جلسوں میں لوگوں کو لانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔اگر جلسہ حکومتی جماعت کا ہو تو پھر ساری ریاستی مشینری لوگوں کو اکٹھا کرنے پر لگا دی جاتی ہے۔ جماعت کے چھوٹے بڑے عہدیداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقے میں لوگوں تک پیغام پہنچائیں اور ہر صورت جلسہ گاہ بھرنے کی تدبیر کریں۔ اس کے لیے لالچ‘ دھونس‘دھمکی جو بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے وہ کیا جائے۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کے لیے ٹرانسپورٹ مہیا کرنا‘انہیں کرایہ دینا یا موقع پرکھانا یعنی بریانی وغیرہ کا اہتمام بھی پارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس طرح کے الزامات بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں لوگوں کو چند سو سے لے کر پانچ ہزار روپے فی کس دیتی ہیں تاکہ وہ جلسے میں شرکت کر کے اسے کامیاب بنائیں۔ کئی دیہاڑی دار اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے اور کئی فارغ البال بھی اسے وقت کا بہترین مصرف سمجھتے ہیں کہ سیر کی سیر اور تفریح کی تفریح‘ساتھ میں کمائی بھی۔2011ء سے قبل تک روایتی سیاسی جلسے ہوتے تھے۔ ان میں لوگ اکٹھے ہوتے‘ نعرے لگتے‘ قائدین پر پھول نچھاور کیے جاتے‘ تقریریں ہوتیں اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے۔ 2011ء کے بعد جلسے بھی ڈیجیٹل ہو گئے۔ تحریک انصاف کے مینارِ پاکستان پر جلسے نے ایسے لوگوں‘ ایسے طبقات کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا جو اس سے پہلے کبھی ایسی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اس جلسے کی مہم بہت جاندار انداز میں چلائی گئی تھی جس سے لوگوں کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ اس جلسے میں انٹرٹینمنٹ کا بھی اہتمام ہو گا۔ اس جلسے کی اُٹھان اور ایونٹ مینجمنٹ پر بہت پیسہ خرچ کیا گیا جو نظر بھی آ رہا تھا۔ اس کے بعد 2014ء میں اسلام آباد میں دھرنا ہوا تو اس میں تو نئی نئی چیزیں سامنے آگئیں۔ فلمی گانوں یا نوجوان سنگرز کے البمز کی طرز پر پارٹی ترانے لکھے اور گائے گئے اور چونکہ اس جماعت کا فوکس نوجوان تھے‘ اس لیے نوجوانوں کی بڑی تعداداس جانب متوجہ ہو گئی۔ عام طور پر جلسوں میں بہترین سائونڈ سسٹم لگائے جاتے ہیں لیکن یہ محض مائیک اور سپیکر وغیرہ کو آن رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی مگر ایونٹ مینجمنٹ کو نئی بلندیوں پر لے گئی اور جس طرح پارٹیوں اور شادیوں میں ڈی جے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اسے پہلے سے سارے فنکشن کے بار ے میں بتا دیا جاتا ہے‘ جیسے اگر مہندی ہے تو کس وقت کس طرح کا میوزک لگانا ہے‘ دُلہن کو سٹیج پر لاتے وقت کون سا گانا لگانا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ تویہ آئیڈیا پی ٹی آئی نے سیاسی جلسوں کیلئے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پارٹی سربراہ کی مشاورت سے سارا پلان پہلے سے طے کر لیا جاتا اور پارٹی لیڈران ڈی جے کے ساتھ میٹنگ کر کے اسے تقریر کے اہم نکات تک بتا دیتے کہ فلاں صاحب نے آنا ہے تو استقبالیہ ترانہ یا میوزک کون سا ہو گا‘ کس وقت کون سا ترانہ چلانا ہے کون سا نہیں چلانا‘ یہ سب کچھ اب بڑے منظم انداز میں طے کیاجاتا ہے اور اب تو مخالفین کی وڈیوز بھی جلسے میں دکھائی جاتی ہیں۔
ڈرون کیمروں کے آنے کے بعد تو مناظر اور بھی حسین دکھائی دیتے ہیں۔ جلسہ گاہ کی لائٹس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ انہیں اس انداز میں لگایا جائے کہ کیمرے جب جلسے میں شریک لوگوں کو دکھائیں تو دس ہزار لوگ پھیل کر چالیس ہزار نظر آئیں۔ جس طرح ماضی میں لوگ مشعلیں اور شمعیں جلاتے تھے اب لوگوں کو موبائل فون کی ٹارچ جلانے کی ہدایت جاری کی جاتی ہے جس سے یہ منظر ستاروں کے چمکنے جیسا بن کر سامنے آتا ہے جو دیکھنے میں بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح ماضی میں جلسہ گاہ میں خواتین بھی خال خال ہی شریک ہوتی تھیں۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین کی بھرپورشرکت نے بھی نیا ٹرینڈ متعارف کرایا۔ یہ پارٹی کے پرچم چہروں پر پینٹ کراتی ہیں‘ اسی طرح بچوں کو بھی سجا کر لایا جاتا ہے‘ پارٹی گانوں پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیںاور کیمرے ان مناظر کو جب آگے پہنچاتے ہیں تو مزید لوگ جلسہ گاہ کا رخ کرتے ہیں اس لحاظ سے پی ٹی آئی کو لوگوںکو جلسہ گاہ میں لانے کے لیے روایتی زور نہیں لگانا پڑتا جس طرح دیگر پارٹیاں کرتی ہیں۔ ان پارٹیوں کے جلسوں میں آنے والوں کی تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ان کے شرکا زبردستی لائے گئے لگتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کی ان کے چہروں سے تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔
ابھی چند روز قبل لبرٹی چوک لاہور میں مسلم لیگ نواز نے ''یومِ تشکر‘‘ منانے کا اعلان کیا تو چند سو لوگ ہی اکٹھے ہو سکے جبکہ اسی جگہ پی ٹی آئی کال دے تو ہزاروں لوگ ایک گھنٹے میں پہنچ جاتے ہیں۔گزشتہ روز بھی یہی ہوا کہ جیسے ہی عدالت نے چودھری پرویز الٰہی کے حق میں فیصلہ سنایا‘ فوری طور پر لبرٹی چوک پی ٹی آئی کے حامیوں سے بھر گیا۔ میرے نزدیک اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی والے آپس میں سارے سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ گروپس میں پیغام آتے ہیں اور یہ اپنے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ دوسرا‘ انہیں وہاں پر انٹرٹینمنٹ بھی اعلیٰ درجے کی ملتی ہے یعنی پارٹی نغمے‘ ہلا گلا اور بہترین میوزک اورسائونڈ کوالٹی۔ تیسری چیز بیانیہ اور عمران خان کی شخصیت کا کرشمہ ہے۔ پی ٹی آئی کو فری لانس شیدائی مل جاتے ہیں جو مفت میں ان کا کام کرتے ہیں جبکہ مسلم لیگ نوازیا پیپلز پارٹی کے پارٹی ترانے بھی پرانے سٹائل کے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں تو حد ہی ہو گئی کہ جب لاہور میں مسلم لیگ کے جلسے میں مائیکل جیکسن کی نقل کرنے والے ایک مقامی فنکار کو بلایا گیا جس نے کسی ''نامعلوم‘‘ زبان میں غیر مرئی مخلوق جیسی حرکتیں کیں اور جو ''گانا‘‘ گایا اس میں صرف دو الفاظ ''سری لنکا‘‘ اور ''سری پائے‘‘ ہی سمجھ آسکے‘اس کے علاوہ اس گانے میں یا تو چیخیں تھیں یابھوت پریت کی آوازیں۔پیپلزپارٹی اور نون لیگ اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں اور ان کے لیے مرحوم شوکت علی، وارث بیگ یا ایک آدھ اور معروف فنکار پارٹی ترانے گا چکا ہے؛ تاہم پی ٹی آئی نے عطااللہ عیسیٰ خیلوی‘ ابرار الحق‘ سلمان احمد سمیت کئی ٹک ٹاکرز اورسوشل میڈیا انفلونسرز کو بھی اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے اس کے جلسوں کا رنگ یکسر مختلف ہوتا ہے۔
جلسہ گاہ کو بھرنا ہو‘ سوشل میڈیا پر سیاسی جنگ ہو‘ ایک دوسرے کی کردار کشی ہو یا کوئی سیاسی بیانیہ بنا کر اسے لوگوں کے لیے قابلِ قبول بنانا ہو‘ یہ ساری سیاسی جماعتیں بس اسی کام پر لگی ہوئی ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں لوگ کس حال میں ہیں اور اس حال کو کیونکر پہنچے ہیں‘ انہیں بس ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا ہے۔ سیاسی حمام کو دیکھا جائے تو تقریباً سبھی برہنہ ملیں گے کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کے مسائل بیچ کر اُن کے جذبات خریدے جاتے ہیں۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ ظلم و ستم‘ناانصافی ہر دور میں رہی ہے اور ہر سیاسی جماعت ان مسائل کے خاتمے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آتی ہے لیکن جب کچھ نہیں کر پاتی تو کوئی نہ کوئی بیانیہ یا کوئی عذر اور بہانہ تراش کر دوبارہ عوام سے ہمدردیاں سمیٹنا شروع کر دیتی ہے۔ ہر سیاستدان کو اقتدار کی عینک سے کچھ اور نظر آتا ہے اور اپوزیشن کی عینک سے کچھ اور۔ عوام سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں ہمارے پاس اور چوائس کیا ہے۔ نون لیگ‘ پی پی پی کو کئی بار آزمایا‘ پی ٹی آئی رہ گئی تھی اسے بھی ایک موقع دے کر دیکھ لیا گیا۔ کچھ اس کی غلطیاں تھیں کچھ اسے کام بھی کرنے نہیں دیا گیا لیکن اس سارے قضیے میں نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے۔ ڈالر کہا ں جا رہا ہے‘زرمبادلہ کے ذخائر کتنے کم ہو گئے ہیں‘ بیرونی قرضوں کا انبار کتنا بڑھ چکا ہے اور ملکی معیشت کس گہری کھائی میں اوندھے منہ پڑی ہے‘ ان مسائل سے بے نیاز سیاسی جماعتوں کی نظر صرف کرسی ٔ اقتدار پر ہے۔ کاش یہ ہوش کے ناخن لیں‘ مل جل کر بیٹھیں‘ ماضی کو دفن کریں‘صورتِ حال کا ادراک کریں اورملکی معیشت اور سیاسی معاملات کو پٹڑی پر ڈالنے کیلئے آپس میں ایک میثاق کر لیں۔ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے‘ معیشت ہی کو نہ بچایا جا سکا‘ یہ وقت گزر گیا تو پھر سبھی کف ِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔