ہمیں یہ تو علم ہے کہ 28 مئی 1998ء کو چاغی کے مقام پر پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے اور اس وقت کی حکومت نے امریکی دھمکیوں‘ سخت معاشی پابندیوں اور ہر طرح کے لالچ کو ٹھکرا دیا تھا جس کے بعد پاکستان نے ایٹمی کلب میں شمولیت اختیار کر لی اور خطے میں طاقت کا توازن قائم ہونے سے پاکستان ناقابلِ تسخیر ہو گیا تھا لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کن خطرناک مراحل اور دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑا‘ کیسے کیسے مشکل فیصلے کرنا پڑے‘ اس بارے میں کم ہی چیزیں سامنے آئی ہیں اور یہ سب کسی الف لیلہ‘ کسی جادوئی کہانی سے کم نہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے مرکزی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی خودنوشت 'داستانِ عزم‘ میں ایسے بہت سے واقعات سے پردہ اٹھایا ہے جو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل رہے اور جن سے پتا چلتا ہے کہ ایٹمی قوت بننے سے لے کر ایٹمی دھماکے کرنے تک‘ پاکستان کو کن مشکلات سے گزرنا پڑا اور اگر اس دوران کہیں کسی مرحلے پر کسی بھی شخص یا ادارے کی طرف سے ذرا سی بھی بے احتیاطی ہو جاتی تو ایٹمی پروگرام کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔ دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیاں ہمارے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم تھیں اور جدید ترین خفیہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری سرگرمیوں اور خفیہ رازوں کے حصول کی کوشش میںمصروف تھیں۔
ایسے ہی ایک پراسرار واقعے کے بارے میں ڈاکٹر عبدالقدیر لکھتے ہیں:
''یہ واقعہ کہوٹہ میں پیش آیا۔ ہمارے پروجیکٹ کے قیام کے فوراً بعد کورکمانڈر راولپنڈی جنرل فیض علی چشتی (جن کو ضیاء الحق مرشد کہتے تھے) نے ہماری درخواست پر کرنل عبد الرحمن کو ہمارے پاس پوسٹ کر دیا۔ میں نے ان کو ڈائریکٹر سکیورٹی تعینات کر دیا۔ یہ نہایت فرض شناس اور ذہین آفیسر تھے۔ انہوں نے بہت جلد ایک نہایت اچھا سکیورٹی نیٹ ورک قائم کر لیا اور کہوٹہ کے آس پاس بہت سے مخبر چھوڑ دیے جو ہر بھیس میں وہاں گھومتے پھرتے تھے اور ہر چیز پر نگاہ رکھتے تھے۔ انہوں نے قریبی مساجد کے کچھ اماموں اور موذنوں کو بھی اپنے نیٹ ورک میں شامل کر لیا تھا۔ جب تک وہ ڈائریکٹر سکیورٹی رہے‘ ہمارے کام کی کسی کو بھنک بھی نہ پڑی۔ ایک روز ایک مخبر لکڑہارے کے بھیس میں گھوم پھر کر واپس آ کر سڑک کے کنارے ایک چھوٹے‘ چٹان جیسے پتھر پر بیٹھ کر سستانے لگا اور غور سے پتھر کی ساخت کو دیکھنے لگا۔ جب اس نے اسے اپنی کلہاڑی سے ٹھونک کر دیکھا تو اسے کچھ شک ہوا۔ اس نے اس پر کلہاڑی کا ہلکا سا وار کیا جس سے وہ کٹ گیا اور اندر سے کچھ دھات نما (تانبا اور المونیم) نظر آیا۔ اس نے فوراً کرنل عبدالرحمن کو مطلع کیا۔ سکیورٹی والے اس پتھر کو اٹھا کر پلانٹ کے اندر لے گئے اور مجھے اطلاع دی۔ ہم نے اس کا معائنہ کر کے یقین کر لیا کہ اس میں آتش گیر مادہ نہ تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی باہر والی پرت پتھر کی ہے لیکن جیل سے بنائی گئی تھی یا ربر کوکھلا کر کے اور اس پر کہوٹہ کے علاقے کی ریت بہت ہنرمندی سے چپکائی گئی تھی۔
جب احتیاط سے کاٹ کر اس کو علیحدہ کیا گیا تو اندر ایک صندوق نما دھات کا بنا آلہ نظر آیا۔ اس کے دو حصوں کو سکریو سے جوڑا گیا تھا‘ ان کو کھولا تو ڈھکنا علیحدہ ہو گیا اور اندر نہایت پیچیدہ اور حساس آلات نظر آئے۔ ان میں ایک طویل مدت تک کام کرنے والی خشک بیٹری تھی‘ تانبے کی پتلی پلیٹوں کا انٹینا تھا‘ نیوٹران شمار کرنے والی ٹیوبیں تھیں‘ ہوا کی جانچ کرنے والے آلات تھے اور ایک ٹرانسمیٹر تھا جو تمام معلومات سٹور کر کے رکھ لیتا تھا اور جب اس کو کہیں سے حکم ملتا تو وہ تمام معلومات ایک لمحہ میں ٹرانسفر کر سکتا تھا۔ ان آلات کو اس طرح خفیہ رکھا جاتا تھا کہ کوئی الیکٹرانک سرچنگ آلہ ان کو نہ پکڑ سکے۔ باہر کے دھات کے خول میں نہایت باریک سوراخ تھے جو ہوا کو کھینچ کر اس کا معائنہ کر سکتے تھے۔ بیٹری کے اندر مرکری یعنی پارہ کے سوئچ تھے کہ ہر حالت میں سرکٹ قائم رہتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اگر ہماری کوئی گاڑی وہاں سے یورینیم لے کر گزرتی تو یہ آلہ اس کی افزودگی کی فی صد (Percentage) نوٹ کر لیتا اور اگر ہم اس علاقہ میں ہاٹ (یعنی اصلی) یا کولڈ (سسٹم چیک کرنے والا) ٹیسٹ کرتے تو ہوا میں موجود ذرات کو کھینچ کر اس کی تفصیل نکال کر سٹور کر لیتا۔
ہم نے یہ تمام معلومات غلام اسحق خان صاحب اور جنرل ضیاء الحق کو پہنچا دیں۔ انہوں نے آکر اس کا معائنہ کیا اور کرنل عبدالرحمن کے کام کو بے حد سراہا۔ کچھ دن کے بعد امریکی سفیر ڈین ہنٹن جنرل ضیاء الحق سے ملنے آئے اور ایٹمی معاملے پر بات کی۔ جنرل ضیاء نے حسب عادت نہایت نرم گوئی اور انکساری سے کہا کہ ہم ایٹم بم نہیں بنا رہے۔ اس پر ڈین ہنٹن نے کہا جنرل صاحب! ہماری انٹیلی جنس بہت اچھی ہے‘ آپ ناشتے میں جو کھاتے ہیں‘ ہمیں دوپہر تک اس کا علم ہو جاتا ہے‘ ہمیں ہر چیز کی اطلاع ملتی رہے گی۔ اس پر جنرل ضیاء نے مسکرا کر کہا: ایکسیلنسی! اگر آپ کسی پتھر کی مدد سے معلومات پر تکیہ کر کے بیٹھے ہیں تو پھر وہ میرے جوانوں نے اٹھا لیا ہے‘ اسے کھول کر تمام معلومات حاصل کر لی ہیں اور اس کو ناکارہ کر دیا گیا ہے، اب آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ سفیر کا رنگ فق ہوگیا اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کی گئی۔
اس سے پیشتر بھی امریکی ڈیفنس اتاشی نے اقوام متحدہ کے کشمیر جانے والے جہاز میں بیٹھ کر کہوٹہ کی تصاویر بنائی تھیں اور سفیر صاحب وہ تصاویر لے کر ضیاء الحق کے پاس پہنچ گیا تھا اور پوچھنے لگا کہ یہاں آپ کیا کام کرنا چاہتے ہیں؟ اسے ہمارے پروجیکٹ کا بالکل علم نہ تھا۔ ضیاء الحق صاحب نے تصاویر کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور کہا: ایکسیلنسی! آپ سفارت کاری کے آداب کی حدود پامال کر رہے ہیں‘ آئندہ آپ کا یا اقوام متحدہ کا کوئی جہاز وہاں سے گزرا تو میرے علم کے مطابق اس کو مار گرایا جائے گا۔ دوسرے دن یہ آرڈر ہمیں موصول ہو گئے اور ایئر ڈیفنس کو چوکنا کر دیا گیا‘‘۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہوئے لیکن ہماری خفیہ ایجنسیوں نے کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی اور ہمارے حکمرانوں نے اپنے اداروں اور سائنس دانوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایٹم بم بنیادی طور پر خطے کے امن وامان کی ضمانت کے طور پر بنایا گیا تھا نہ کہ کسی اشتعال میں آ کر دوسرے ممالک پر چلانے کے لیے۔ سرحدوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں مگر 1965ء یا 1971ء والی جنگوں کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہی حالت ہے جو روس اور امریکا اور اس کے ساتھیوں کے درمیان پچھلے ساٹھ‘ ستر برسوں سے ہے۔ اگرچہ پاکستان معاشی اعتبار سے دیگر ایٹمی ممالک سے بہت پیچھے ہے لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ کامیابی غیر معمولی تھی کیونکہ معیشت کے ساتھ ساتھ سرحدیں اور سرزمین محفوظ بنانا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ وہ کام جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا اور جس کی تکمیل سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہاتھوں ہوئی‘ اگر یہ نہ ہوتا تو آج ہم نجانے کس حال میں ہوتے۔
بھارت تو ہر موقع پر اس تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو داخلی اور خارجی لحاظ سے کمزور کیا جا سکے۔ جب پاکستان نیوکلیئر پاور بن گیا تو وہ سٹپٹا گیا اور اپنی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرنا شروع کر دیا اور داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان میں امن و امان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ چنانچہ آج ہم جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا وگرنہ بھارت تو ہماری سلامتی کے درپے تھا۔ اس لحاظ سے اٹھائیس مئی کی اہمیت چودہ اگست جیسی ہی ہے کہ چودہ اگست کو پاکستان کو بھارت اور انگریزوں سے آزادی ملی تھی جبکہ اٹھائیس مئی کو پاکستان بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کے خوف سے آزاد ہوا تھا۔