ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک جگہ سینکڑوں لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ لوگ سڑک بلاک کر کے امریکہ مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ وہاں سے ایک گاڑی گزری جس میں کچھ مقامی افراد اور کچھ گورے بزنس مین سوار تھے۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی تو ایک مقامی شخص نے باہر نکل کر لوگوں سے احتجاج کی وجہ پوچھی۔ جواب ملا: امریکہ ہمارا دشمن ہے‘ پوری دنیا کا دشمن ہے‘ ہم امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ وہ شخص بولا: میری گاڑی میں کچھ امریکی گورے موجود ہیں جو اہم کام سے ہمارے ملک آئے ہیں‘ اگر آپ لوگ ایسے نعرے لگائیں گے تو وہ برا محسوس کریں گے۔ مجمع میں ایک شخص آگے بڑھا اور بولا: ہم کچھ نہیں جانتے‘ امریکہ ظالم ملک ہے‘ ہم راستہ نہیں کھولیں گے۔ اس مقامی بزنس مین نے جب یہ دیکھا کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ کہنے لگا: یہ گورے امریکہ میں ایک بڑی فیکٹری لگا رہے ہیں اور یہاں سے چار‘ پانچ سو ورکرز اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں‘ جنہیں امریکہ میں امیگریشن بھی دی جائے گی۔ اس نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی یہ لوگ کئی ملکوں سے ہزاروں لوگوں کو امریکہ بلا چکے ہیں اور وہ سب وہاں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والوں نے امریکہ کے خلاف اٹھائے ہوئے بینرز اور پلے کارڈز سڑک پر پھینکے دیے اور اس شخص کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اب وہ اس کی منت سماجت پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ ان گوروں سے ہماری بات کرو‘ ہم یہ راستہ کھول دیتے ہیں‘ ان سے کہو کہ ہمیں امریکہ لے جائیں‘ ہم کسی طرح یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اس کاروباری شخص کی یہ چال کام آ گئی۔ اس نے انہیں ایک فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ امریکہ جانا چاہتے ہیں وہ اس نمبر پر اپنے کوائف بھیج دیں ‘ یوں اس کی چال سے نہ صرف راستہ کھل گیا بلکہ وہ مجمع‘ جو چند لمحے پہلے تک امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہا تھا‘ یکایک امریکہ کے گن گانے لگا۔
یہ صرف ایک گروہ کی کہانی نہیں۔ اس وقت آپ جس سے بھی پوچھیں گے وہ یہی کہے گا کہ مجھے یہاں سے نکلنا ہے‘ سوائے ان معدودے چند لوگوں کے جن کا یہاں بہت اچھا کاروبار ہے یا زمینوں اور لاتعداد جائیدادوں کے سلسلے ہیں۔ باقی سب ملکی حالات سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر امریکہ و یورپی ممالک کی طرف بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب امریکہ کو گالیاں بھی دیتے ہیں لیکن امریکہ کی شہریت بھی چاہتے ہیں۔ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں ڈالر درختوں پر اُگتے ہیں۔ وہاں جاتے ہی وہ بڑا گھر اور گاڑی خرید لیں گے اور عیاشی کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ یہ سب ایک خوشنما خواب یا دل کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن امریکہ والوں سے پوچھ کر دیکھیں‘ وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہاں آٹے دال کا بھائو اس وقت ہے کیا۔ دنیا اس وقت کساد بازاری کی ایک نئی لہر کی زد میں آ چکی ہے۔ یورپ‘ امریکہ اور دیگر جدید ممالک میں اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے جس خطے میں سیٹ ہے‘ اس کا امریکہ وہیں بن جاتا ہے۔ جن لوگوں کو پاکستان میں ٹیکس دینے کی عادت نہیں ہے اور جو پچاس‘ پچاس لاکھ کی گاڑی کو پارکنگ پوائنٹس پر کھڑا کرنے پر پچاس روپے بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے‘ ایسے لوگوں کو امریکہ جا کر بہت سے دھچکے ملنے والے ہیں کیونکہ وہاں کی تو کہانیاں ہی اور ہیں۔ نیویارک سمیت متعدد ریاستوں میں علاقے اور وقت کے حساب سے پارکنگ ریٹس مختلف ہیں۔ بعض جگہ آپ نے اگر شرٹ خریدنے کے لیے کچھ دیر رکنا ہے تو وہاں کی پارکنگ فیس شاید شرٹ کی قیمت سے بھی زیادہ مہنگی پڑے۔ ایسے لوگ بھی کم نہیں جنہوں نے پاکستان میں رہ کر کبھی برتن یا کپڑے نہیں دھوئے ہوں گے‘ کبھی اٹھ کر پانی کا گلاس تک نہیں لیا ہو گا‘ کبھی انڈا تک نہیں اُبالا ہو گا۔ گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر گاڑی میں پٹرول ڈلوانے تک‘ ہر کام ملازموں سے کرائے ہوں گے‘ تو ایسے لوگوں کو اس وقت چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے جب یہ سب کام امریکہ میں ہر روز خود کرنا پڑتے ہیں۔ جس طرح اپنے ملک میں دوست‘ رشتہ داروں کی کمپنی انجوائے کی جاتی ہے‘ میل ملاپ ہوتے ہیں‘ عیدین سمیت درجنوں مواقع پر چھٹیاں ملتی ہیں تو یہ سب کچھ بھی وہاں جا کر سنہری یادوں میں بدل جاتا ہے۔ یہ یادیں انسان کو تنہائی کی اُداس دلدل میں دھکیل دیتی ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب انسان سیٹ ہو جاتا ہے اور اس کے پاس گھر‘ گاڑی اور پیسہ‘ سب کچھ آ جاتا ہے تب بھی وہ اپنے آپ کو اندر سے خالی اور ایک ادھورا پن محسوس کرتا ہے۔ خود کو موبائل فون‘ ٹی وی یا سینما کے ذریعے لاکھ بہلانے اور مصروف رکھنے کی کوشش کریں‘ بوریت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جائے گی۔ اُس وقت آپ کو اپنے وطن میں بیٹھے پرانے دوست یار اور وہ وقت یاد آئے گا جو آپ نے فرصت کے ساتھ نہایت بے فکری سے گزارا ہو گا۔ بعض اوقات آپ جس نوکری کے لیے جاتے ہیں وہ آپ کو فوری نہیں ملتی تو ایسے میں چھوٹی موٹی معمولی نوعیت کی نوکریاں کرنا پڑ سکتی ہیں‘ ایسی نوکریاں جن کا تصور بھی یہاں رہتے ہوئے محال ہے۔
امریکہ میں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ وہاں وہی شخص سروائیو کر سکتا ہے جس کی کریڈٹ ہسٹری اچھی ہو۔ اسی کو قرضہ ملتا ہے‘ اسی کو گاڑیاں‘ گھر اور اچھا کاروبار کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ کریڈٹ ہسٹری خراب ہو گئی تو آپ ایسے رُلیں گے کہ توبہ کر اٹھیں گے۔ پاکستان میں ہسپتالوں کا نظام سب کے سامنے ہے لیکن امریکہ میں اس کا تصور بھی نہیں کہ آپ جتنا شور ڈالیں گے‘ اتنا جلدی ڈاکٹر آپ کو دیکھنا شروع کر دیں گے۔ یہاں تو سرکاری ہسپتالوں میں سفارش کروا کر آپریشن وغیرہ جلدی بھی کرا لیا جاتا ہے‘ مگر وہاں پر جو وقت ملے گا اس سے ایک دن بھی آگے‘ پیچھے نہیں ہو سکے گا۔ کورونا کے بعد تو ہر دوسرے شعبے میں اپائنٹمنٹ والا معاملہ ایسا ہو گیا ہے کہ اب ان کاموں کی بھی پیشگی بکنگ کرانا پڑتی ہے کہ جو لوگ پہلے 'واک اِن‘کرا لیا کرتے تھے۔ آپ نے حجام کے پاس جانا ہے یا دانت نکلوانا ہے‘ بینک میں نیا اکائونٹ کھلوانا ہے یا گاڑی کی ٹیوننگ کرانی ہے‘ ہر کام کیلئے آپ کو کئی دنوں؍ ہفتوں پہلے آن لائن اپنی سلاٹ بُک کرانا پڑے گی۔ پھر وہاں کے موسموں کا تغیر بھی الگ پریشانی میں مبتلا رکھتا ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں اتنی سردی نہیں پڑتی جتنی امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک کا معمول ہے۔ وہاں تو درجہ حرارت مائنس چالیس‘ پچاس ڈگری تک چلا جاتا ہے اور آپ گھر میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان سب باتوں سے اگر آپ پیشگی واقف ہیں اور تمام مسائل سے نمٹنے کا بلند حوصلہ رکھتے ہیں تو ہی آپ وہاں جا کر سیٹل ہو پائیں گے‘ وگرنہ رہ تو وہاں رہے ہوں گے لیکن دل پاکستان میں دھڑکتا رہے گا۔
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کئی شعبوں میں دنیا کے جدید ترین ممالک کے برابر کھڑا ہے لیکن کچھ معاملات میں یہ اپنے سے بعد آزاد ہونے والے ممالک سے بھی کوسوں پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ چین اور سنگا پور‘ یہ سب کہاں سے کہاں نکل گئے اور ہم آج بھی اسی شش و پنج اور خوف میں مبتلا ہیں کہ نہ جانے کس وقت ہماری معیشت ڈیفالٹ کر جائے۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہیں اور سماجی رتبہ ڈاکٹروں کو ملتا ہے لیکن پاکستان میں جب سے ہر شے کمرشل ازم کی نذر ہوئی ہے‘ یہ شعبہ بھی زوال کی گہرائیوں کو چھو رہا ہے۔ گزشتہ روز ایم ڈی کیٹ کا نتیجہ آیا‘ جو طلبہ پاس ہوئے وہ انتہائی خوش اور فیل ہونے والے طلبہ انتہائی رنجیدہ دکھائی دیے۔ حالانکہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد یہاں آگے کیا ہونے والا ہے‘ یہ انہیں اگر ابھی معلوم ہو جائے تو ان کی ساری خوشی فوراً ہی کافور ہو جائے گی۔ نہ سفارش اور رشوت کے بغیر ملازمتیں‘ نہ ورک لائف بیلنس‘ نہ اچھی تنخواہیں اور نہ آگے بڑھنے کے مواقع۔ اسی لیے بہت سے ڈاکٹر امریکہ‘ برطانیہ یا دیگر مغربی ممالک کا رخ کر لیتے ہیں اور یہ برین ڈرین گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا‘ کیا کوئی اس بارے بھی سوچے گا یا سبھی سیاست سیاست ہی کھیلتے رہیں گے اور ملک یونہی مسائل کی دلدل میں دھنستا جائے گا؟