"ACH" (space) message & send to 7575

اس کام میں بھی پیسہ لگتا ہے؟

اگر آپ اپنی دماغی و جسمانی صحت بڑھانا چاہتے ہیں تو دوپہر کے وقت بیس منٹ کا قیلولہ یا پاور نیپ لے لیں۔ یہ بات دین اور سائنس سے بھی ثابت ہے جبکہ برازیل‘ سپین‘ میکسیکو سمیت بہت سے جدید ممالک میں بھی دوپہر کے وقت لازمی چند منٹ آرام کیا جاتا ہے۔ دوپہر ایک سے تین بجے کے درمیان سونے کے بے شمار فوائد سامنے آئے ہیں۔ چستی آتی ہے‘ انسان کا موڈ اور رویہ بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ یادداشت اور حافظے کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے‘ آپ کسی دفترمیں کام کرتے ہیں‘ دکان میں یا فیکٹری میں‘ صبح سے رات گئے تک اگر آپ مسلسل کام کرتے ہیں تو یہ آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ درمیان میں وقفہ نہیں لیتے‘ کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند نہیں کرتے یا دوسرے لفظوں میں اپنے جسم کی ساری مشینری کو پندرہ بیس منٹ کے لیے سٹینڈ بائے پر نہیں لے جاتے تو اس سے آپ کی جسمانی اور ذہنی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پر سفر کریں اور درمیان میں کہیں بھی بریک نہ لیں۔ مسلسل سفر سے آپ بیس تیس منٹ قبل تو پہنچ جائیں گے لیکن وہاں جا کر آپ کا جسم اور دماغ دونوں اس شخص کی نسبت کئی گنا زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوں گے جو شخص راستے میں ایک سے دو مرتبہ چند منٹ سستانے کے لیے رکا‘ اس نے ہاتھ منہ دھویا‘ چائے پی اور کچھ دیر آنکھیں بند کیں۔
ایک سروے کے مطابق ہفتے میں چار مرتبہ قیلولہ کرنے والے افراد ذہنی دبائو کا کم شکار ہوئے بہ نسبت ان کے جو قیلولہ نہیں کرتے۔ قیلولہ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ البتہ اس کا ٹائم بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب یہ نہیں کہ قیلولہ کے نام پر آپ ایک بجے سوئیں اور شام تک سوتے ہی رہیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کی رات کی نیند متاثر ہو سکتی ہے۔ بعض افراد پانچ منٹ سونے سے ہی فریش ہو جاتے ہیں۔ دراصل قیلولہ کا اصل مقصد مائنڈ کو ری سیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ صبح سے اب تک دماغ میں جو چیزیں چل رہی ہوتی ہیں ان کا دبائو اس طرح سے برقرار نہ رہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آنکھیں بند کرکے بالکل اسی طرح سونے کی کوشش کی جائے جیسا کہ رات کو کی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں آپ ٹائمر لگا سکتے ہیں کہ دس یا بیس منٹ بعد آپ جاگ جائیں کیونکہ دفاتر میں آدھا گھنٹہ یا زیادہ سونا ممکن نہیں۔ بریک میں آپ نے نماز پڑھنی ہوتی ہے اور کھانے کا بھی وقت ہوتا ہے۔ اس لیے چند منٹ اس مقصد کے لیے کافی ہوتے ہیں بشرطیکہ اس دوران جسم اور دماغ کو مکمل پُرسکون رکھا جائے اور موبائل پر انگلیاں نہ ماری جائیں۔ کچھ لوگ مگر یہاں بھی باز نہیں آتے اور جیسے رات کو آخری وقت تک موبائل کی سکرین سے چپکے رہتے ہیں اسی طرح قیلولہ میں بھی موبائل پر نظریں جما لیتے ہیں۔ یہ سراسر حماقت ہے اس طرح تو دماغ پُرسکون ہونے کے بجائے مزید انتشار اور بے سکونی کا شکار ہو جائے گا اور قیلولہ کا اصل مقصد بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ایک تحقیق کے مطابق دوپہر کو کچھ دیر سستانے والے افراد ریاضی میں اچھے ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق دیگر شعبوں کے بارے میں بھی درست ہو سکتی ہے یعنی اگر ایک سپورٹس مین دوپہر کو کچھ دیر سستاتا ہے تو اس کا کھیل مزید بہتر ہوگا اور وہ اپنے دماغ اور جسم سے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں کام لے سکے گا۔ اسی طرح لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والے‘ بالخصوص کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین سے جڑے افراد کے لیے تو دوپہر کا پاور نیپ اشد ضروری ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی بستر بچھا کر یا پائوں پسار کر سونا ضروری نہیں بلکہ کچھ لوگ تو اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے بھی پاور نیپ لے لیتے ہیں بشرطیکہ ان کا اردگرد کا ماحول پُرسکون ہو۔
بعض لوگ البتہ زندگی میں بھی مسلسل سفر کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں چند منٹ کے لیے وہ رک گئے‘ انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور ان کی توجہ ادھر اُدھر ہو گئی تو پتا نہیں کیا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا‘ دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے گی اور سارا نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے گا۔ یہ انسان کی خام خیالی ہے کہ وہ اس نظام کے لیے بہت زیادہ لازم و ملزوم بن چکا ہے۔ دنیا میں ایسے ایسے افراد کا نام اور قبریں تک مٹ گئی ہیں جو اپنے دور کے بڑے ہلاکو خان تھے اور جن کی ہیبت سے زمین کانپ جایا کرتی تھی‘ وہ نہیں رہے تو کیا ہوا۔ ہم خود اپنے آپ کو بھی دیکھ لیں۔ ہم میں سے کتنے لوگوں کو اپنے پردادا یا اس سے آگے کا نام یاد ہے۔ ہٹلر نے لاکھوں افراد کو مارا‘ اس کے پاس بھی آرام کا وقت نہیں تھا‘ وہ بھی چاہتا تھا کہ وہ بغیر کوئی وقفہ کیے دنیا فتح کرتا رہے لیکن بالآخر اس کا بھی وہی انجام ہوا جو ہر کسی کا ہونا ہے تو پھر کیسی بے قراری‘ کیسی بے چینی اور کاہے کی جلدی؟ ہم تو اپنے کاموں اور کاروبار میں اتنے مصروف ہیں کہ ہمیں بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ انسان مشین ہے‘ نہ مشین بن سکتا ہے جبکہ مشینوں کی بھی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔ انہیں بھی دیکھ بھال اور مرمت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہم مشینوں سے بھی آگے کے چکر میں ہیں۔ ہر وقت کام اور پیسہ اکٹھا کرنے کی فکر نے اَدھ موا کر رکھا ہے۔ نہ کسی کے پاس دوسروں کے لیے وقت ہے اور نہ ہی اپنے لیے۔ ہر کوئی بہت زیادہ مصروف ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ تر کام موبائل فونز کے ذریعے ہی نمٹا دیے جائیں۔ عید کارڈ بھیجنا ہو یا ولیمے کا دعوت نامہ‘ اب کم ہی لوگ دوستوں‘ رشتہ داروں کے گھر جا کر ایسی کوئی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی مصروفیات ختم کیوں نہیں ہوتیں؟ ہم لوگوں کا بس چلے تو نیند میں بھی ہاتھ پیر مارتے رہیں۔ ویسے کتنے ہی لوگ ہیں جو رات کو اچھی نیند نہیں لے پاتے۔ اصل نیند وہ ہے کہ جس میں بندہ رات کو لیٹے اور سات آٹھ گھنٹے بعد ہی آنکھ کھلے اور اگر صبح اٹھ کر جسم اور دماغ دونوں پھر بھی تھکے اور بوجھل محسوس ہوں تو سمجھ لیں کہ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ پھر کچھ لوگوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ وہ جو کام کر رہے ہوتے ہیں اس کے دوران اس سے اگلے یا پچھلے کام کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں اور یوں ٹھیک طرح سے وہ کام بھی نہیں کر پاتے۔ ان مسائل کی وجوہات کچھ بھی ہوں؛ تاہم اس سے نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ ہم بظاہر جتنا بھی خود کو تیس مار خان سمجھ لیں ہم اب امریکہ یا دیگر جدید ممالک کی ترقی کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے‘ اگر وہاں کام کے دوران دوپہر کو سستانے کا رواج موجود ہے‘ اگر وہ اپنی چیزوں اور شیڈول کو پندرہ بیس منٹ کے آرام کے باوجود مینج کر لیتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے اور ہمارے لیے کیا مشکل ہے۔ اگر ہم دوپہر کا کھانا بروقت کھائیں‘ ظہر کی نماز پڑھیں اور اس کے ساتھ دس سے بیس منٹ کا قیلولہ کر لیں تو باقی آدھا دن ہم دوبارہ سے فریش ہو کر گزار سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے مہنگائی بہت ہے اور ہم ہر کام سے پہلے روپے پیسے کا حساب ضرور کرتے ہیں مگر کیا اس کام میں پیسہ لگتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں