اگرکسی شخص کو پتا چل جائے کہ کل اس کی زندگی کا آخری دن ہو گا اور اڑتالیس گھنٹوں میں کسی وقت بھی اس کا بلاوا آ سکتا ہے تو ممکن ہے وہ اس پریشانی سے اگلے دن کے بجائے اسی روز انتقال کر جائے۔ اور کچھ نہیں تو وہ کھانا‘ پینا‘ ہنسنا‘ کھیلنا اور سونا ضرور بھول جائے گا اور یہی وہ کام ہیں جو ہم زندگی میں سب سے زیادہ کرتے ہیں۔ بچا ہوا سارا وقت وہ صرف اور صرف سوچنے اور پریشانی کے عالم میں گزارے گا اور دعا کرے گا کہ کاش اسے مزید مہلت مل جائے اور وہ اگلی زندگی کے لیے کچھ سامان کر لے۔ جبکہ عام زندگی میں اس کے پاس یہ سب سوچنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
عجیب بات ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے لیکن کوئی بھی اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے‘ کئی عشرے‘ کئی سال پڑے ہیں‘ زندگی میں بہت سے کام کرنے کو ہیں۔ اس زعم میں وہ موت کو بھول جاتا ہے اور دنیا کے کھیل تماشے میں اتنا مگن ہو جاتا ہے کہ موت یاد رہتی ہے نہ آخرت۔ اگر کوئی شخص تیس‘ پینتیس برس کا ہے اور اوسط انسانی عمر ساٹھ سے ستر برس لگا لیں‘ تب بھی اس کی آدھی زندگی گزر چکی ہوتی ہے۔ آپ ایسے کسی بھی شخص سے پوچھیں گے تو وہ یہی کہے گا کہ وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پتا ہی نہیں چلا۔ آپ اُس سے ماضی کی یادیں اور باتیں پوچھیں گے تو وہ بھی اسے پوری طرح یاد نہیں ہوں گی۔ اب تو حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ماضی بعید تو دُور کی بات‘ پچھلے مہینے یا پچھلے ہفتے کی باتیں تک بھول چکی ہوتی ہیں۔ واقعات‘ سانحات اور مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں‘ چیزیں اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں کہ کل کا واقعہ بھی انسان کے ذہن سے محو ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی جگہ کسی نئے واقعے‘ کسی نئی خبر اور کسی نئے سانحے نے لے لی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون اور سوشل میڈیا نے نکال دی ہے۔ پہلے صرف رات کو آٹھ بجے ایک ڈرامہ دیکھا جاتا تھا اور نو بجے چند منٹ کی خبریں‘ اس کے بعد ٹی وی بند ہو جاتا تھا۔ صبح اخبار آتا تو وہ بھی پندرہ‘ بیس منٹ میں ختم۔ اب تو سارا دن بریکنگ نیوز اور موبائل فون کے نوٹیفکیشنز نے اُدھم مچایا ہوتا ہے۔ فیس بک اس پھپھے کٹنی کی طرح بن چکی ہے جو گھروں میں لڑائیاں کراتی اور چغلیاں کرتی پھرتی ہے کہ فلاں محلے دار نے نئی گاڑی لے لی ہے‘ رات کو اس پر وہ گھومنے اور آئس کریم کھانے بھی گیا۔ تمہارا فلاں دوست تمہارے فلاں دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھا۔ فلاں شخص نے فلاں سے دوستی کر لی ہے۔ فلاں کی فلاں سے لڑائی ہو چکی ہے وغیرہ غیرہ۔ فیس بک نامی سوشل میڈیا بھی بالکل یہی کام کرتا ہے۔ یہ بھی سارا دن یہی بتاتا رہتا ہے کہ فلاں بندہ سیر کے لیے دبئی چلا گیا ہے۔ فلاں نے اپنے دوستوں کی دعوت کی ہے۔ فلاں نے فلاں کی تصویر کو لائک کیا ہے۔ فلاں دوست کی پوسٹ پر فلاں نے کچھ لکھا تو ان کا آپس میں جھگڑا ہو گیا اور کمنٹس پر ابھی تک جنگ چل رہی ہے۔ فلاں شخص اس وقت دبئی مال میں گھوم رہا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے اسّی‘ نوے فیصد باتیں اور واقعات ایسے ہیں جو شاید معمول کی بات ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں اہم سمجھ کر دیکھنے کے لیے موبائل فون پر دیوانوں کی طرح انگلیاں گھماتے رہتے ہیں۔ پھر جب سے سیاست موبائل فون کا باقاعدہ حصہ بنی ہے اور موبائل فون انتخابی جیت میں اہم کردار ادا کرنے لگا ہے‘ تب سے وقت بھی مٹی کی طرح ہاتھ سے پھسلنے لگا ہے۔ لوگوں کی توانائیاں غلط جگہ پر استعمال ہو رہی ہیں۔ کسی کام کے لیے فون اٹھائیں تو آدھا گھنٹہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے کے بعد یاد آتا ہے کہ فون تو کسی اور مقصد کے لیے اٹھایا تھا۔ یہی حال زندگی کا ہے۔
ہم کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر کے جا رہے ہیں‘ کسی کو یہ جاننے اور رک کر کچھ دیر سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔ اب لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ فلاں تصویر یا وڈیو پر مجھے پانچ سو لائکس ملے جبکہ یہ بات غیر اہم ہو چکی ہے کہ پانچ دوست اکٹھے ہوں اور مل جل کر بات چیت کریں‘ پرانی یادیں تازہ کریں۔ آن لائن دوستیاں اور آن لائن لائکس کی اہمیت صرف آن لائن دنیا تک ہی محدود ہے۔ اب تو کوئی فوت ہو جائے تو بھی آن لائن ہی پوسٹ پر ''آر آئی پی‘‘ لکھ کر گویا فرض ادا کر دیا جاتا ہے۔ آن لائن سالگرہ منا لی جاتی ہے۔ آن لائن ہی دوسرے کام بھگتانے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ اگر آپ کے پانچ سو آن لائن ''دوست‘‘ آپ کو برتھ ڈے پر وِش کر رہے ہوں لیکن انہی میں سے صرف پانچ کیک لے کر آپ کے گھر آ جائیں تو آپ کو ان پانچ سولائکس سے کئی سو گنا زیادہ خوشی محسوس ہو گی۔ اکثر ایسی باتوں کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ اب اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ کسی سے ملنے جائیں۔ بندہ ان سے پوچھے جو وقت موبائل پر ضائع کیا جاتا ہے کیا اس میں سے کچھ لمحات نکال کر کسی سے ملا نہیں جا سکتا؟ ہر موبائل فون کی سیٹنگز میں 'ڈیجیٹل ویل بینگ‘ کے نام سے ایک آپشن ہوتی ہے جس کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ صارف نے ایک دن میں کتنی دیر موبائل فون استعمال کیا۔ اسی طرح ہر ایپ کا الگ الگ ٹائم بھی معلوم ہو جاتا ہے‘ یعنی اگر دن میں چھ گھنٹے فون کی سکرین آن رہی تو اس میں فیس بک‘ یوٹیوب‘ وٹس ایپ اور دیگر ایپس کے استعمال میں صرف کیے گئے وقت کا معلوم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پورے ہفتے اور پورے مہینے کی اوسط بھی سامنے آ جاتی ہے۔ آپ نے فون کتنی بار اَن لاک کیا‘ یہ بھی پتا چل جاتا ہے۔ اگر اس تفصیل کی گہرائی میں جائیں تو آپ کو علم ہو جائے گا کہ آپ کے پاس 'ضائع‘ کرنے کے لیے کتنا وقت موجود ہے اور آپ چاہیں تو اس وقت کو کم کر کے اسی میں سے اپنے دوستوں‘ رشتہ داروں اور دیگر اہم کاموں کے لیے ٹائم نکال سکتے ہیں۔
مسئلہ صرف ہماری ترجیحات کا ہے۔ خدا نخواستہ کوئی ایمرجنسی ہوتی ہے تو ہم سارے کام چھوڑ دیتے ہیں اور سب سے پہلے وہ کام نمٹاتے ہیں لیکن جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں‘ ہم واپس خوابِ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں پیسہ بہت زیادہ اہم ہو چکا ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اس کے لیے ہم اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو دائو پر لگا دیں۔ یہ اتنا اہم بھی نہیں کہ اس کے لیے ہم اپنے پیاروں کو وقت دینا ہی چھوڑ دیں۔ مجبوری اور چیز ہے لیکن جان بوجھ کر انجان بنے رہنا دانش مندی نہیں۔ بعض لوگ جوانی میں ہی زندگی کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو سمجھ جاتے ہیں اور بعض لوگوں کو ساری دنیا گھومنے اور ہر طرح کی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد‘ آخری عمر میں جا کر پتا چلتا ہے کہ اُن کی تو ساری زندگی رائیگاں چلی گئی۔ بعض اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور اعلیٰ معیارِ زندگی کے لیے اپنا ملک چھوڑ دیتے ہیں اور دیارِ غیر میں کئی عشرے کھپانے کے بعد مادی طور پر خاصی ترقی کر لیتے ہیں لیکن پھر پتا چلتا ہے کہ جس اولاد کے لیے انہوں نے یہ سب کیا وہ تو انہیں سلام کرنے کی بھی روادار نہیں۔ ایسے وقت میں انہیں اپنی ساری جستجو اور تمام کامیابیاں بے معنی معلوم ہوتی ہیں۔ انسان کو چاہت اور ضرورت میں فرق سمجھ آ جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں‘ یعنی کوئی شخص چار لاکھ والا نئے ماڈل کا موبائل فون لینا چاہتا ہے تو یہ اس کی چاہت ہے لیکن اگر اس کی ضرورت پچاس ہزار والے موبائل فون سے بھی پوری ہو سکتی ہو تو یہ اب اس شخص کی عقل و فہم پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ہم نے خود کو بلاوجہ بہت سے معاملات میں بے چین کیا ہوا ہے۔ یہ بے چینی ہمیں بے یقینی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور اسی بے یقینی کا سفر طے کرتے کرتے ہم لبِ گور پہنچ جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا ہماری منزل نہیں بلکہ ایک سرائے ہے‘ ایک عارضی قیام گاہ! یہاں ہمیں کچھ دیر ٹھہرنا ہے اور پھر آگے اپنی حقیقی منزل کی جانب نکل جانا ہے۔ یہ بات جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔