پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں اوسط آمدنی اتنی محدود ہو کہ اس میں شہری روٹی کے ساتھ کوئی سبزی تک کھانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں‘ وہاں پر بڑھتے ہوئے معاشی دبائو کی وجہ سے نفسیاتی امراض اور چڑچڑا پن بہت زیادہ عام ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عام لوگوں کو تو چھوڑ دیں‘ اشرافیہ کے پاس بھی کام کے دبائو کو دور کرنے کے لیے تفریح کی انتہائی محدود آپشنز ہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کچھ کرتے ہیں تو آئوٹنگ کے لیے کسی ریسٹورنٹ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سے آگے ان کی دوڑ ختم ہو جاتی ہے کیونکہ شہروں میں ایسے کوئی معیاری تفریحی مقامات ہیں ہی نہیں جہاں جا کر انسان کچھ دیر ریلیکس کر سکے۔ ایسے میں اگر کوئی غیرملکی کافی کا برانڈ اپنی برانچ کھول لے اور لوگ وہاں پہنچ جائیں تو ایک طبقہ اس کے بھی پیچھے پڑ جاتا ہے کہ ایک طرف ملک میں اتنی غربت ہے کہ لوگوں کو آٹا قطار میں لگ کر بھی نہیں مل رہا اور دوسری جانب امپورٹڈ کافی کے لیے لوگ قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔ ویسے یہ لوگ یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ گھروں میں رہیں گے تو موبائل فون ہاتھ سے نہیں چھوٹے گا۔ اگر وہ باہر جاتے ہیں تو صرف کھانا یا چائے کافی ہی پی سکتے ہیں‘ اس پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ سوال یہ ہے کہ یہ تو صرف کافی کا ایک عالمی برانڈ ہے‘ اس کے علاوہ بھی کھانے پینے کی اشیا کے درجنوں غیر ملکی برانڈز ملک میں کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں‘ تو کیا ان سب کو بند کر دیا جانا چاہئے؟ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں کھا رہے؟ کیا ہمارے بچے آدھی آدھی رات تک موبائل سے آرڈر نہیں کر رہے؟ پہلے ہی اس ملک میں کوئی آنے کو تیار نہیں اور اگر کوئی بھولا بھٹکا یہاں سرمایہ لے کر آ جاتا ہے تو ہم لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے بالکل کٹ جائیں‘ بالکل تنہا رہ جائیں اور کوئی بھی یہاں کاروبار نہ کر سکے؟
جہاں تک ذائقے کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کھانے دنیا بھر میں مشہور ہیں‘ لوگ دیگر ملکوں سے آ کر یہاں کے کھانوں کی تعریف کرتے ہیں۔ کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ کھانوں کی جان دار ورائٹی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ بہت سے غیر ملکی وی لاگر یہاں آتے ہیں اور پشاور کی نمک منڈی‘ لاہور کی فوڈ سٹریٹ (گوالمنڈی) اور کراچی کی برنس روڈ کے خوش ذائقہ کھانوں کے مزے لوٹتے ہیں۔ خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے وی لاگز کے ذریعے دنیا کو بھی پاکستان کے قسم قسم کے کھانوں سے متعارف کراتے ہیں ۔
بات اب ذائقے تک محدود نہیں رہی۔ ہمارے کھانے تو دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں لیکن جس چیز میں ہم مار کھا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکی و یورپی اپنی چیزوں کی برانڈنگ اور سکیلنگ (Scaling) پر توجہ دیتے ہیں اور مہارت کے ساتھ انہیں پوری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں فوڈ سٹریٹ (گوالمنڈی) کی کسی ڈیڑھ سو سال پرانی گلی میں مشہور مرغ چنے والا‘ ہریسہ یا نہاری بیچنے والا کھانا تو بڑا مزیدار بناتا ہے‘ لوگ دور دور سے یہاں آ کر کھاتے بھی ہیں لیکن اس میں اتنی سمجھ بوجھ نہیں کہ وہ اپنے کاروبار کو Scale کر سکے اور دوسرے شہروں اور ممالک میں اسے پھیلا سکے۔ اب اگر یہ کام یورپینز اور امریکیوں کو بہتر آتا ہے تو اس میں رونے دھونے کا کیا فائدہ؟ ہمارا کسی نے ہاتھ تو نہیں روکا ہوا کہ ہم چائے‘ کافی‘ نہاری‘ہریسہ یا کسی اور چیز کا برانڈ نہ بنائیں۔ ہم تو جس گلی یا محلے سے شروع کرتے ہیں‘ بناتے بناتے وہ کاروبار دو‘ تین عشروں بعد وہیں پر ختم کر بیٹھتے ہیں۔
آج کا دور برانڈنگ کا دور ہے۔ یہاں تک کہ عام نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی جب خود کو برانڈ بنا لیتے ہیں تو ہی ان کی قیمت لگتی ہے اور دنیا بھی ان کے بارے میں جان پاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم سب بچپن میں دوستوں اور کزنوں کے ساتھ ہر چھٹی والے دن صبح نان چنے کھانے کے لیے سمن آباد کے علاقے پکی ٹھٹی جایا کرتے تھے۔ الممتاز سینما کے قریب ہی چند گلیاں چھوڑ کر اُس شخص کا پرانا سا مکان تھا۔ وہیں گھر کے باہر وہ ریڑھی لگاتا تھا اور چھٹی والے دن‘ صبح صبح جتنے بھی نوجوان کرکٹ وغیرہ کھیلنے کے لیے سمن آباد کی گرائونڈز میں جایا کرتے تھے‘ وہ لازماً وہاں جا کر ناشتہ کرتے تھے۔ وہ شخص اپنی بیگم اور بھائی کی مدد سے ساری رات میں چنے کے دو بڑے پتیلے تیار کرتا اور صبح طلوع آفتاب کے بعد گھر کے باہر لگی ریڑھی پر لا رکھتا‘ جہاں پہلے سے ایک طویل قطار اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو یہ قطار بل کھاتی ہوئی ساتھ والی گلی تک چلی جاتی تھی۔ صبح قریب سات بجے وہ چنے بیچنا شروع کرتا اور نو‘ ساڑھے نو بجے تک فارغ ہو جاتا۔ دو‘ ڈھائی گھنٹے میں وہ اتنے پیسے کما لیتا کہ مزید کوئی کام کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ذائقہ اور فن تو ہوتا ہے لیکن تعلیم یا تجربہ نہ ہونے کے باعث یہ اپنی پراڈکٹ کی برانڈنگ اور سکیلنگ نہیں کر پاتے اور بالآخر ان کے ساتھ ان کا کاروبار بھی انتقال کر جاتا ہے۔ کوئی بہت قسمت والا ہو تو وہ اپنے فن کو‘ اپنے ذائقے کو آگے منتقل کر دیتا ہے لیکن نئی جنریشن عموماً اس طرح کے کام کم ہی کرنے کو تیار ہوتی ہے اس لیے وہ کام وہیں ٹھپ ہو جاتا ہے۔
صرف ہماری قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں برانڈز کی اشیا پسند کی جاتی ہیں۔ آپ اسے نفسیاتی مرض بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اب یہ شوق اور جنون بن چکا ہے۔ اگر آپ کسی کے گھر میں کسی عالمی برانڈ کی کافی سے بھی زیادہ لذیذ اور عمدہ کافی پیئیں گے‘ تب بھی آپ کا ذہن اس بات پر تیار نہیں ہو گا کہ آپ اس کافی کو عالمی برانڈ کی کافی پہ ترجیح دے سکیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر خواتین برانڈ کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ جس طرح کی آرا کافی کے برانڈ کے معاملے میں آ رہی ہیں‘ ایسا ہی شور اس وقت بھی اٹھتا ہے جب خواتین کسی برانڈ کی سیل پر ٹوٹ پڑتی ہیں یا جب کسی کپڑوں کے سٹور میں ہونے والی بھگدڑ کی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔ تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ایک طرف گھریلو خواتین مہنگائی کا رونا روتی رہتی ہیں تو دوسری جانب بیس‘ بیس ہزار روپے والا برانڈڈ سوٹ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ کینیڈا‘ امریکہ وغیرہ میں بھی آپ کو بڑے بڑے سٹورز میں بھارتی کمپنیوں کے پکے پکائے معروف کھانے سیل بند ڈبوں میں مل جاتے ہیں جبکہ پاکستانی کھانے خال خال ہی ملیں گے۔
یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہاں لوگ صرف ذائقے کے لیے باہر نہیں نکلتے۔ انہیں کھانے پینے کے لیے جو ماحول مہیا کیا جاتا ہے‘ اس پر ہمارے لوکل برانڈز توجہ نہیں دیتے۔ آج کل تو سوشل میڈیا کا دور ہے‘ جس کے ذریعے کسی بھی برانڈ کی ٹارگٹڈ تشہیر ممکن ہو چکی ہے۔ آپ اگر شوارما ہی بیچ رہے ہیں‘ تب بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے آسانی سے اٹھارہ سے تیس برس کی عمر کے نوجوانوں تک موبائل فون کے ذریعے اشتہار یا پیغام پہنچا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ یہ شوارما واقعی اتنا لذیذ ہو اور اس کا نام اور بیچنے کا انداز اس قدر منفرد ہو کہ صارف اسے دوبارہ منگوانے پر مجبور ہو جائے۔ بہت سے لوگ پنجیری‘ شہد‘ گلاب جامن اور دیگر چیزیں برانڈنگ کے ذریعے سوشل میڈیا سے بیچ رہے ہیں اور اچھی خاصی آمدن کما رہے ہیں۔ اس کے لیے بہت زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ بس جو چیز بیچ رہے ہیں‘ اس کا معیار اور کوالٹی بہترین رکھیں‘ پیکنگ جاذب نظر ہو‘ ڈِلیوری ٹائم کم سے کم ہو اور کسٹمر سپورٹ بھی موجود ہو تو کوئی شک نہیں کہ آپ کلک نہ کر سکیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مکھی پہ مکھی مارنے کے عادی ہیں۔ جس ڈگر پر پچھلے چل رہے تھے‘ اسی پر چلے جا رہے ہیں۔ دنیا کیا کر رہی ہے‘ کیسے تبدیل ہو رہی ہے اور کمانے اور خرچ کرنے کے انداز کتنے بدل چکے ہیں‘ اس بارے میں جانے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم تنقید کے خول سے باہر نکل آئیں اور خود بھی ایسا کوئی برانڈ متعارف کرا سکیں کہ خریدار اسی طرح طویل قطاروں میں لگ کر ہماری بھی چیزیں خریدیں۔ یقین جانیں‘ تب ایسی قطاریں ہمیں ذرا بھی بری نہیں لگیں گی۔