28 مئی کو پورے ملک میں یومِ تکبیر اور ایٹمی دھماکوں کی سلور جوبلی منائی گئی۔ پچیس برس قبل‘ 1998ء میں اسی دن پاکستان ایٹمی طاقت بن کر بیرونی جارحیت سے محفوظ ہو گیا تھا لیکن اندرونی جارحیت کسی نہ کسی طور جاری رہی اور حال میں ہی جس کا مظاہرہ 9 مئی کو دیکھا گیا ‘یعنی وہ سیاستدان جو پرچم تو پاکستان کا اٹھا تے ہیں‘ مگر اپنے ہی کارکنوں کو ہلّہ شیری دے کر ملک کی سالمیت کو روندنے کے لیے اپنے ہی ملکی اداروں اور شہیدوں کی یادگاروں پر چڑھ دوڑنے کا حکم دیتے ہیں۔ امید ہے اس جارحیت کا بھی جلد شافی و کافی علاج کر لیا جائے گا کیونکہ اس کا نقصان معیشت کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی ہو رہا ہے جو اس طرح کے دور میں پروان چڑھ رہی ہے جس میں جھوٹ اور بہتان تراشی کو سیاست کا نام دے کر عوام کے جذبات سے شرانگیز کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا یہ کارنامہ کبھی بھلایا نہ جا سکے گا اور نہ ہی ان کا کوئی حریف اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر پاکستان کو کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں بنیادی اور اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں مئی 1998ء میں اپنی جوہری طاقت کا شاندار مظاہرہ کیا جس کے بعد پاکستان کو مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ اس دن کو یومِ تکبیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ جب پاکستان نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں کامیاب ایٹمی دھماکوں کے ذریعے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا دندان شکن جواب دیا تھا۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے پاکستان کی عظمت کا اعلان ہوا تو دشمن کے عزائم خاک میں مل گئے۔کامیاب ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی چاغی کے پہاڑوں پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا جسے پوری دنیا میں سنا گیا۔ وطن عزیر پر حملے کی خواہش مند بھارتی حکومت کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے نہ صرف ملک کی سرحدیں محفوظ ہو گئیں بلکہ دشمن کا تکبر بھی خاک میں مل کر رہ گیا۔میاں محمدنواز شریف اس وقت ملک کے وزیراعظم تھے اور پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کیلئے انہیں دنیا بھر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کے لیے دباؤ اور دھمکیوں کی پروا نہ کی۔انہیں کہا گیا کہ اگر پاکستان نے یہ دھماکے کیے تو اس پر سخت معاشی پابندیاں لگا دی جائیں گی جس کے نتیجے میں پاکستان کے معاشی حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ صنعتی اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ری ایکٹر کی تعمیر کی یادداشت پر 1953ء میں دستخط کیے تھے۔ اسی سال امریکہ کی ''ایٹم فار پیس‘‘پالیسی کی حمایت کی اور بعد ازاں اس کے ساتھ پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی یادداشت کے بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کے فروغ کے لیے اٹامک انرجی کمیشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا۔پاکستان نے 1960ء اور 1963ء کے دوران یورینیم کی تلاش کا پروجیکٹ شروع کیا جس کے تحت لاہور اور ڈھاکہ میں دو سنٹرز قائم کیے گئے۔ ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر ملنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کو نکالنا شروع کیا۔ 1965ء میں پاکستانی اداروں کوعلم ہوا کہ بھارت ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی کررہا ہے جس پر اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر ایوب خان نے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے پاکستانی انجینئر منیراحمد خان سے ملاقاتیں کیں؛ تاہم وقتی طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان نے کینیڈا کی مدد سے 1972ء میں پہلا سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر لگایا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد سے پاکستانی حکام نے یہ بھی سوچنا شروع کر دیا تھا کہ بھارت سے مقابلہ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ایٹمی قوت کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا‘ چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔ 1974ء میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلاؤ تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کر دیا۔ 1979ء میں امریکہ نے پاکستان کی عسکری اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن نہیں رہا۔پاکستان نے 1980ء میں دعویٰ کیا کہ وہ ملک کے اندر موجود یورینیم سے ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔امریکہ نے 1982ء میں خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور سٹریٹیجک تبدیلیوں (افغان جنگ) کے سبب پاکستان پر عائد معاشی اور عسکری امداد کی پابندیاں ہٹا لیں؛ تاہم ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بنا پرامریکہ نے (افغان جنگ کے بعد) 1990ء میں دوبارہ پاکستان پر معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں۔
بھارت نے 1996ء میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998ء میں ایٹمی میزائل غوری کا تجربہ کیا۔بھارت نے 11 اور 13 مئی 1998ء کو یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی سیاسی قیادت کی جانب سے پاکستان سے متعلق دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ پاکستان کو پانچ ارب ڈالرز کی امداد کی آفر بھی ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی مختلف طرح کی پیشکشیں کی گئیں اور نہ ماننے کی صورت میں پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں؛ تاہم سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم کی امنگوں اور ملکی مفاد میں فیصلہ کیا اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے اپنے سائنسدانوں کو ٹاسک دے دیا۔
پاکستان کے قابلِ فخر ایٹمی سائنس دانوں نے کہوٹہ کی تجربہ گاہ میں 1974ء میں یورینیم کی افزودگی کا کام شروع کیا تھا۔ ان کی محنت 1978ء میں رنگ لا چکی تھی اور وہ 1982ء تک 90 فیصد یورینیم افزودگی کے قابل ہو چکے تھے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنسدانوں نے 1984ء میں ہی جوہری دھماکا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور انہوں نے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق سے بھی کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں۔ 1998ء میں بھارت نے 11 مئی کو پوکھران کے مقام پر تین ایٹمی دھماکے کیے جبکہ دو روز بعد 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔پاکستان کے ایٹمی تجربات کی صورت میں اس پر نہ صرف پابندیاں لاگو ہو سکتی تھیں بلکہ عالمی امداد میں کٹوتی بھی کی جا سکتی تھی۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس طرح کی پابندیوں کا متحمل نہیں تھا لیکن یہ معاملہ معیشت سے زیادہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا تھا۔ اگر اس وقت چند ارب ڈالرز حاصل کر لئے جاتے تو بھی اس سے پاکستان نے جدید ملک نہیں بن جانا تھا؛ البتہ پاکستان کا وجود اور اس کی سالمیت خطرے پر پڑ سکتی تھی اور یہ فیصلہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں تھا کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک کس طرح پہنچاتے ہیں۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے فوراً بعد پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سے رابطہ کیا۔ ان 18 دنوں میں صدر بل کلنٹن نے پانچ دفعہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اس کے علاوہ ایک مندوب وزیراعظم نواز شریف کے پاس جاپانی وزیراعظم کا خط لے کر آیا۔ سب کی ایک ہی درخواست تھی کہ پاکستان بھارت کے تجربات کا جواب مت دے؛ تاہم یہ ساری پیشکشیں اور دبائو رد کر دیے گئے اور یوں ذوالفقار علی بھٹو نے جس تاریخی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی‘ نواز شریف نے اس پروگرام کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچا کر پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا عملی اعلان کر دیا۔ ایٹمی قوت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان پہلی مسلم ایٹمی طاقت بنا بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی قائم ہو گیا۔