جب سے سکول نے آن لائن ایجوکیشن شروع کی ہے گھر میں سکون ہو گیا ہے۔ زندگی قدرے معمول کی طرف واپس آ رہی ہے ورنہ بچوں‘ جو کورونا کی وجہ سے گھروں میں قید تھے‘ کی ساری روٹین بگڑ چکی تھی۔ باہر آنا جانا بند تھا۔ پارکس‘ رشتہ دار‘ شاپنگ مالز ہر جگہ جانے پر پابندی تھی۔ ایسے میں بچے‘ جو باہر کھیل کود کے عادی ہوتے ہیں‘ چڑچڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر جھگڑنا معمول بن جاتا ہے۔ ویسے بھی جب گھر میں ایک ہی شکلیں روز دیکھنے کو ملیں تو انسان بعض اوقات اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ پھر رمضان میں بچے ساری رات جاگتے اور صبح سوتے تھے۔ دوپہر کو بارہ ایک بجے اٹھتے بلکہ اٹھتے اٹھتے دوپہر بھی گزار دیتے۔ پھر افطاری کا اہتمام ہونے لگتا۔ اس کے بعد گھر میں تراویح ہوتی۔ چونکہ میرے بیٹے نے حفظ کیا ہوا ہے اس لئے مسجد میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ گھر میں سکون سے تراویح ادا کی۔ رمضان میں مشہور ڈرامہ سیریز ارتغل غازی کا بھی بڑا چرچا تھا‘ بچوں نے وہ بھی دیکھنی شروع کر دی۔ یہ روٹین مگر عید کے بعد برقرار نہ رہی کیونکہ ان کے سکول نے آن لائن کلاسز کا شیڈول جاری کر دیا جس کے مطابق انہیں صبح آٹھ بجے پہلی کلاس لینا ہوتی ہے۔ یہ کلاسیں براہ راست ویڈیو لیکچرز پر مشتمل تھیں۔ صبح صبح تمام بچے اپنے اپنے گھروں سے آن لائن ہو جاتے۔ ٹیچرز سکرین شیئر کرکے انہیں کچھ نہ کچھ سمجھا دیتیں۔ بچوں سے سوالات بھی ہوتے اور انہیں گھر کیلئے کام بھی مل جاتا جو انہیں کرکے آن لائن جمع بھی کرانا ہوتا تھا۔ اس ساری ایکسرسائز کے کئی فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ بچے صبح وقت پر اٹھنے اور رات کو سونے لگے۔ ان کا تعلیمی سلسلہ بحال ہوا اور تیسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ یہ ٹیکنالوجی کا بہت سارا استعمال سیکھ گئے۔ ممکن ہے اگر کورونا نہ آتا تو وہ یہ سب کئی سال بعد سیکھتے اور وہ بھی جزوی طور پر۔ اب چونکہ انہیں مکمل آن لائن تعلیم پر ہی انحصار کرنا تھا‘ اس لئے وہ تمام ٹولز اور سافٹ ویئر انہیں ازبر ہو گئے جن کے ذریعے آن لائن ایجوکیشن لی جاتی ہے۔ ویسے مجھے تو یہ سلسلہ روایتی تعلیم سے زیادہ بہتر لگا ہے۔ اس میں بچوں کا کام نہ صرف اچھے انداز میں مانیٹر ہوتا ہے بلکہ آن لائن محفوظ بھی رہتا ہے۔ بچے کبھی بھی پیچھے جاکر اپنا کوئی بھی ہوم ورک یا کلاس لیکچر دیکھ سکتے ہیں۔ روایتی ذریعۂ تعلیم میں استاد باری باری کاپیاں چیک کرتے ہیں اور بچے وہ کاپیاں بستوں میں ڈال کر گھر لے آتے ہیں۔ بعض اوقات کاپیاں پانی گرنے سے ضائع ہو جاتی ہیں یا گم ہو جاتی ہیں تو بچوں کو بہت افسوس ہوتا ہے اور مشکل درپیش ہوتی ہے۔ اس کے برعکس آن لائن ایجوکیشن میں تمام ریکارڈ کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ آن لائن سپیس میں بھی محفوظ رہتا ہے اور بچے کبھی بھی کہیں سے بھی انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک کیلئے مگر ایسے نظام تعلیم کو مکمل طور پر اپنانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ موجود نہیں اور بعض جگہوں پر انتہائی سست ہے۔ پھر غربت بھی بہت ہے اور ہر گھر میں ہر بچے کو الگ الگ کمپیوٹر لیکر دینا ہر والدین کے بس کی بات نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ سوچنا ہی چھوڑ دیں کہ ہمارے ہاں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ تعلیم اور طلبا کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بالخصوص پاکستان جیسے ملک جہاں کی باسٹھ فیصد آبادی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہو وہاں انہیں نظر انداز کرنا ملک و ملت کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ پوری دنیا کو دیکھ لیں اب کہیں بھی تیل یا دیگرمعدنی ذخائر پر مبنی ملک ترقی میں پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔ ان کی جگہ نالج اکانوی نے لے لی ہے۔ سنگاپور کراچی سے آدھا ہے لیکن اس کی چار سو ارب ڈالر کی برآمدات پاکستان سے چودہ گنا زیادہ ہیں۔ وہاں لوگوں کے دماغوں پر انویسٹ کیا جاتا ہے۔ آپ دبئی کو دیکھ لیں۔ وہاں سیاحت کے حوالے سے بڑا کام ہوا۔ ایک صحرا کو پوری دنیا کیلئے چکا چوند معاشی مرکز بنایا گیا‘ لیکن کورونا کی وجہ سے اب وہاں بھی خاموشی ہے۔ کاروبار سمٹ رہے ہیں اور درجنوں عرب ممالک سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس ٹیکنالوجی پر مبنی جتنی بھی چیزیں اور خدمات تھیں‘ انہیں کورونا کے دنوں میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ملی ہے۔ ان کی ترقی کی رفتار پہلے بھی تیز تھی لیکن اب تو یہ دنیا کی روایتی مشروب ساز‘ گاڑیوں اور کپڑوں کے مہنگے برانڈز اور کمپنیوں کو کہیں پیچھے پچھاڑ چکی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ترقی میں زیادہ ہاتھ بائیس سے چالیس سال کے عمر کے نوجوانوں کا ہے کہ ٹیکنالوجی کو وہ جلدی سمجھ جاتے ہی اور نئے نئے آئیڈیاز بھی سامنے لاتے ہیں۔ اسی لئے گوگل جیسی کمپنیاں اب بندے رکھتے وقت ان کی ڈگریاں دیکھنا زیادہ ضرورت نہیں سمجھتیں بلکہ ان کی سکلز‘ ان کے کام کے جذبے اور آئیڈیاز پر انہیں نوکری دی جاتی ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ اچھوتا آئیڈیا ہے اسے اتنی ہی اچھی جاب ملتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہے تو اس کا جواب ہمارے بجٹ سے ظاہر ہو جاتا ہے۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلانے کیلئے اپنا پیٹ کاٹ دیتے ہیں‘ اپنے دیگر اخراجات کم کر لیتے ہیں‘ نئے کپڑوں اور چمکیلی گاڑیوں کی بجائے بچوں کی کتابوں اور کمپیوٹروں پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ملک میں بھی بچوں اور نوجوانوں جیسے قیمتی اثاثے کی تعلیم اور پھر صحت پر سب سے زیادہ خرچ کیا جائے کیونکہ کل کو انہی بچوں نے بڑے ہو کر اکانومی کا حصہ بننا اور ملک کو چلانا ہے۔ مگر جتنا بجٹ ہر سال تعلیم پر مختص کیا جاتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتا ہے۔ اس سے ڈنگ ٹپائو کام تو چل جاتا ہے لیکن جس طرح کی ایجوکیشن نئی نسل کو درکار ہے وہ حاصل نہیں ہوتی۔ ہمارے نصاب میں آج بھی ایسی چیزیں پڑھائی جا رہی ہیں جن کا آج کی عملی زندگی سے دور کا تعلق نہیں‘ حتیٰ کہ کمپیوٹر کی کتابوں میں ہی ایسے ایسے ابواب ہیں جن کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس سال جو سافٹ ویئر ہم استعمال کررہے ہیں وہ اگلے سال بھی ہوں۔ اس لئے بچوں اور نوجوانوں کو بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔
اگر حکومت ہر گھر کیلئے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے سلوگن پر عمل کرے اور اسے ایک تحریک کی شکل دے دے تو چند برسوں میں ہمیں بہترین نتائج ملیں گے۔ مقامی سطح پر کمپیوٹرز کی تیاری کرنے سے ناصرف مقامی سطح پر روزگار ملے گا بلکہ سستی اشیا بھی میسر ہوں گی۔ اسی طرح انٹرنیٹ کمپنیوں کی تعداد بڑھانے اور حکومت کی جانب سے انہیں ریبیٹ دینے سے بھی انٹرنیٹ سب کی پہنچ میں آجائے گا۔ ہرگھر میں ایک کمپیوٹر بھی پہنچ جائے تو پاکستان کی باسٹھ فیصد نوجوان آبادی آن لائن ہو کر دنیا سے جڑجائے گی۔ یہ باسٹھ فیصدآبادی بارہ کروڑ سے اوپر بنتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر ان بارہ کروڑمیں سے ہر سال صرف ایک فیصد نوجوان بھی غیرمعمولی کارکردگی دکھائیں تو یہ بارہ لاکھ نوجوان پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ گوگل دوطالب علموں نے بنایا تھا۔ آج یہ دنیا کی اکانومی ہی نہیں بلکہ دنیا کا لائف سٹائل بھی متعین کر رہا ہے۔ لوگ ہر کام ہر چیز کیلئے گوگل استعمال کرتے ہیں اور بدلے میں گوگل نہ صرف اربوں ڈالر کما رہا ہے بلکہ لاکھوں کروڑوں نوکریاں بھی دے رہا ہے۔ یہ انوویشن کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے نوجوان ایسے ہیرے موجود ہیں جنہیں اگر موقع ملے تو وہ بہت کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں۔ اب سب کچھ آن لائن ہورہا ہے جیسا کہ آن لائن کاروبار‘ آن لائن ایجوکیشن اور آن لائن گورننس توپھر ہمیں بھی اپنی پالیسی کو اسی انداز سے ترتیب دینا ہوگا تاکہ ہمارے ملک کا قیمتی ترین اثاثہ ہمارے بچے‘ ہمارے نوجوان ضائع ہونے سے بچ جائیں۔