ہر نئے سال کے موقع پر دنیا بھر کے عوام نئے نئے اہداف سیٹ کرتے ہیں‘ منصوبے بناتے ہیں اور انہیں حاصل بھی کر لیتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام کا گزشتہ سات‘ ساڑھے سات عشروں سے ایک ہی خواب‘ ایک ہی ہدف اور ایک ہی منصوبہ ہے مگر بدقسمتی سے ان کا خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ لوگوں کا ہدف نئے سال میں نیا مکان‘ بہتر روزگار‘ بہت سا پیسا اور بے پناہ ترقی ہوتا ہے لیکن کشمیری عوام کا ہدف ایک ایسی آزاد فضا کا حصول ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے سانس لے سکیں۔2023ء کا سورج طلوع ہو چکا۔ ہر کوئی جشن منا رہا ہے لیکن کشمیریوں کے لیے خوشی کی کرن تبھی پھوٹے گی جب ان کے دن واقعی بدلیں گے۔ جبر کے کرب میں کرفیو اور لاک ڈائون کو جھیلتے ہوئے وہ زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اوربھارتی ظلم و بربریت ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے جتھوں کی جارحیت میں کمی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ آئے روز اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مواصلاتی نظام بھی تباہ ہو چکا ہے۔ بظاہر یہ انسانوں کی وادی ہے لیکن انسانوں کو حقوق سے بزور محروم رکھا جا رہا ہے اور اس پر مزید ستم یہ کہ ان مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی بھی برقرار ہے۔وادی کے چپے چپے اور ہر چوک و چوراہے پر بھارتی فورسز قابض ہیں۔پوری دنیا میں مریضوں اور ایمبولینس کو غیرمعمولی حقوق حاصل ہوتے ہیں حتیٰ کہ جنگوں میں بھی ایمبولینسوں کو نشانہ بنانے کی ممانعت ہے اور انہیں محفوظ راستہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ مریض کو بروقت ہسپتال پہنچا سکیں لیکن یہ کیسی وادی ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت غنڈہ گردی کی نئی مثالیں قائم کررہا ہے اور مریضوں کو ہسپتال پہنچنے سے روکنے کے لیے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ بہت سے مریض بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث راستے میں ہی جاں بحق ہوجاتے ہیں اور لواحقین خاموشی سے اپنے پیاروں کو لحد میں اتارنے اور احتجاج کے سوا کچھ کر نہیں سکتے۔ان کی نم آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ کر اُس عدالت میں اپنا مقدمہ درج کراتی ہیں۔
بھارت سرکار کتنے ہی جھوٹے دعوے کر لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں سکول، کالج، تجارتی مراکز اور زندگی کے معمولات معطل ہیں۔کشمیریوں کی زندگی کا بڑا حصہ یا تو احتجاج یا پھر گھروں میں محصور رہ کر گزر رہا ہے۔غذائی قلت، بھوک سے بلکتے بچوں اور مریضوں کی اکھڑتی سانسوں سے مجبور کشمیری باہر نکلیں تو ان پر پیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔کشمیری رہنماؤں اور نوجوانوں سمیت بچے بھی جیلوں میں قید ہیں جبکہ کشمیریوں کو نمازِجمعہ بھی مساجد میں ادا نہیں کرنے دی جاتی اوریہ سب وہ ملک کر رہا ہے جو سیکولر جمہوریہ ہونے کا دعویدار ہے۔سخت ترین کرفیو اور مسلسل جبر کے باوجود بھارت کشمیریوں کے دلوں سے آزادی کا جذبہ نہیں نکال سکا، آج بھی گلی کوچوں میں ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔بھارت اپنے متنازع ترمیمی بل کی وجہ سے بڑی مشکل میں گِھر چکا ہے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کو مسلسل جبر سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر کشمیریوں کے ساتھ اس ناانصافی اور بھارت میں منظور کیے گئے شہریت کے کالے قانون کے خلاف بھارت سے شروع ہونے والے مظاہرے اب دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔ سیکولر کہلوانے والے اس ملک نے تو اب لوگوں سے احتجاج تک کی آزادی چھین لی ہے حتیٰ کہ غیرملکیوں پر بھی جبر کے ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیے ہیں۔آئے روز غیرملکی شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات دے دیے جاتے ہیں کیونکہ اس سے بھارت کا اصل چہرہ عیاں ہو جاتا ہے۔ بھارتی حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی بھی غیرملکی شہری یا صحافی مقبوضہ کشمیر کے اندر کی اصل صورت حال کو دنیا کے سامنے رپورٹ کر سکے۔ 2023ء میں‘ جب دنیا ایجادات کے نت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے‘ نئی نئی دنیائیں دریافت ہو رہی ہیں‘ ایسے میں کشمیری عوام کو سسک سسک کر مر نے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 35A اور 370 کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن سلام ہے کشمیریوں کے جذبے کو کہ وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ کسی بھی ملک کے حالات اور معمولاتِ زندگی کا پتا اس کا رخ کرنے والے سیاحوں سے چلتا ہے۔ بھارتی حکومت عالمی سطح پر اس حد تک رسوا ہو رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں موجود سیاحوں کو ہی بھارت چھوڑنے کے لیے کہہ دیاہے۔ گویا پورا بھارت ایک پُرتشدد جہنم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
کشمیریوں کے مطالبات میں سب سے اہم حقِ خود ارادیت ہے اور یہ حق انہیں اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں میں بھی حاصل ہے۔ کشمیری اپنی مرضی سے جسے چاہیں‘ منتخب کریں اور یہ حق انہیں ملنا ہی چاہیے۔ بھارت ابھی تک اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ شاید کشمیری اس حق سے اس لیے دستبردار ہو جائیں گے کیونکہ بھارت نے سات لاکھ سے زائد افواج کشمیر میں داخل کر رکھی ہیں اور کشمیری ان سے خوفزدہ ہو کر اپنا حق سرنڈر کر دیں گے۔ یہ کام ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔ ساڑھے سات دہائیوں تک کشمیری اپنے جان و مال کی قربانیاں نہ دیتے۔ یقینا کشمیری ایک غیور مسلم قوم ہیں اور ایک غیرت مند مسلمان کبھی بھی کسی دنیاوی طاقت کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا اور نہ ہی کبھی وہ ناجائز اقدامات کو سپورٹ کرے گا۔ بھارتی آئین کے آرٹیکلز پینتیس اے اور تین سو ستر کا خاتمہ دراصل بھارت کی شاطرانہ چال تھی لیکن اس سے بھی وہ کچھ حاصل نہ کر سکا۔اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی قوانین سارے کے سارے کشمیریوں کے حقوق کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن بھارت صرف اور صرف ڈھٹائی کی بنیاد پر انہیں ماننے کو آمادہ نہیں۔وہ سمجھتا ہے کہ وہ آج کے ایسے دور میں‘ جب ہر انسان کا ایک ایک پل ٹیکنالوجی کے ذریعے ریکارڈ ہو رہا ہے‘ دنیا کو دھوکا دے دے گا اور انہیں تو مقبوضہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھے گا۔ آج کے دور میں بھارت کے کشمیر میں کیے جانے والے مظالم کیسے ڈھکے چھپے رہ سکتے ہیں۔ گزشتہ سال یعنی 2022ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین اور کمسن بچوں سمیت 214 بے گناہ نہتے کشمیریوں کو شہید کیا، اسی طرح گزشتہ چھ دنوں میں مزید دس کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ عالمی برادری کو بھارت کے اس غیرجمہوری اور غیر انسانی رویے کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیرسے اپنی افواج کو واپس بلائے‘ کشمیریوں کو ان کا حقِ خودارادیت دے تاکہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جسے چاہیں‘ اپنے علاقے کا انتظام سونپ سکیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے علاوہ بھارت کی جانب سے متنازع شہریت بل کے ذریعے کروڑوں لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔مقبوضہ وادی کی خبریں پوری طرح باہر نہیں آتیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنت نظیر وادی اس وقت بری طرح لہو لہان ہے۔نئے سال میں کشمیریوں کے دکھ کم ہو سکیں گے یا نہیں‘ اس بارے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے اور اس پر مسلسل آواز بلند کرنے سے ہی عالمی برادری کشمیر کے حل کی طرف متوجہ ہو گی۔ نئے سال میں بھی کشمیری پاکستان کی طرف بڑی امید سے دیکھ رہے ہیں۔پاکستان یقینا کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو مزید ٹھوس انداز میں اٹھائے گا۔کشمیری صرف پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ پاکستان بھی ہر مشکل کی گھڑی میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ ہر نئے سال میں نئے عزم کے ساتھ ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہے کہ ہم مقبوضہ وادی سے بھارتی فوج کے انخلا اور کشمیر کی آزادی تک ان کے حق میں آواز اٹھاتے رہیں گے کیونکہ کشمیری ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ وہ ہمارے جسدِ اجتماعی کا حصہ ہیں۔ جس طرح جسم کے ایک عضو کو تکلف ہوتی ہے تو سارا جسم وہ درد محسوس کرتا ہے‘ ہم کشمیریوں پر ہونے والے جبر و ستم کی بھرپور مذمت کریں گے اور اپنی آخری سانس تک بھارتی بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔بھارت کا کشمیریوں کی آزادی کے خلاف اٹھایا گیا ہر قدم نہ صرف بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا بلکہ مقبوضہ کشمیرکے عوام بھارتی جبر سے آزاد ہو کر رہیں گے، ان شاء اللہ!