سوشل میڈیا پر اس وقت سموسے‘جلیبیوں‘مٹھائیوں اورپکوڑوں جیسے کھانوں کے مثبت و منفی پہلوئوں بارے بحث زوروں پر ہے۔ یہ سلسلہ اتنا پھیل چکا ہے کہ مختلف سیاستدانوں نے بھی ٹویٹ کر کے اپنی اپنی پسندیدہ ڈشز کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیے ہیں۔یہ معاملہ اس وقت شرو ع ہوا جب سوشل میڈیا سٹار معروف ڈاکٹر‘ عفان قیصر نے سموسوں کے بارے میں اپنی ایک وڈیو میں بتایا کہ کیسے سموسے کھا نے والے معدے خراب کرا کے ان کے پاس آ رہے ہیں۔ سموسے کن مضرِ صحت اشیا سے بنائے جاتے ہیں‘ کتنی بار ایک ہی تیل استعمال کیا جاتا ہے‘ یہ سب انہوں نے صراحت سے بیان کیا۔ ڈاکٹر عفان کی سموسے کے نقصانات والی وڈیوز پر ہزاروں ‘ مثبت و منفی کمنٹس آئے۔
اس حوالے سے ایک صاحب نے اپنی وال پر بہت اچھے اور سنہرے مشورے دیے جن پر عمل کر کے ہم نقصان سے بھی بچ سکتے ہیں اور زبان کا چسکا بھی پورا ہو سکتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ سموسہ واقعی ایک مزیدار جنک فوڈ ہے اس سے بچا نہیں جا سکتا؛ تاہم اگر ہم چاہیں تو میانہ روی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سموسہ انجوائے ضرور کر سکتے ہیں۔ اس کو اپنی روزانہ خوراک کا حصہ مت بنائیں بلکہ کسی بھی جنک فوڈ کو اپنی روٹین کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی بنانا چاہیے۔جو ایسا کرتا ہے وہ معدے کا مستقل مریض بن کر رہ جاتا ہے۔اعتدال اور میانہ روی ہی بہترین راستہ ہیں۔سموسہ ہفتے میں ایک آدھ بار کھا لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔لیکن یہ بھی وہ لوگ کر سکتے ہیں جن کے معدے بالکل فٹ ہیں۔ جو پہلے ہی اس طرح کی چیزیں کھا کھا کر ادھ موئے ہو چکے ہیں وہ مہینے میں ایک بار ہی ایسی جسارت کا خطرہ مول لیں۔بہتر ہے عام لوگ ایسے ششکوں کے لیے ہفتے کا ایک دن مخصوص کر لیں کہ ہر سات دن کے بعد ایک کھانا ایسا کھا سکتے ہیں؛ تاہم اس کے لیے باقی کے دنوں کے تمام کھانے بہت سادہ اور نیچرل ہونے چاہئیں۔مہینے میں ایک آدھ بار باربی کیو بھی کر سکتے ہیں کہ یہ بھی نعمت خداوندی ہے اور زندگی کا ہر ذائقہ ضرور چکھتے رہنا چاہئے۔اسی طرح اپنی خوراک میں نمک اور چینی کو حتی الوسع کم کر دیجئے۔پھلوں کو اپنی خوراک میں لازمی شامل کیجئے۔سلاد کو اپنے ہر کھانے کا حصہ بنا لیجئے۔ادرک، پودینہ اور سبز مرچ کی چٹنی بنا کر فریج میں رکھ لیجئے۔روزانہ صبح ناشتے کے ساتھ ایک چمچ خوش ذائقہ چٹنی آپ کے معدے کو بہت سے مسائل سے محفوظ رکھے گی۔ہفتے میں گوشت صرف ایک دن کھائیں‘ سبزیوں کو اپنے روزانہ کھانے کا معمول بنائیں۔ روزانہ کم از کم تیس منٹ تک مسلسل واک کیجئے‘ اس سے نیند میں بھی بہتری آئے گی مگر واک کے دوران موبائل وغیرہ پر بات چیت نہیں کرنی۔رات جلدی سونے اور صبح جلدی جاگنے کو معمول بنا لیجئے۔کوشش کیجئے کہ زندگی کو سادہ سے سادہ ترین بنا لیں۔یقین مانیں آپ فطرت کے جتنا قریب ہوتے جائیں گے‘ اتنی ہی صحت مند اور پُرسکون زندگی کو اپنا منتظر پائیں گے۔
متذکرہ بالا باتیں پڑھنے‘ سننے اور عمل کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ہیں؛ بشرطیکہ ان پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے۔دراصل کھانے پینے سے انسان کا صرف پیٹ ہی نہیں بھرتا بلکہ بہت سی اشیا اس کے موڈ کو بہتر بناتی ہیں اور انہیں کھانے سے ذہنی سکون بھی ملتا ہے۔ موڈ خوشگوار ہوتا ہے اور کام میں من لگتا ہے۔پھر انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ایک جیسی چیزوں اور ایک جیسے ماحول سے کچھ عرصے بعد اُکتانے لگ جاتا ہے۔ تبدیلی کی خواہش انسان کے اندر بدستور موجود رہتی ہے۔ بعض لوگوں میں یہ خواہش حد سے زیادہ متحرک ہوتی ہے۔ ایسے بے چین حضرات ہمارے معاشرے میں بکثرت پائے جاتے ہیں جن کو ہم اکثر یہ کہتے رہتے ہیں کہ تمہیں چین کیوں نہیں پڑتا۔ بہت سے لوگ آئے روز گاڑیاں بدلنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ میں نے ایک صاحب سے پرانی گاڑی خریدی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ گاڑی کتنے عرصے بعد بدلتے ہیں؟ میں نے کہا: جب تک وہ ہاتھ جوڑ کر معافی نہ مانگ لے۔ ہنستے ہوئے بولے: میں تو چھ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال تک گاڑی اپنے پاس رکھتا ہوں۔ میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کی یہ بیماری پیدائشی ہے یا خاندانی؛ تاہم یہ درست ہے کہ بہت سے لوگ چیزیں بدلنے کو سٹیٹس سمبل خیال کرتے ہیں؛ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں ہوتے‘ چاہے زمین و آسمان ایک ہو جائیں۔
سمن آباد لاہور کی ان پرانی بستیوں میں سے ایک ہے جو قیام پاکستان کے بعد آباد ہوئیں۔پرانے لوگوں میں سے بہت کم ہوں گے جو وہاں رہ رہے ہوں گا۔ بیشتر افراد پہلے اقبال ٹائون اور پھر وہاں سے جوہر ٹائون اور کسی اگلے ٹائون سدھار چکے ہیں لیکن ہمارے ایک دوست ہیں جو کہتے ہیں کہ یہاں ہماری سات پیڑیاں رہی ہیں‘ ہم اس علاقے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ وہ اس قابل نہ ہوں۔ وہ چاہیں تو کسی پوش علاقے میں ایک بڑا سا گھر خرید سکتے ہیں لیکن آبائی علاقے سے ان کی محبت ان کے پائوں کی بیڑی بن چکی ہے۔خوراک کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ لوگ چاہے پرانے محلوں اور آبادیوں میں رہ رہے ہیں لیکن کھانے کے معاملے میں وہ ''برگر کلاس‘‘ سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاں ہر قسم کا مضرِ صحت کھانا اور فاسٹ فوڈ آدھی رات کو ایسے منگوایا جاتا ہے جیسے کسی بیمار کے لیے ایمبولنس۔ اور تو اور دیہات بھی اب پیچھے نہیں رہے۔ جس گائوں میں ہمارا آنا جانا بچپن سے تھا‘ وہاں ساگ‘ مکئی کی روٹی‘ لسی اور پنجیری کی جگہ اب پیزا‘ شوارما‘برگر اور انرجی ڈرنکس لے چکے ہیں۔جن دیہات میں کبھی پتلون پہن کر جانے پر مقامی افراد کی جانب سے گھور گھور کر یوں دیکھا جاتا تھا جیسے کسی گورے کو پاکستان آنے پر گھورا جاتا ہے‘ اب وہاں بھی حالات بدل چکے ہیں۔ اب اگر آپ بھول کر شلوار قمیص پہن کر وہاں چلے جائیں تو آپ کو یوں دیکھا جاتا ہے جیسے آپ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں اور غلطی سے آ بھٹکے ہیں۔ وہاں بھی اب چست پتلونیں دھوتی کلچر کو چاروں شانے چت کر چکی ہیں۔وہاں بھی رات گئے تک جاگنا عام بن چکا ہے اور ہر کوئی موبائل فون سے بندھا نظر آتا ہے۔
مسئلہ سموسے یا جلیبی نہ کھانے سے حل ہو جائے تو بھی سمجھ آتی ہے لیکن یہاں پر صاف ستھری غذا ملتی کہاں ہے۔ وہ سبزی کہاں سے خریدی جائے جو گٹروں اورنالے کے پانی اور قسم قسم کے سپرے سے بچ کر اگائی گئی ہو۔ برائلر مرغی کو چوزے سے جوانی تک جو خوراک ملتی ہے‘ کون اس سے واقف نہیں اور اس چکن سے تیار کردہ دس ہزار سے زائد ڈشز‘ کیا یہ ہماری صحت کو تباہ نہیں کر رہیں۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ دالیں مہنگی بھی ہو گئی ہیں اور کھانے کے قابل بھی نہیں رہیں۔صحت مند اور مضرِ صحت خوراک کی بحث تو چلتی رہے گی لیکن اس حوالے سے انہی صاحب کا سوشل میڈیا پر ڈاکٹر صاحب کے نام ایک ہلکا پھلکا پیغام پڑھ لیجئے جس سے آپ کو بدہضمی ہو گی نہ شوگر یا بلڈپریشر کا کوئی مسئلہ ہو گا بلکہ آپ کی طبیعت خوشگوار ہو جائے گی۔ یہ پڑھئے اور انجوائے کیجئے۔
''ڈاکٹر صاحب!آپ نے پیزے کو برا بھلا کہا ہم نے من و عن تسلیم کیا‘آپ نے کیک بسکٹ کو برا کہا‘ ہم نے بلا چون و چرا سرِ تسلیم خم کر لیا‘آپ نے جلیبی کی بدتعریفی کی ہم نے وہ بھی بادلِ نخواستہ تسلیم کر لی‘آپ نے سموسے کی برائیاں کیں‘دل پر جبر کرکے اسے بھی برداشت کیامگرڈاکٹر صاحب !ذہن نشین کر لیں! چائے ہماری ریڈ لائن ہے‘ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں مگر چائے کی برائی ہرگز برداشت نہیں کریں گے‘اگر آپ نے چائے کو کچھ کہا تو آپ کی اور ہماری راہیں جدا !‘‘۔