گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مِس ایڈونچر کا بھرپور جواب دیا جائے گا‘ بھارت کبھی بھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آرمی چیف کا یہ بیان بھارتی فوج اور سرکار‘ دونوں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہیں۔
کون نہیں جانتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ کشمیر کا تنازع خطے میں تین بڑی جنگوں کا سبب بن چکا ہے اور اب دونوں ممالک ایٹمی اسلحے اور تباہ کن میزائلوں سے لیس ہیں‘ اس صورت میں دونوں ممالک میں اگر کوئی جنگ ہوئی تو خدا نخواستہ یہ نہ صرف پورے خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہی و بربادی کا پیغام لا سکتی ہے۔ بھارت نے کشمیر کی جنت نظیر وادی پر غیر آئینی‘ غیر قانونی اور ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ کشمیری مسلمان تقسیمِ ہند سے پہلے ہی مہاراجہ کشمیر کے خلاف آزادی کی جدوجہد شروع کر چکے تھے اور اس مزاحمت میں اس وقت تیزی آ گئی تھی جب بھارت نے تقسیمِ برصغیر کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی فوجیں وادیٔ جنت نظیر میں داخل کی تھیں۔ آج پوری دنیا میں بھارتی بربریت کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وادیٔ کشمیر کو غاصب بھارتی فوج نے جہنم بنا رکھا ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور کشمیری نوجوانوں کو لاپتا کرکے گولیوں سے بھون کر شہید کر دینے کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین پر پیلٹ گنوں سے چھروں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ممنوعہ پیلٹ گنوں کے سبب بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ بوڑھے افراد کو بھی نہیں بخشا جاتا اور دن کی روشنی میں سب کے سامنے انہیں چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ پیلٹ گنوں کی وجہ سے ہزاروں کشمیری اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ بھارت گزشتہ سات دہائیوں میں لاکھوں کشمیریوں کی جان لے چکا ہے۔ گزشتہ محض تین دہائیوں میں بھارتی فوج کی بربریت کے سبب شہید ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ بھارت کو کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ متنازع خطے کی حیثیت تبدیل کرتا کیونکہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت پابند تھا کہ کشمیریوں کو ایک استصوابِ رائے میں اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کرے۔یہ استصوابِ رائے (ریفرنڈم) اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ‘غیر جانبدارانہ اور شفاف انداز میں منعقد ہونا تھا لیکن بھارت نے پون صدی تک یہ استصوابِ رائے نہیں ہونے دیا اور کشمیریوں کو جبری طور پر غلام بنائے رکھا۔ پھر اس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ٹھکراتے اور اپنے ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ خطے کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرکے اسے وفاق میں ضم کرنے کی قانون سازی کر لی۔ یہیں تک اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے تین ٹکڑے کر دیے گئے اور اس تقسیم کو اس طرح عمل میں لایا گیا کہ کشمیر بھارت کے زیرِ انصرام واحد مسلم اکثریتی علاقہ نہ رہے۔ بھارت یہ سارے ہتھکنڈے فوجی قوت کے بل بوتے پر انجام دے رہا ہے۔ کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں نو لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ عالمی قوانین اس امر کی قطعی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ریاست اپنے نہتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنائے مگر بھارت کو کسی عالمی قانون کی کوئی پروا نہیں اور وہ آئے روز کشمیریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مقبوضہ وادی سے عفت و عصمت کی پامالی کے واقعات بھی مسلسل سامنے آ رہے ہیں اور یہ جرائم ہر لحاظ سے یو این چارٹر کی نفی کرتے ہیں۔ بھارت نے تین سال قبل ایک اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا اور آئین کے آرٹیکل پینتیس اے کو ختم کر کے غیر ریاستی باشندوں کے لیے کشمیر میں داخلے کا دروازہ کھول دیا جس سے آنے والے برسوں میں کشمیر کی آبادی کا تناسب بگڑ کر رہ جائے گا۔ عالمی قوانین کی رو سے کسی متنازع علاقے میں ڈیمو گرافک تبدیلی کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے اور بھارت سے اس معاملے میں بھی بازپرس کی جانی چاہیے۔
بھارت نے مقبوضہ وادی کی تخصیصی حیثیت ختم کرنے کے بعد کشمیر میں ظلم کا ہر حربہ آزمایا ہے۔ اس نے مقبوضہ وادی کے لوگوں کو دنیا سے کاٹ کر رکھا ہوا ہے۔ وہاں سنگین اور سخت گیر کرفیو نافذ ہے۔ ٹیلی فون اور موبائل سروس بند ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم اور مجبور عوام اپنی بے کسی اور بے بسی کی کیفیت سے بیرونی دنیا کو آگاہ بھی نہیں کر سکتے۔ یوں مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت بھی اختیار کر چکا ہے۔ بھارت نے عالمی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اور اقوام متحدہ کے تمام اصولوں اور ضوابط کو پامال کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت ہمسایہ ملک ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ایک ساتھ ہی رہنا ہے۔ دونوں ملکوں کا جغرافیہ تبدیل نہیں ہو سکتا‘ اس لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آپس میں لڑتے بھڑتے رہیں گے یا قیام امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں گے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کی جنگوں سے سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ ان جنگوں نے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کو نقصان پہنچایا جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے وسائل اسلحہ ذخیرہ کرنے میں نہ جھونکتے بلکہ ان وسائل کو اپنے عوام‘ بچوں، بوڑھوں ،جوانوں اور عورتوں کی بہتری کے لیے استعمال میں لاتے۔ دونوں ملک صحت اور تعلیم کے شعبے میں نہایت پسماندگی کا شکار ہیں اور اس کی وجہ وہ سکیورٹی مسائل ہیں جو عوام پر مسلط ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین سلگتے مسائل نے ان کے ترقیاتی وسائل کو چاٹ لیا ہے۔ مسائل جنگ اور طاقت کے زور پر حل نہیں ہو سکتے۔ انہیں حل کرنے کے لیے باہم گفتگو ضروری ہے۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں ہی حل کرنا پڑے گا اور پھر ہی خطے میں قیامِ امن کی راہ ہموار ہو سکے گی اور دونوں ملک اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر توجہ دینے کے قابل ہو سکیں گے۔
حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر ٹھوس موقف اختیار کیا ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ پاکستان کشمیر کے ایشو کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ یورپی ممالک میں اگر ایک جانور کو بھی ٹھیس پہنچے تو این جی اوز اور سبھی ترقی یافتہ ممالک آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم انہیں نظر نہیں آ رہے۔ آج کے ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے دور میں ریاستی جبر اور مظالم کو چھپانا بھارت کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اب موبائل فون سے بنا چند سیکنڈز کا وڈیو کلپ بھی پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل جاتا ہے۔ بیشمار ایسی وڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن میں بھارتی افواج کو مقبوضہ کشمیر میں درندگی کا مظاہرہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ جنازوں کو بھی نہیں بخشا جاتا اور ان پر بھی فائر کھول دیے جاتے ہیں۔ جدید اور ترقی یافتہ ممالک تو اپنے ہاں جانوروں کو بھی پورے حقوق دیتے ہیں لیکن کشمیر کیا اس زمین کا حصہ نہیں‘ کیا وہاں رہنے والے انسان نہیں‘ کیا انہیں اسی طرح نظر انداز کیا جاتا رہے گا؟ بھارت انسانی اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے لیکن امریکہ نے حالیہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں سے جان بوجھ کر اس کا نام نکال دیا ہے جس پر پوری مسلم امہ سراپا احتجاج ہے۔ مغرب کا یہ دہرا معیار کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ بھارت پاکستان سے ٹکر لینے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ اسے پاکستان کی فوج اور اس کی صلاحیتوں کا پوری طرح ادراک ہے۔ وہ کشمیر میں معصوم اور نہتے شہریوں پر ظلم کر کے اپنی دھاک بٹھانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور یہ کوشش اسے بہت مہنگی پڑے گی کیونکہ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے اور بھارت کا وقتِ حساب قریب آ چکا ہے‘ ان شاء اللہ!