"ACH" (space) message & send to 7575

اخلاقی انحطاط عروج پر

پوری دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب نے تاریخی تباہی مچائی ہے۔ لاکھوں‘ کروڑوں لوگ سیلاب کی وجہ سے اپنے گھر بار سے محروم ہو چکے ہیں‘ کسی کا باپ‘ کسی کا بیٹا‘ کسی کا بھائی اور کسی کی بہن‘ بیٹی پانی میں بہہ گئی ہے۔ لاکھوں جانور غرق ہو چکے ہیں‘ فصلیں‘ باغات‘ کارخانے سب پانی نے نگل لیے ہیں لیکن یہ سب اگر کسی کو نہیں معلوم تو اس سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو نہیں معلوم جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بے نیاز جلسہ جلسہ کھیلنے اور اقتدار کی کرسی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو اور بات تھی لیکن عمران خان صاحب‘ جوملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں‘ اپنے جلسوں اور بیانات میں اداروں کے حوالے سے مسلسل ایسے بیانات دے رہے ہیں‘ جن کی کوئی توضیح کی جا سکتی ہے نہ تشریح۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب ملک سیلاب کے باعث قحط اور شدید ترین مہنگائی جیسے خطرات سے دوچار ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور کروڑوں لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ ان سب لوگوں کے پاس جینے کا کیا جواز باقی رہ گیا ہے‘ یہ کہاں رہیں گے‘ کہاں سے کھائیں گے؟ نہ ان کے پاس کھانا خریدنے کے پیسے ہیں نہ ہی ان کی نوکریاں یا کاروبار اور رزق کا وسیلہ ان کے جانور ہی باقی بچے ہیں۔ تعلیم جیسی سہولتیں تو بہت دور کی بات‘ اس وقت تو انہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کھڑے پانی کی وجہ سے وبائی امراض نے ان کی جان الگ مشکلات کا شکار بنائی ہوئی ہے۔ کئی علاقوں میں بجلی بھی بحال نہیں ہو سکی۔ بجلی کا ترسیلی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ اس وقت شدید حبس کا موسم ہے۔ ساری رات مچھروں کے حملے جاری رہتے ہیں جن کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کے خدشات بھی کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ کئی لوگ سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں پہلے ہی مہنگائی کی لہر نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اس مہنگائی کے اثرات سے پاکستان کی معیشت بھی بے حال تھی‘ ابھی ڈالر بھی قابو نہیں آ رہا تھا کہ سیلاب نے مشکلات اور تکالیف کا نیا دروازہ کھول دیا ہے۔
گزشتہ دنوں پیاز اور ٹماٹر کی قلت ہوئی تو یہ تین سو‘ چار سو روپے فی کلو سے بھی زیادہ پر جا پہنچے جس پر حکومت نے فوری طور پر ایران اور افغانستان سے پیاز‘ ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دی۔بھارت سے بھی زرعی اجناس درآمد کرنے کا معاملہ زیرِ غور آیا مگر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا؛ تاہم حکومت کے فوری اقدامات کے باعث سبزیوں کی قیمت میں واضح کمی آئی۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والا نقصان اس وقت کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے جس پر تمام قومی اداروں‘ سیاسی جماعتوں‘ نجی اور رفاہی تنظیموں اور اہلِ ثروت حضرات کو مل جل کر کوئی مربوط منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ نہ صرف سیلاب متاثرین جلد از جلد اپنے معمولات کی طرف لوٹ سکیں بلکہ یہ ملک بھی آسودہ حال ہو سکے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو یہ سب مسائل نظر نہیں آ رہے۔ چند گھنٹے کی ٹیلی تھون کر کے سب مطمئن ہو گئے ہیں کہ شاید ہم نے سیلاب زدگان کا حق ادا کر دیا ہے اور ان کے لیے چند ارب اکٹھے کر لیے ہیں۔ابھی تک اس جماعت کو کتنی رقم موصول ہوئی ہے‘ کچھ معلوم نہیں۔ دوسرا‘ جمع شدہ رقم کو ابھی تک بانٹنے کا عمل بھی شروع نہیں کیا جا سکا، صرف اعلانات کی حد تک ہی متاثرین کے ساتھ ہمدردیاں کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین نے سندھ میں سیلاب زدہ سکھر کا دورہ کیا، اس موقع پر ایک شہری نے خان صاحب سے سوال کیا کہ جب سکھر ڈوب رہا تھا تو آپ کہاں تھے؟ مگر خان صاحب اس سوال کو اَن سنا کرکے گاڑی میں سوار ہو کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔ عمران خان صاحب جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اگر ابھی انتخابات ہوتے ہیں تو وہ دو تہائی اکثریت لے لیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہیں زمینی حقائق دکھائی نہیں دے رہے؟ کیا انہیں تین صوبے یا آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ کیا یہ موقع اور یہ حالات انتخابات کرانے کے لیے مناسب ہیں؟ کیا یہ سیلاب متاثرین کے ساتھ کھلا مذاق نہیں کہ وہ تو امداد کے لیے آپ سے امیدیں لگا رہے ہیں اور آپ کو ان حالات میں بھی ان سے ووٹ لینے کی پڑی ہے۔ یہ زندہ رہیں گے تو ہی سیاسی عمل کا حصہ بن پائیں گے، آپ کو ووٹ دیں گے۔ پہلے ان کو بچانے کی کوشش کریں‘ بعد میں ان سے ووٹ بھی مانگ لیجیے گا۔
ستمبر کا مہینہ شروع ہونے پر ہر سال ایک عجیب سماں ہوتا ہے۔ یہ پاک فوج اور پاکستان ایئرفورس کے تاریخی معرکوں کو یاد کرنے کے دن ہوتے ہیں۔ اس موقع پر سرکاری اور نجی سطح پر تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور شہدا اور غازیوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے دفاعِ وطن کے لیے لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی؛ تاہم اس سال سیلاب کے پیشِ نظر پاک فوج نے یومِ دفاع کی سالانہ تقریبات کو بھی ملتوی کر دیا اور پوری توجہ سیلاب متاثرین کو ہر ممکن امداد کی فراہمی میں مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سابق وزیراعظم عمران خان کے جلسے یومِ دفاع کی سالانہ تقریب سے زیادہ ضروری او ر اہم ہیں کہ جنہیں ملتوی نہ کیا جا سکے؟ سیاسی جلسوں میں آج بھی اسی طرح ہلّا گلّا چل رہا ہوتا ہے جیسے ملک میں سیلاب جیسا کوئی سانحہ پیش ہی نہ آیا ہو۔ اب تو خان صاحب ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق انتہائی غیر مناسب بیان دیا ہے جسے انہیں فوری طور پر واپس لینا چاہیے۔ ان کے ایسے بیانات پر بھی ان کا فین کلب نہایت بوگس اور بودے دلائل سے ان کا دفاع کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز صاحبہ نے بھی فلاں وقت میں ایسے ہی تنقید کی تھی۔ دور کی کوڑی لانے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر انہوں نے اس وقت تنقید کی تھی تو تب اس بیان پر منفی ردعمل نہیں آیا تھا؟ کیا اس وقت پی ٹی آئی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے اس بیان کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا تھا؟ کل تک تو آپ خود اُس بیان کو نہایت غیر مناسب قرار دے رہے تھے اور آج اسی کا سہارا لے کر خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقینا وہ بیان بھی غلط تھا اور یہ بھی غلط ہے۔ وہ لوگ جو کچھ کہتے تھے‘ اسے بھگت بھی رہے ہیں۔ آپ اپنا حساب دیں اور اپنا احتساب کریں۔ آپ کے ہر جلسے میں ایک نیا وار کر دیا جاتا ہے۔ کبھی عدلیہ پر‘ کبھی فوج پر اور کبھی کسی اور ریاستی ادارے پر۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب سوشل میڈیا بریگیڈ ملکی اداروں اور شخصیات کو برا بھلا نہ کہتی ہو۔ ضروری ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کے خلاف ٹرینڈ چلانے والوں اور اس طرح کے ٹویٹس اور ری ٹویٹس کرنے والے افراد کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ سائبر کرائم کے اداروں کے لیے انہیں ٹریس کرنا زیادہ مسئلہ نہیں کیونکہ جو شخص بھی سوشل میڈیا پر آتا ہے وہ کسی نہ کسی انٹرنیٹ پروائیڈر (آئی پی)سے منسلک ہوتا ہے اور اس کے آئی پی ایڈریس وغیرہ کے ذریعے اسے ٹریس کیا جاسکتا ہے۔یہ جو بریگیڈ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دشنام طرازی میں مصروف ہے‘ اسے پکڑ کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پہنچانا چاہیے تاکہ وہ متاثرین کی مدد کے کاموں میں شریک ہو سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ موبائل فون یا کمپیوٹر پر فیک آئی ڈیز بنا کر ''حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ لڑنے والوں کو متاثرین کی مدد اور انہیں سیلابی آفت سے آزادی دلانے کیلئے وقف کرنے کی منصوبہ بندی کرے تاکہ یہ لوگ کسی مثبت مقصد میں کام آ سکیں۔ یہ سوشل میڈیائی جنگجو روز بروز انتشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو 'س‘ اور 'ص‘ کا فرق تک معلوم نہیں۔ مگر ''حقیقی آزادی‘‘ کی جنگ یہ ایسے لڑ رہے ہیں جیسے بہت بڑے مفکر ہوں۔ انہیں اتنا بھی احساس نہیں جن ملکی اداروں کے خلاف یہ ٹرینڈز چلاتے ہیں انہی کے باعث تو یہ رات کو سکون سے سو پاتے ہیں لیکن اب یہ سب مزید نہیں چلنے دینا چاہیے۔ اخلاقی انحطاط اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکاہے۔ نئی نسل کو بگاڑنے اور اداروں میں انتشار کے جس منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے‘ اس کو فوری طور پر جڑ سے کاٹنا ہو گا تاکہ وطن عزیز کو کسی نئے سانحے سے دوچار ہونے سے بچایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں