیں اور وہ آپ سے دوائی لے کر اس شخص کو دے دے گا۔ اسی طرح آپ کو مالی چاہیے‘آپ نے گھر میں ہی گاڑی دھلوانی ہے‘آپ اپنا میک اپ کروانا چاہتے ہیں‘آپ کو گھر میں پینٹ کروانا ہے‘کپڑوں کی سلائی کروانی ہے‘ پانی کی ٹوٹی ٹھیک کروانی ہے آپ یہ سب کام آپ موبائل ایپ کی مدد سے ایک کلک سے کر سکتے ہیں۔ یہ سب پہلے کب ہوتا تھا۔ پہلے آپ الیکٹریشن کی منتیں کرتے تھے اور وہ آپ کو دو دن بعد شکل دکھاتا تھا۔ اب مگر کام سب کے لئے آسان ہو گیا ہے۔ اب سکل سیٹ کی مانگ ہے۔ جس کے پاس ہنر ہے وہ آج کے دور میں فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔ ان موبائل ایپلی کیشنز نے ہر کسی کے لئے روزگار کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ آپ انگریزی سے اردو ترجمہ کر سکتے ہیں‘ اکائونٹس کی بیلنس شیٹ بنانا جانتے ہیں یا پھر ویڈیوز کے لئے وائس اوور ریکارڈ کر سکتے ہیں تو آپ یہ کام گھر بیٹھے فائیور جیسے ویب سائٹ سے کر سکتے ہیں اور آن لائن ڈالروں میں آمدنی کما سکتے ہیں۔
آج سے سات برس قبل ارفع کریم رندھاوا کا انتقال ہوا۔ اس بچی نے انتہائی کم عمر میں مائیکروسافٹ سرٹیفکیشن مکمل کی اور اسے بل گیٹس نے امریکہ بلا کر شاباش دی۔ یہ پاکستان کے لئے ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ لاہور فیروزپور روڈ پر سترہ منزلہ پرشکوہ عمارت کو ارفع کریم سافٹ ویئر پارک کا نام دیا گیا۔ اس بچی نے ملک کے ہزاروں لاکھوں بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے کی راہ کھول دی۔ ارفع کریم نے پاکستان کو پوری دنیا میں عزت بھی بخشی اور نام بھی دیا۔ اسی ارفع ٹاور میں پی آئی ٹی بی کے تحت بعد ازاں پلان نائن کے نام سے ایک انکوبیشن سنٹر قائم ہوا جہاں ارفع کریم جیسی لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے ٹیکنالوجی میں اپنا نام بنانے کے مواقع دینے کا آغاز کیا گیا۔ آج تک ایک سو ساٹھ سے زائد گروپس یہاں سے اپنی کامیاب کمپنیاں بنا کر دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اس سلسلے کو ملک بھر میں پھیلانے کا راستہ کھولا ہے۔ اب ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی بہانہ نہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی اچھوتا آئیڈیا ہے‘ اس آئیڈیا سے معاشرے کے کسی حصے کسی طبقے کی کوئی مشکل حل ہو سکتی ہے‘ کسی کام کی لاگت اور اخراجات کم کئے جا سکتے ہیں‘ لوگوں کو گھر بیٹھے کوئی سستی او ر نئی سروس مل سکتی ہے اور اس منصوبے سے ہزاروں افراد کو روزگار مل سکتا ہے تو وہ لاہور میں پلان نائن یا اسلام آباد میں نیشنل انکوبیشن سنٹر جا سکتے ہیں۔ اس کیلئے ان سے کوئی فیس لی جائے گی نہ ہی سفارش مانگی جائے گی بلکہ انہیں اپنا آئیڈیا تجربہ کار آئی ٹی ماہرین کے سامنے رکھنا ہو گا جو اسے پرکھیں گے اور قابل عمل ہونے پر انہیں چھ ماہ یا ایک سال کی مفت تربیت اور جگہ تک دیں گے جس کے بعد نوجوانوں کے لئے ستاروں پر کمند ڈالنا بھی ممکن ہو جائے گا۔ اب یہ ہمارے نوجوانوں پر ہے وہ خود کو منوانے اور اپنے اور ملکی معاشی حالات بہتر کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔