اس ملک کو سکون اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے جیسا کہ گزشتہ رو ز وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے دیکھنے کو ملا۔ نہ کوئی بجٹ کاپیاں پھاڑ رہا تھا‘ نہ کوئی سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کر رہا تھا نہ کوئی شور و غلغلہ مچا رہا تھا۔وہ لوگ جو گزشتہ برس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی منفی خبریں پھیلائے جا رہے ہیں اور جنہوں نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی خاطر ملک کے دفاعی اداروں تک کو نشانے پر لے لیا اور ان کے خلاف عوام میں نفرت بھرنے کی کوشش کی‘ وہ اس موقع پر موجود ہوتے تو اپنی روایت ضرور دہراتے لیکن امید ہے یہ رہے سہے عزائم بھی جلد ناکام ہو جائیں گے اور پاکستان کو سری لنکا بنانے یا ڈیفالٹ کرتا دیکھنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا‘ ان شاء اللہ! یہ ایسے نابالغ سیاستدان ہیں کہ اگر انہیں اقتدار مل جائے تو یہ اپنے دورِ حکومت کو تاریخ کا سنہرا ترین دور کہنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر اقتدار ان کے ہاتھ سے چھن جائے تو یہ پورے نظام کو آگ لگانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ایسے بلوائی سیاستدانوں سے خدا ملک کو بچائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ انہیں بھی احتساب کے شکنجے میں لایا جائے جنہوں نے کارکنوں کو بلووں پر اکسایا اور ہر جانب نفرت کی فصل اگائی۔ایک پریس کانفرنس کر دینے سے کسی کے گناہ نہیں دھل سکتے اور نہ ہی پارٹی تبدیل کرنے سے کوئی اپنے جرائم سے پاک ہو سکتا ہے۔ آج وہ بچے‘ وہ نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں لیکن انہیں گمراہ کرنے والے ٹی وی پر آنسو بہانے کی ایکٹنگ کر کے اپنے گناہوں سے پاک ہوتے جا رہے ہیں۔جتنی کڑی سزا اُن بچوں اور نوجوانوں کو مل رہی ہے‘ جو جذبات کی رو میں بہہ کر دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملہ آور ہوئے تھے‘ ان سے زیادہ انہیں بہکانے والوں کو ملنی چاہیے اور انہیں واقعتاً نشانِ عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی سیاستدان‘ جو کسی مرتبے یا سیاسی عہدے پر فائز ہو‘ عوام کو بلوے اور بغاوت پر اُکسانے سے پہلے ہزار بار سوچے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو‘ جو آن لائن کام کر کے یا اچھے اداروں میں جاب کر کے ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ تک کما رہے تھے‘ آج انہیں تحریک انصاف کی قیادت پہچاننے سے ہی انکاری ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف معصومیت سے کہتے ہیں وہ تو حراست میں تھے‘ انہیں کیا پتاکہ باہر کیا ہو رہا ہے۔
پچھلے برس ان کی حکومت کیا گئی‘ انہوں نے اس کا بدلہ ملکی معیشت‘ امن و امان اور عوام سے لینا شروع کر دیا۔ ملکی معیشت کا بھرکس نکالنے کے لیے انہوں نے کیا کیا جتن نہیں کیے۔ آئے روز جلسے‘ جلوس‘ ہڑتالیں‘سڑکیں بند‘ کاروبار بند‘ دھمکیاں؛ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ سکرپٹ کے تحت کیا گیا تاکہ ملک کا زیادہ سے زیادہ معاشی نقصان ہو اور یہ نقصان پی ڈی ایم کے کھاتے میں ڈال کر عوام کی نگاہوں میں اتحادی حکومت کو مجرم اور خود کو ہیرو ثابت کیا جائے۔یقینا یہ سب کچھ ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت کیا گیا اور اس جماعت کے ہر سیاستدان کی جانب سے روزانہ یہ بیان جاری کیا جانے لگے کہ ملک بس چند دنوں میں ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔ ملکی فضا کو غیر متوازن اور غیریقینی بنانے کے لیے طرح طرح کی سازشی تھیوریاں بنائی گئیں جو خدا کے فضل سے‘ وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ لیکن ان افواہوں اور بدخواہو ں کی وجہ سے سرمایہ کار ملک میں سرمایہ لگانے سے احتراز برتنے لگا‘ تاجر کاروبار کرنے اور گاہک خریداری کرنے میں ہچکچانے لگے۔
اس جماعت کے لیڈر آج غیرملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو پاکستان نہیں آنا چاہیے کیونکہ یہاں ان کے لیے خطرہ ہے، سوال یہ ہے کہ یہاں جو عوام کے بچے ہیں‘ جو آپ کی اندھی محبت میں گرفتار ہو کر اداروں پر حملہ آور ہوئے اور اب سزائوں کے منتظر ہیں‘ جن کے والدین‘ جن کے پیاروں کا رو رو کر برا حال ہے‘ آپ کو ان بچوں کی کتنی فکر ہے؟ انقلاب کا اتنا ہی شوق تھا تو اپنے بچوں کو بھی برطانیہ سے بلاتے اور انہیں بھی ملک و قوم کے دیگر بچوں کی طرح ٹریٹ کرتے۔ ملک افتراق و انتشار کی آگ میں سلگ رہا تھا اور آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ پہاڑوں کی سیریں یاد آ رہی تھیں۔ جن کے بچے جعلی انقلاب کے چکر میں جیل کی چکی میں پس رہے ہیں‘ کیا اب ان کے ماں باپ کو اپنے بچے یاد نہیں آتے ہوں گے؟ان کی رہائی کے لیے اب تک آپ نے کیا کیا ہے؟ کدھر ہیں آپ کے وہ ملکی اور اوورسیزڈونرز‘ جو جلسوں اور دھرنوں کے لیے کروڑوں‘ اربوں روپے چندے کے طور پر دیتے ہیں‘وہ کیوں نہیں ان افراد کے گھر والوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھا رہے‘ کیوں جیلوں میں قید افراد کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے؟ کیا صرف نوجوانوں کو بہکا کر جلسوں میں لانا اور ان سے نعرے لگوانا ہی آپ کا مقصد تھا؟ کل تک آپ حکومت پر ''امپورٹڈ‘‘ کی پھبتی کس رہے تھے اور بیانیہ یہ بنایا تھا کہ آپ کی حکومت کو گرانے اور پی ڈی ایم کو برسرِ اقتدار لانے کا پلان امریکہ میں بنایا گیا اور آج آپ امریکی سینیٹرز سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ آج آپ انسانی حقوق کے نام پر امریکہ کو پکار رہے ہیں، خدارا! سیاست کو اس حد تک نہ گرائیں کہ یہ طعنہ و گالی بن جائے، پہلے ہی یہ بہت بدنام ہے اور اب تو اس کو دہشت کی حد تک خوف ناک بنا دیا گیا ہے۔
موجودہ تلخ معاشی و سیاسی حالات میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جس طرح کا متوازن بجٹ پیش کیا ہے‘ اس پر اپوزیشن سمیت سبھی مخالفین گنگ ہیں۔ نہ اس بجٹ میں بہت زیادہ اور غیر ضروری ٹیکسز لگائے گئے ہیں اور نہ ہی ایسے اقدامات کیے گئے ہیں کہ مخالفین کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے۔ نان فائلرز کو البتہ شکنجے میں لانے پر ضرور فوکس کیا گیا اور یہ ضروری بھی ہے تاکہ اکانومی کو زیادہ سے زیادہ ڈاکیومنٹڈ بنایا جا سکے۔ بینکوں سے پچاس ہزار روپے سے زائد رقوم نکلوانے پر 0.6 فیصد ٹیکس نافذ کیا گیا ہے‘ جو اچھی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹیکس اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح پلاٹ خریدنے والے نان فائلرز پر بھی ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر پر فوکس کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔ سروس انڈسٹری کے ذریعے ہی پاکستان میں کم وقت میں زیادہ تیزی سے زرمبادلہ آ سکتا ہے۔ آئی ٹی کو ایس ایم ای (سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز) کا درجہ دینے سے نوجوانوں کو کمپنیاں بنانے اور قرضے وغیرہ حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔ اس سے قبل آئی ٹی کمپنیوں کو معیشت کا باقاعدہ حصہ نہیں مانا جا رہا تھا۔ امپورٹڈ لگژری آئٹمز پر ٹیکس بڑھانے سے ملکی مصنوعات کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ایک اور اچھا کام شمسی توانائی کے پینلز اور اس سے جڑی مشینری پر ٹیکس کم کرنا ہے۔ اس سے سولر پینلز کے بڑھتے ہوئے ریٹس نہ صرف رُک جائیں گے بلکہ بتدریج کم بھی ہوں گے جبکہ اس سے بجلی کے متبادل ذرائع کی طرف رجحان بڑھے گا۔ زرعی مشینری کو ڈیوٹی اور ٹیکسز سے استثنا دیا گیا ہے، بیجوں کی درآمد پر بھی ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کیا گیا ہے۔ صحافیوں کے لیے انشورنس پالیسی کا اعلان بھی خوش آئند ہے۔ کینسر ادویات کی قیمتوں میں کمی بہت ضروری تھی کیونکہ کینسر کا علاج پہلے ہی بہت مہنگا ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں ستمبر 2020ء میں ادویات کی قیمتوں میں 262 فیصد تک اضافہ کیا گیا تھا جس سے ایمرجنسی دوائیاں بشمول امراضِ قلب‘ ذیابیطس‘ ہائی بلڈ پریشر اور کینسر کی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا تھا۔ حکومت کے اس اقدام پر کینسر اور دوسری بیماریوں میں مبتلا مریضوں نے سڑکوں پر آ کر کئی روز تک احتجاج بھی کیا تھا لیکن یہ احتجاج بنی گالا یا ایوانِ وزیراعظم تک اس لیے نہیں پہنچ سکا تھا کہ عین اسی وقت وہاں پر 60 ارب کا ریلیف دینے اور بدلے میں 458 کنال زمین ٹرسٹ کے نام پر لینے جیسے ضروری کام کیے جا رہے تھے۔