سادگی میں حسن ہے‘ ہم اس بات کو جانتے اور مانتے بھی ہیں لیکن بات عمل کرنے کی ہے۔ شکر ہے کہ ماضی کی حکومت کی طرح آج وہ مناظر نظر نہیں آتے کہ جن میں فضول خرچی‘ دکھاوے اور عیاشیوں کی داستانیں رقم کی جاتی تھیں۔ بیرونی ممالک میں سرکاری طور پر وزیراعظم مدعو ہوتے تھے لیکن ان کے ساتھ تین تین سو لوگوں کا قافلہ جاتا تھا۔ ان کے ویزے‘ ٹکٹس‘ رہائش‘ کھانے اور دیگر سفری اخراجات عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے بھرے جاتے تھے۔ ان میں وزیر‘ مشیر‘ سیکرٹری اور دوست‘ رشتہ دار سمیت پتا نہیں کون کون شامل ہوتا تھا۔ ایسے لوگ بھی جن کا دورے سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ غضب کرپشن کی عجب کہانیاں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا تھا کہ ایک ایسا ملک جو اربوں روپے کا مقروض ہے‘ اس کے حکمران اس کی پروا کیے بغیر سرکار کا خزانہ 'لوٹ کا مال‘ سمجھ کر اڑا رہے ہیں۔ پھر سابق ادوار میں ایسے سرکاری ریسٹ ہائوسز کی وڈیوز بھی آئیں جن میں باتھ روم کے سامان تک میں سونے کی پلیٹیں استعمال کی گئی تھیں۔ ایک دروازہ جو دس ہزار میں بھی اچھا بن جاتا ہے‘ کو آرائشی بناتے ہوئے اس پر ایک ایک لاکھ روپے خرچ دیے گئے۔ پھر دوستوں‘ یاروں کو نوازنے کی جو ریت ڈالی گئی تھی اس نے تو بیڑہ ہی غرق کر دیا تھا۔ ہر کوئی اپنے جاننے والوں کو اس بہتی گنگا میں غوطے کھانے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ ایک عام سرکاری ریسٹ ہائوس سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک کے اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ صدارتی محلوں کو شادی ہالز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آج بھی انٹرنیٹ پر وہ تصاویر اور وڈیوز وغیرہ مل جائیں گی جن میں سابق وزیراعظم کی خواہش پر ان کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجنوں کھانے خصوصی طور پر مری منگوائے گئے۔ پھر امریکا کے دوروں میں خصوصی شیف ساتھ لے جائے گئے تاکہ وہ من چاہے کھانے بنا کر دیں۔ اس ملک کو اگر تباہ کیا ہے تو اس طرح کی عیاشیوں نے تباہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب کراچی میں قطاروں میں آٹا لینے کیلئے کھڑی درجنوں خواتین بھگدڑ مچنے سے جاں بحق ہو گئی تھیں۔ اس وقت زخموں پر یہ نمک چھڑکا جا رہا تھا جب والٹن کے قریب ایک خاتون اپنے دو بچوں سمیت ٹرین کے آگے اس لئے کودگئی کہ اس کے پاس بچوں کی فیس اور کھانے کے پیسے نہیں تھے۔
یہ ساری خبریں حکمرانوں تک پہنچتی تھیں‘ انہیں سب علم تھا کہ اس ملک میں ساٹھ‘ ستر فیصد طبقہ بجلی کا بل اور دو وقت کی روٹی افورڈ نہیں کر پا رہا‘ وہ یہ جانتے تھے کہ ہر سال بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سالانہ لاکھوں نوجوان اپنی ڈگریاں لے کر جوتے گھساتے پھرتے ہیں، پھر بھی انہوں نے قوم کی حالت پر رحم کرنا گوارا نہ کیا۔ وہ دور ختم ہوا تو لگا گویا ہم کسی شہنشاہی دور سے آزاد ہو گئے ہوں۔ ہم جس دور کو جمہوری سمجھتے رہے‘ وہ بادشاہت کا دور تھا جس میں بادشاہ اپنی عمر پوری کرتا اور اس کے بعد شہزادے‘ شہزادیاں اپنی اپنی باریاں لیتے ہیں۔ وہ اپنی رعایا کا احترام کرنا یا ان کے دکھ کا مداوا کرنا تو دور کی بات‘ انہیں اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ماڈل ٹائون سانحہ اس کی بدترین مثال تھی کہ جس میں رکاوٹیں ہٹانے جیسے معمولی مسئلے پر درجنوں شہریوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ اس دور میں ہم اپنے بچوں سے شرمندگی سے نظریں نہیں ملا پاتے تھے کہ انہیں اپنے حکمرانوں کے بارے میں کیا بتائیں کہ سب کچھ تو وہ خود ٹی وی پر دیکھ رہے تھے۔ کیمپ آفسز کے نام پر درجنوں دفاتر سابق وزیراعلیٰ نے بنا رکھے تھے۔ یہ صرف دفاتر نہیں تھے بلکہ سینکڑوں افراد کے عملے پر مشتمل اچھا خاصا کنبہ بھی تھا اور اخراجات کا سارا بوجھ عوام پر پڑتا تھا۔ ہماری قوم کو زیادہ تکلیف اس بات پر نہیں ہوتی کہ ہمارا ملک مقروض کیوں ہے‘ ہم دنیا میں پیچھے کیوں ہیں اور پسماندگی کب تک ہمارا مقدر بنی رہے گی بلکہ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ جب ہمارا بجٹ خسارے میں ہے‘ جب ہماری برآمدات درآمدات سے کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں‘ جب ہم دنیا میں ان ممالک سے کہیں پیچھے ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے اور جدید ممالک کی فہرست میں آ گئے‘ اتنی تنزلی اور گراوٹ کے بعد بھی ہمارے چلن کیوں ٹھیک نہیں ہو رہے‘ ہمارے حکمران خلیجی ممالک کے شہزادوں اور یورپ اور امریکا جیسے ممالک سے زیادہ عیاشیاں کیونکر کر رہے ہیں۔ رنج اس بات کا نہیں تھا کہ ہم پیچھے کیوں ہیں‘ افسوس اس بات پر ہوتا تھا کہ پیچھے بھی ہیں اور آگے جانا بھی نہیں چاہتے۔ خود نمائی کے شوق سے صرف عوام کا ٹیکسوں میں دیا گیا پیسہ ہی ضائع نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر اس دل پر چوٹ لگتی تھی جو صبح سے شام تک محنت کر کے دو وقت کی روٹی کماتا تھا اور اس میں سے بھی حکومت کو ٹیکس ادا کرتا تھا لیکن اسے اِس کے بدلے نہ حقوق ملتے تھے اور نہ ہی ملک کی حالت بدلتی تھی۔ حکمرانوں اور ان کے شہزادے‘ شہزادیوں کو دیکھ کر گمان ہوتا تھا جیسے ہمارے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں‘ ہمارے حکمرانوں کے پاس ایکسپورٹس بڑھنے سے اتنا پیسہ آ گیا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اسے لگائیں کہاں۔
پھر ایک دن لندن فلیٹس سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ پیسہ تو اس ملک میں بہت تھالیکن یہ عوام پر نہیں لگتا تھا بلکہ اس سے صرف مخصوص اشرافیہ کے اثاثے خریدے جاتے تھے اور عوام کو لالی پاپ پر ٹرخا دیا جاتا تھا۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو معلوم ہوا کہ وزیراعظم ہائوس میں کئی ہیلی کاپٹرز‘ آٹھ بھینسیں اور 102 لگژری گاڑیاں زیر استعمال رہی ہیں جن کی بعد میں نیلامی کر دی گئی۔ اس حوالے سے دو سال قبل سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کا بھی کافی چرچا رہا جس میں بتایا گیا تھا کہ تھر میں ہر سال پانچ سو کے لگ بھگ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم کی سکیورٹی پر سوا چار ارب روپے خرچ کئے گئے۔ ایک سابق صدر جو دو ہزار تیرہ میں عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے‘ اگلے پانچ سال کے دوران بھی وہ ملک و قوم کے لئے خاصے بھاری رہے اور ان پر سرکاری خزانے سے ساڑھے تین ارب روپے خرچ کئے گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے آتے ہی سادگی کی مہم چلائی اور اس کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کر دیا۔ تمام محکموں میں اضافی گاڑیاں اور غیرضروری اخراجات ختم کر دیے گئے۔ ایک خبر کے مطابق‘ وزیراعظم ہائوس میں آپریشنل اخراجات 21 کروڑ سے کم کر کے ساڑھے چار کروڑ تک لائے گئے۔ ماضی میں انٹرٹینمنٹ اور گفٹس کے نام پر کم از کم پندرہ لاکھ روپے رکھے جاتے تھے مگر اب ایک ہزار روپے خرچ کئے گئے‘ وہ بھی اس لئے کہ اکائونٹ کو ایکٹو رکھا جا سکے۔ اسی طرح سفر اور ٹرانسپورٹ‘ باغات کی تزئین و آرائش اور دیگر جگہوں پر پیسے بچائے گئے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اس سے کتنے پیسوں کی بچت ہوئی‘ اصل بات یہ ہے کہ اس عمل سے عوام کو یہ پیغام پہنچا کہ ان کی ایک ایک پائی کو دیکھ بھال کر خرچ کیا جا رہا ہے اور لوٹ کا مال سمجھ کر نہیں اڑایا جا رہا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی ہوتا ہے۔
یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اقدام ہیں لیکن ان کا اثر بہت وسیع اور دیرپا ہے۔ جب کسی ملک کا حکمران فضول خرچی کے بجائے دیانت داری اور سمجھ بوجھ کے ساتھ حکومت چلائے اور بے جا اصراف سے بچے تو اس کے اثرات ٹریکل ڈائون کرتے ہوئے نیچے تک آتے ہیں۔ ماضی میں جب چھوٹا موٹا بندہ کرپشن کرتے ہوئے پکڑا جاتا تھا تو یہی کہتا تھا اوپر بھی تو یہی ہو رہا ہے‘ میں نے کچھ غلط کر لیا تو کیا برا کیا۔ اسی طرح اصراف اور عیاشیاں اگر اوپر کی سطح پر ہو رہی ہوں گی تو نیچے تک اس کا اثر جائے گا اور لوگوں کو یہ کہنے کا بہانہ مل جائے گا کہ جب حکمران باز نہیں آتے تو ہم کیوں موقع ضائع کریں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی کی طرح بڑے بڑے قافلے بیرونِ ملک دوروں پر نہیں جاتے۔ اسی طرح دکھاوے کی تقریبات وغیرہ بھی منعقد نہیں کرائی جاتیں جن سے بہت سا پیسہ بچتا ہے اور لوگوں کو یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اپنائیں اور جتنی ضروریات اور جتنا بجٹ ہے‘ اس کے مطابق ہی خواہشات کو پھیلائیں‘ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔