''بچپن کی بات ہے، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک پُرخطر پہاڑی سلسلہ ہے، میں پہاڑوں کے درمیان چلا جا رہا ہوں، چلتے چلتے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچتا ہوں۔ نیچے کھائی ہے، میرے ہاتھ میں کتابیں ہیں، میں پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں، اچانک پائوں پھسلتا ہے اور میں گہری کھائی میں گرنے لگتا ہوں، میں ایک ہاتھ میں مضبوطی سے کتابیں پکڑے رکھتا ہوں اور دوسرے ہاتھ سے چٹان، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں نے کتابیں پکڑے رکھیں تو میں کھائی میں گر جائوں گا لیکن میں کتابیں نہیں گراتا۔ اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ ویسے تو یہ خواب تھا لیکن یہ حقیقت بھی ہے۔ میں جو معاشی طور پر کمزور‘ والدین کے سائے سے محروم‘ زندگی کے پُرخطر اور سخت راستے پر تنہا تھا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میرا آسرا تعلیم کو بنایا اور میں زندگی کے پہاڑ کو عبور کر سکا۔ میں جب سوچتا ہوں تو میرا یقین اس اعلیٰ ترین ذات پر مزید گہرا ہو جاتا ہے جس نے بے وسیلہ بچے کو اپنی رحمت کا وسیلہ دے کر ہمیشہ سرخرو کیا۔ اس نے مجھے خواب دکھلا کر پختہ کیا کہ مجھے موت کی گہری کھائی سے بچنا ہے تو تعلیم کا سہارا پکڑنا ہو گا اور یہ پیغام سب کیلئے ہے کہ اپنے یقین کو پختہ کریں اور اپنے رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں‘‘۔
یہ واقعہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی خودنوشت 'ارشاد نامہ‘ میں بیان کیا ہے۔ یقینا ان کی کامیابیوں میں ان کی شخصیت کا بہت بڑا حصہ تھا اور ان کی شخصیت یقین‘ اعتماد اور خدا پر مضبوط ایمان سے مزین تھی۔ جسٹس ارشاد حسن خان نے کتابوں کی دکان میں ایک معاون سے لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا سفر انہی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے باعث طے کیا وگرنہ ان کے پاس نہ سفارش تھی نہ دولت۔ وہ علم اور یقین کا ہتھیار لے کر نکلے تھے اور انہی کے ذریعے ہر منزل طے کرتے گئے۔ نو برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے تھے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ترقی و کامیابی کے حصول کیلئے چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ بچپن میں ہی انہوں نے محلے کے چند بچوں کو جمع کیا اور ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ اس سے انہیں دو فائدے ہوتے۔ ایک تو یہ کہ کچھ پیسے جمع ہو جاتے اور دوسرا انہیں اپنا سبق ازبر ہو جاتا۔ تدریس کے باعث دیگر بچوں کی نسبت اعتماد بھی جلد پیدا ہو گیا۔ تعلیم کے دوران وہ اپنے بھائی اورنگزیب کی فرنیچر کی دکان پر بھی بیٹھا کرتے تھے۔ اصول پسندی سے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ''ہم نے ایک سرکاری محکمہ کو فرنیچر سپلائی کیا۔ عید کے دن قریب تھے۔ بھائی جان نے میری ڈیوٹی لگائی کہ بل وصول کر کے لائوں۔ عید کے موقع پر فرنیچر بنانے والے کاریگروں کو ان کے معاوضے کے ساتھ ایڈوانس بھی دینا ہوتا تھا۔ پھر گھر کے اخراجات اور عید کے اخراجات۔ خیر بل کی وصولی کیلئے اے جی آفس پہنچا اور متعلقہ برانچ سے بل کا تقاضا کیا۔ کلرک نے ٹال مٹول کے بعد سو روپے رشوت کا مطالبہ کر دیا۔ میں نے رشوت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ پھر بھی نہ مانا تو میں اس کے افسر سے جا کر ملا اور شکایت کر دی۔ افسر نے کلرک کو بلایا تو اس نے رشوت کا الزام مسترد کر دیا۔ افسر نے اس سے چیک منگوا کر مجھے دے دیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور بھاگم بھاگ بینک پہنچا۔ بینک بند ہو چکا تھا؛ تاہم میں نے منیجر سے بات کی اور انہیں کہا کہ اگر چیک کیش نہ ہوا تو نہ صرف خاندان بلکہ غریب کاریگروں کے لئے بھی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے چیک لے لیا مگر کلرک نے جان بوجھ کر چیک کا فولیو نمبر غلط لکھا تھا۔ صرف اپنی سو روپے رشوت کیلئے اس نے کئی خاندانوں کی عید ویران کر دی تھی۔ اب صبر کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ خیر جیسے تیسے عید نکالی۔ عید کے بعد دوبارہ اس افسر کے پاس جا پہنچا۔ افسر نے اس کی سرزنش کی تو اس نے چیک ٹھیک کر دیا کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ میں بھی اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ میں بچپن سے ہی سیکھ چکا تھا کہ ہمیں راست قدم ہی اٹھانا چاہیے۔ اس میں کچھ مشکلات آئیں گی ‘ سختیاں جھیلنا پڑیں گی لیکن برائی کے شریک بننے سے یہ تکلیف بہرحال بہتر ہے‘‘۔
کہتے ہیں کسی کامیاب انسان کی زندگی دیکھنی ہو تو اس کا بچپن ضرور دیکھیں۔ خاص طور پر سکول سے لے کر کالج تک کی زندگی میں انسان کے باقی ماندہ ایام اور اس کی قسمت کا عکس نظر آ جاتا ہے۔ جسٹس صاحب نے پڑھائی کے ساتھ شخصیت سازی پر بھی برابر توجہ دی۔ قائداعظم کے ساتھ انہیں جنون کی حد تک عشق تھا۔ وہ ان کی طرح بہترین وکیل بننا چاہتے تھے۔کالج لائف میں وہ ہمیشہ فرسٹ کلاس لوگوں کی طرح سوچتے۔ بہترین سوٹ پہنتے‘خوشبو لگاتے۔ کوٹ پر گلاب کا پھول ٹانکتے۔ ان کا رومال‘ عینک اور تراش خراش دیکھنے والے کو باور کراتے کہ ان کا کسی اونچے اور امیر گھرانے سے تعلق ہے۔ گفتگو میں انہیں کمال مہارت حاصل تھی جس میں تحکم کا عنصر بھی ہوتا‘ جس سے ان کی شخصیت مزید مستحکم اور باوقار دکھائی دیتی۔ ہر روز وہ ایک تازہ پھول کوٹ پر لگا کر کالج پہنچتے۔ ان کے کلاس والے ان سے پوچھتے کہ یہ تازہ پھول کہاں لاتے ہو تو وہ کہتے ہمارے پائیں باغ میں بے شمار پھولوں کے پودے ہیں‘ یہ پھول اسی باغ کے ہیں۔ یہ پائیں باغ وہ لارنس گارڈن کو کہتے جہاں وہ ہر شام سیر کیلئے جاتے۔ واک بھی کرتے اور تازہ پھول بھی چن لیتے۔
کہتے ہیں اگر آپ نے امیر اور کامیاب انسان بننا ہے تو پہلا قدم فوری اٹھائیں اور وہ قدم یہ ہے کہ آپ امیر اور کامیاب لوگوں کی طرح سوچنا‘ بولنا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ کھانا‘ پینا‘ چلنا‘ پھرنا اور پہننا شروع کر دیں۔ آپ اپنی وضع قطع امیروں والی بنا لیں۔ دوسرا کام مطالعہ ہے۔ کامیاب لوگ کتابیں ضرور پڑھتے ہیں۔ وہ چار لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو ان کی گفتگو سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کتنے باعلم ہیں‘ یوں محفل کی جان بن جاتے ہیں۔ جسٹس ارشاد حسن نے بھی ہر چیز کو بغور دیکھنا شروع کر دیا۔ بڑے لوگ کس طرح مشکلا ت کا سامنا کرتے ہیں اور اگر مجھے مشکل پیش آئی تو میں کیا کروں گا‘ ان سب جزئیات پر وہ غور کرتے۔ اس وقت آڈیو ٹیپ ریکارڈر ہوتے تھے۔ وہ اپنی گفتگو‘ اپنی تقاریر ریکارڈ کرتے اور سن کر ان کا جائزہ لیتے۔ اس طرح وہ خود کو پالش کرکے اپنی شخصیت کو نکھارتے رہتے۔ ایک اور اہم بات انہوں نے بتائی کہ آپ علم کے بنیادی اصولوں کو اچھی طرح سمجھ لیں‘ آپ ہر میدان میں ماہر نہیں بن سکتے‘ آپ نے جو شعبہ منتخب کرنا ہے اسی پر توجہ دیں‘ ہر جگہ ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مغل بادشاہ بابر کی ایک شاندار حکایت بتاتے ہیں کہ بادشاہ کے دربار میں ایک شخص کو لایا گیا جو سوئی کو زمین میں گاڑ کر ڈیڑھ دو گز کے فاصلے سے دوسری سوئی پھینکتا جو پہلی سوئی کے ناکے میں جا کر پھنستی۔ بادشاہ نے اس کا فن دیکھا تو بڑا متاثر ہوا اور اسے پہلے انعام و کرام دیا اور پھر کوڑے لگوائے۔ اس شخص نے اس عجیب فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا تو بادشاہ بولا: اس کام میں تم نے اتنی مہارت پیدا کر لی ہے‘ اس کا تمہیں انعام دیا گیا لیکن اتنی فضول چیز میں مہارت پیدا کی کہ جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ ایسی ہی فضول اور بے کار چیزوں میں مہارت حاصل کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں اسی لئے تمہیں کوڑے مارے گئے ہیں۔
یہ حکایت پڑھ کر میں نے سوچا آج کل تو اس سے بھی زیادہ عجیب مقابلے چل رہے ہیں۔ ماتھے سے ٹکریں مار کر میز پر پڑے اخروٹ توڑنے‘ سب سے بڑا کیک بنانے‘ مونچھوں سے ٹریکٹر کھینچنے‘ حتیٰ کہ لمبی لمبی ڈینگیں مارنے کے مقابلے! کیا بہتر نہیں کہ اس کے بجائے علم کے حصول اور شخصیت سازی کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ہماری نئی نسل سے جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگ نکلیں جن کا آئیڈیل تخیلاتی کردار نہیں بلکہ نبی اکرمﷺ‘ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒجیسی شخصیات تھیں جن سے محبت کے باعث ان کا یقین‘ اعتماد اور ایمان مضبوط ہوا اور وہ کامیابی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔