پاکستان میں بہت سے سیاسی افراد کو پنجاب حکومت کا تاج اپنے سر پر سجانے کا موقع ملا ہے۔ میاں نواز شریف بھی دو بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں لیکن موجودہ وزیراعظم شہباز شریف‘ سب سے زیادہ تین مرتبہ اس عہدے پر فائز رہے ہیں اور انہیں سب سے طویل عرصہ تک پنجاب میں حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ نواز شریف 97ء میں دوسری مرتبہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ جب وزیراعظم بنے تو پنجاب کی حکومت انہوں نے شہباز شریف ہی کے حوالے کی۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی طاقت کے عروج کا دور تھا کہ ایک بھائی مرکز میں تو دوسرا پنجاب جیسے بڑے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ اس کے بعد 2008ء میں شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بنے تو اگلے دس سال تک بلاتعطل اس مسند پر براجمان رہے۔ شہباز شریف صاحب دیگر وزرائے اعلیٰ کی نسبت بہتر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ جب کسی چیز کی ٹھان لیتے تھے تو اسے پورا کرنے کے لیے پورا زور لگا دیتے تھے۔ علی الصباح وہ میٹنگز شروع کر دیتے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔ وہ جاری منصوبوں پر اچانک چھاپہ مارتے اور کام کا معیار بہتر کرنے کے حوالے سے تنبیہ کرتے۔ اکثر اوقات وہ افسران کو کام میں سستی کے باعث معطل بھی کر دیتے۔ ان کے ادوار میں جو بڑے کام ہوئے ان میں لاہور‘ ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بس سروس کا آغاز تھا۔ اس کے علاوہ وہ سڑکوں‘ انڈر پاسوں اور بڑے بڑے پل بنانے کے بھی شوقین تھے۔ اسی طرح ان کا ایک کارنامہ دانش سکولز کا قیام تھا۔ پنجاب میں ای گورننس کے نفاذ کے لیے انہوں نے کافی کام کیا۔ پنجاب میں لینڈ ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے کا آغاز بھی انہی کی دور میں ہوا جس سے پٹوار کلچر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ اس سے قبل کسی بھی شخص کو فرد حاصل کرنا ہوتی تھی تو اسے پٹواریوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا تھا؛ تاہم لینڈ ریکارڈ سنٹرز سے فرد حاصل کرنے میں پانچ منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے آئی ٹی کے میدان میں سرکاری شعبوں کو لیس کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا؛ تاہم ان کے تینوں ادوار کو دیکھا جائے تو ان کے یہ کام کچھ زیادہ شمار نہیں ہوتے کیونکہ انہیں وقت بھی بہت زیادہ ملا اور اپنی جماعت اور اپنے بڑے بھائی سمیت وفاقی حکومت کی بھرپور سپورٹ بھی۔
اگر پنجاب کے مقبول وزرائے اعلیٰ کی بات کریں تو چودھری پرویز الٰہی کا نام سرفہرست آتا ہے۔ وہ 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فارم سے پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ ان پانچ برسوں میں انہوں نے صوبے کی بہتری کے لیے وہ کام کیے جو ان کے حریف اپنے تین ادوار میں بھی نہ کر سکے تھے۔چودھری پرویز الٰہی کے کام کا سٹائل ذرا مختلف تھا لیکن وہ اپنے اہداف شہباز شریف صاحب سے بھی جلد حاصل کر لیتے تھے۔ پھر ان کے ساتھ میڈیا اور دیگر طبقات کو بات چیت کرنے اور اپنا موقف پہنچانے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آتی تھیں۔ ان کے پہلے دور میں کئی ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا۔ سڑکیں‘ انڈر پاسز تو بنے ہی لیکن ساتھ میں نئے ہسپتالوں‘ نئے معاشی اور فلاحی منصوبوں کا بھی آغاز کیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ ایک حکومت اگر کوئی اچھا یا برا کام کرتی ہے‘ کسی عوامی منصوبے پر اپنے نام کی تختی لگاتی ہے یا اسے پورا کرتی ہے تو اگلی حکومت آ کر سب سے پہلے گزشتہ حکومت کے منصوبوں میں سے کیڑے نکالتی ہے اور پھر انہیں ختم کر دیتی ہے ؛ تاہم چودھری پرویز الٰہی کے کئی منصوبے اسی طرح چلتے رہے اور کوشش کے باوجود انہیں ختم نہ کیا جا سکا۔ان میں 1122ایمبولینس منصوبہ سرفہرست ہے۔ہنگامی حالات اور حادثات کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے مغربی ممالک کی طرز پر یہ ایمبولینس سروس شروع کی گئی اور اس منصوبے کی وجہ سے بلاشبہ کروڑوں شہریوں کی جان بچی اور انہیں نہ صرف بروقت فرسٹ ایڈ کی سہولت ملی بلکہ بغیر کسی معاوضے کے وہ قریبی ہسپتال پہنچ کر بروقت علاج کرانے کے قابل بھی ہو پائے۔ اس کا رسپانس ٹائم کئی ترقی یافتہ ملکوں کی ریسکیو سروس کے رسپانس ٹائم سے بھی کم ہے۔چودھری پرویز الٰہی اپنے پہلے دور میں ہر صبح کا آغاز ریسکیو پروجیکٹ کی میٹنگ سے کرتے تھے۔ پنجاب اسمبلی ایکٹ کے ذریعے قائم ہونے والی اس سروس کو ہر لحاظ سے معیاری بنانے کے لیے بیرونِ ملک سے تجربہ کار ماہرین اور ٹرینرمنگوائے گئے اور ایمبولنس گاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق لیس کیا گیا۔اسی طرح ان کے دور میں ٹریفک وارڈن کا تجربہ کیا گیا جو بلاشبہ کامیاب رہا۔ وارڈنز کے آنے سے ٹریفک کانسٹیبلز کی بدمعاشی اور رشوت خوری سے عوام کی جان چھوٹ گئی جو بلاجواز عوام کو تنگ کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور میں سندر انڈسٹریل سٹیٹ بنائی گئی جہاں کاروباری طبقے کو وسیع جگہ کے ساتھ ساتھ دیگر سہولتیں بھی مہیا کی گئیں۔پڑھا لکھا پنجاب کے نام سے ایک منصوبہ شروع ہوا اور میٹرک تک تعلیم اور درسی کتابیں مفت دی جانے لگیں۔ ملتان، وزیرآباد اور دیگر شہروں میں دل کے ہسپتالوں کی تعمیر کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ اسی طرح آج لاہور کے اردگرد جس رنگ روڈ پر ہم چند منٹ میں پورے شہر کا چکر کاٹ لیتے ہیں‘ اس کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دس سال تک مسلسل پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ (ن) کے پاس رہی۔
2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو سابق وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف عوام بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی سرپرائز دیا اور جنوبی پنجاب سے ایک غیر معروف شخصیت عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اس فیصلے پر ہر جانب سے تنقید ہوئی۔ پارٹی کے اندر سے بھی اس تعیناتی پر حیرانی کا اظہار کیا گیا؛ تاہم جب جب ان پر تنقید ہوتی تب تب خان صاحب ان کا بھرپور دفاع کرتے اور انہیں ''وسیم اکرم پلس‘‘ قرار دے کر کہتے کہ وہ کسی صورت بزدار صاحب کو تبدیل نہیں کریں گے؛تاہم امسال اپریل میں وفاق میں جب خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو پنجاب حکومت میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا اور عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا گیا مگر سیاسی پاور گیم تب تک تبدیل ہو چکی تھی۔ مرکز میں شہباز شریف وزیراعظم بنے تو پنجاب انہوں نے اپنے صاحبزادے کے حوالے کر دیا۔یہ فیصلہ اس لحاظ سے عجیب تھا کہ پہلے دو بھائی بیک وقت مرکز اور پنجاب میں حکومت میں آئے تھے اور اب باپ اور بیٹا۔ اس دوران پنجاب میں سیاسی کھینچا تانی جاری رہی اور حمزہ شہباز چند ہفتوں سے زیادہ اس سیٹ پر برقرار نہ رہ سکے۔تحریک انصاف کو پنجاب میں دوبارہ اکثریت ملی تو قرعہ فال چودھری پرویز الٰہی کے نام نکلا۔
کئی عشروں سے پرویز الٰہی کا خاندان عملی سیاست کا حصہ چلا آ رہا ہے اور وہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ موجودہ وزارتِ اعلیٰ انہیں ایسے وقت میں ملی جب سیاسی درجہ حرارت اور کرسی کی لڑائی عروج پر تھی۔ اگر الیکشن اگلے سال ہوتے ہیں تو انہیں پرفارم کرنے کے لیے لگ بھگ ایک سال ملے گا؛ تاہم محسوس ہوتا ہے کہ پرویز الٰہی اپنے سابق دور سے زیادہ جذبے کے ساتھ پرفارم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے پہلے پچاس دنوں میں بہت سے اہم کام کیے ہیں جن میں 1122ایمبولینس منصوبے کا پنجاب کے تمام شہروں میں پھیلائو‘ ٹیکس ادائیگی و دیگر تمام سرکاری خدمات کو ایک مرکزی موبائل ایپ میں یکجا کرنا‘ دودھ اور دیگر اشیائے خورونوش کے لیے ملک کی پہلی فوڈ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام‘ صحت کارڈ سے علاج میں بہت سی بیماریوں کے علاج کو شامل کرنا وغیرہ چند اہم کام ہیں۔ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی بھی سیاست میں سرگرم ہیں اور انہی کے اصرار پر غالباً آخری وقت میں پرویز الٰہی صاحب نے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ فیصلہ کتنا بہتر تھا یہ تو وقت ہی بتائے گا؛ تاہم جس تیزی کے ساتھ پنجاب حکومت نئے منصوبے سامنے لا رہی ہے اس سے اگلے الیکشن کی پیش گوئی آسان ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ان مشکل حالات میں جتنا کام کیا گیا‘ ان کے حریف اتنا کام تین‘ تین حکومتوں کے باوجود نہیں کر سکے۔ ویسے بھی عوام اسی کو یاد رکھتے ہیں جو ان کی بہتری اور فلاح کے لیے کام کرتا ہے نہ کہ محض باتیں کرتا رہتا یا اپنے کاموں کے اشتہارات لگواتا ہے۔