نئی نسل کو ہم کیسا معاشرہ دے کر جا رہے ہیں‘ شاید اس بارے میں کسی کو سوچنے کی فرصت بھی میسر نہیں۔ زندگی اس قدر تیز‘ بے لگام اور بغیر سمت کے چلی جا رہی ہے کہ اس طرح کی باتیں بے معنی معلوم ہوتی ہیں۔ ہم یہاں بیٹھ کر جدید ممالک کی بنی اشیا استعمال کرتے ہیں‘ ان کے معاشروں کی تعریفیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے معاشرے کو بے ہنگم اور بے ترتیب دیکھ کر ہمیں کوفت ہوتی ہے یا ندامت۔ پلاننگ نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود نہیں۔ ہر حکومت اپنے تئیں منصوبے بناتی ہے اوراگلی حکومت کا سب سے پہلا کام پچھلی حکومت کے منصوبوں کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ تو خدا کا کرم ہے کہ کچھ منصوبے ایسے ہیں جو خالص انسانیت کی فلاح اور بھلائی کے لیے بنائے گئے اور مختلف حکومتوں کی کوششوں کے باوجود آج تک چل رہے ہیں جن میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا ''ڈبل ون ڈبل ٹو‘‘ ایمبولینس منصوبہ بھی شامل ہے جو آج سے سترہ‘ اٹھارہ برس قبل شروع کیا گیا تھا اور آج تک کامیابی سے چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں چودھری پرویز الٰہی نے اس منصوبے کا دائرہ تمام اضلاع تک وسیع کر دیا ہے اور اب موٹر سائیکل ایمبولینس سروس بھی شروع ہو چکی ہے جس کے تحت تنگ گلیوں اور گنجان آباد علاقوں میں مریضوں تک فوری پہنچا جا سکتا ہے۔
گزشتہ تین ماہ سے ملک کا بڑا حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ ان علاقوں میں ریسکیو آپریشنز کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب کے دوران کچھ وڈیوز ایسی بھی سامنے آئی ہیں جن میں لوگوں کو پانی میں بے آسرا ڈوبتے دیکھا گیا ہے۔ کئی لوگ چٹانوں‘ درختوں پر جان بچانے کے لیے کئی گھنٹے تک امداد کا انتظار کرتے رہے۔ کئی رسیوں کی مدد سے اپنی مدد آپ کے تحت کنارے تک پہنچ گئے لیکن انسانی جانوں کو بچانے کا کوئی مربوط نظام میسر نہ تھا۔ جدید ممالک کی بات کریں تو وہاں ٹیکنالوجی ہر شعبے میں معاونت کر رہی ہے۔ پانی میں ڈوبتے لوگوں کو بچانے کے لیے ایسی ریموٹ کنٹرول کشتیاں اور ٹیوبیں ایجاد ہو چکی ہیں جن کی مدد سے سیلابی ریلوں میں پھنسے لوگوں کو بہ آسانی بچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال بھی انتہائی سود مند ثابت ہو رہا ہے۔ ڈرون کے ذریعے پانی میں ڈوبے دور دراز علاقوں اور پہاڑوں پر پھنسے لوگوں کو خوراک‘ ادویات اور دیگر سامان سہولت کے ساتھ بروقت پہنچایا جا سکتا ہے۔ ایسی جان بچانے والی بہت سی چیزیں آن لائن بھی دستیاب ہیں اور چین سے فوری طور پر منگوائی بھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی دیگر ملکوں کی طرح قدرتی آفات کا سامنا رہتا ہے۔ اب گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سارا سال موسم کے شدید اثرات سامنے آتے ہیں۔ سموگ‘ تیز بارشیں‘ دھند‘ برف باری‘ سیلاب‘ زلزلے اور آندھیوں میں پہلے سے زیادہ تیزی آ رہی ہے۔ سردیوں کا دورانیہ سمٹ رہا اور گرمیوں کا دراز ہو رہا ہے۔ ان دونوں موسموں کی شدت بھی کافی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح سالانہ بارشوں کی اوسط میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ان آفات کے نقصانات اور بچائو کے لیے قومی سطح پر ریسکیو ریلیف سسٹم وضع کیا جانا چاہیے جو آپس میں مربوط ہو کر کام کرے اور جس کے پاس ہر قسم کے وسائل اور ضروری سامان موجود ہو۔ ہمارے ہاں ایسے ادارے اگر بنتے بھی ہیں تو بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں یا پھر برائے نام چلتے رہتے ہیں۔
ڈینگی دس سال قبل انتہائی شدت کے ساتھ نمودار ہوا تھا لیکن اسے بروقت کنٹرول کر لیا گیا تھا۔ اس سال مگر یہ پھر سے شدت اختیار کر چکا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بے لگام ہو چکا ہے۔ امسال اب تک ڈینگی کے چھتیس ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ سیلاب میں گھرے افراد میں سے کتنے لوگوں کو ڈینگی ہوا ہے‘ اس بارے میں کچھ کہنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ وہاں تک طبی عملے کی رسائی انتہائی محدود ہے۔ کئی علاقوں میں اب بھی پانی کھڑا ہے اور مچھر ڈینگی کے ساتھ ملیریا بھی پھیلا رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں عارضی سکول قائم کرنے کی خبریں بھی دیکھنے کو ملیں لیکن وہاں بنیادی ضروریات ہی ناپید ہیں۔ علم تو تب لوگوں کی ترجیح بنے گا جب پیٹ میں روٹی کے دو لقمے جائیں گے۔ فی الوقت تو لوگوں کو خیموں‘ صاف پانی‘ بیت الخلا‘ ادویات اور خوراک کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر زیادہ تر سیاست کا دور دورہ ہے۔ رہی سہی کسر آڈیو لیکس نے نکال دی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن‘ سب سیاست میں مشغول ہیں۔ ایسے میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے مسائل بڑھنے کا اندیشہ تقویت پا رہا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے وقت بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ شروع شروع میں بڑے جوش و جذبے سے کام ہوا تھا جو آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا۔ امدادی سامان‘ جو بیرونِ ملک سے آیا‘ وہ بھی پشاور اور کراچی کے بازاروں میں فروخت ہوتا دکھائی دیا۔ 'ایرا‘ اور 'سیرا‘ نام سے دو ادارے بھی بنے تھے لیکن یہ بھی متاثرہ افراد اور علاقوں کی خاطر خواہ بحالی نہ کر سکے۔ زلزلے کے دو سال بعد قومی اسمبلی میں بتایا گیا تھا کہ ایرا میں اکتوبر؍ نومبر 2005ء سے 31 جولائی 2007ء تک تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم جبکہ ٹی اے/ڈی اے کے نام پر 37 لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ سٹیشنری، تواضع اور دیگر مدات کے اخراجات ان کے علاوہ تھے۔ آج بھی میڈیا روزانہ درجنوں ایسے مقامات دکھا رہا ہے جہاں تک امداد ٹھیک طریقے سے نہیں پہنچ پائی اور لوگ اب بھی زندگی کے معمولات کی جانب واپس نہیں آ سکے۔ خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے اور سینکڑوں علاقے ایسے ہیں جہاں بیت الخلا کے لیے خواتین کو کھلی جگہوں پر جانا پڑتا ہے۔
بدقسمتی ہے کہ ایسے موقع پر‘ جب تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا‘ سب اپنی اپنی سیاست بچانے میں لگی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کی آڈیو لیکس آنے کے بعد دیگر کو بھی یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں ان کی بھی خفیہ گفتگو منظرِ عام پر نہ آ جائے۔ اس مسئلے پر تحقیقات جاری ہیں کہ کیسے وزیراعظم ہائوس کے اندر موجود اہم ترین عہدوں پر فائز عُمال کی مبینہ آڈیوز نہ صرف ریکارڈ ہوئیں بلکہ ہیکر کے ہاتھ بھی لگ گئیں۔ اس مسئلے پر تمام جماعتوں کو ایک پیج پر آنا پڑے گا اور ایک دوسرے کی آڈیوز کا سہارا لے کر سیاست کرنے سے باز رہنا ہو گا کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو اس کا فائدہ تیسرا فریق اٹھائے گا۔ وزیراعظم ہائوس اور دیگر اہم مقامات پر صرف سیاسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ قومی سلامتی سمیت انتہائی اہم معاملات بھی ڈِسکس کیے جاتے ہیں۔ اس معاملے کی تہہ تک جانا چاہیے اور مستقبل میں اس کے تدارک کے ٹھوس انتظامات کرنے چاہئیں؛ تاہم اس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر ایسے ادارے اور ایسی پالیسیاں بنانے پر بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے جن کا براہ راست تعلق ملکی سلامتی‘ سکیورٹی اور عوام کی سائبر سیفٹی سے ہو۔
گزشتہ کئی دنوں سے امریکی ریاست فلوریڈا بھی ایک بڑے طوفان اور سیلاب کی زد میں ہے۔ لاکھوں افراد بجلی سے محروم ہیں۔ پانی نے ہر جانب تباہی مچائی ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ گزشتہ پانچ سو برس میں آنے والا فلوریڈا کا خطرناک ترین طوفان ہے۔ یہ طوفان موسم کے غیر معمولی تغیرات کو ظاہر کرتے ہیں کہ شاید اب دنیا میں ملکوں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہو گا بلکہ سب کو قدرتی آفات اور اپنے ہی پیدا کردہ مسائل اور بحرانوں سے نمٹنا ہو گا۔ امریکہ تو پھر شاید کسی طرح اس بحران سے گزر جائے لیکن پاکستان جیسے ممالک‘ جن کی معیشت چند ارب ڈالرز پر کھڑی ہے‘ کے لیے سیلاب سے ہونے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کا ازالہ ناممکن ہے۔ سیلاب زدگان اس وقت قومی توجہ کے منتظر ہیں۔ یہ نون لیگ، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگرچہ کروڑوں عوام انہی جماعتوں کو ووٹ دیتے اور انہی سے توقعات لگائے بیٹھے ہیں مگر اس لیے تمام لیڈرز اور جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ عوام سادہ ضرور ہیں لیکن کب تک انہیں بے وقوف بنایا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی جس کے بچے سیلاب میں ڈوب گئے ہوں‘ جس کی زندگی بھر کی کمائی اس کے سامنے پانی میں بہہ گئی ہو اور جسے مستقبل میں بھی تاریکی ہی دکھائی دے رہا ہو‘ وہ کب تک سیاستدانوں کے جھانسوں اور نعروں کے فریب کا شکار رہ سکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ یہ لوگ اپنے حقوق کے حصول کیلئے سڑکوں آ جائیں اور ان کا غم و غصہ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے‘ تمام حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔