یورپ اور امریکہ ہمیشہ سے ترقی پذیر ممالک کے عوام کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ صرف اَن پڑھ یا بیروزگار افراد ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور اپنے اپنے ملکوں میں اچھے خاصے سیٹلڈ لوگ بھی ان ممالک کا رخ کرتے ہیں؛ تاہم پڑھے لکھے اور پروفیشنل ڈگری کے حامل افراد ان ملکوں میں قانونی طریقے سے جاتے ہیں اور بہتر روزگار بھی حاصل کر لیتے ہیں جبکہ اَن پڑھ یا ایسے کم پڑھے لکھے افراد جن کے پاس کوئی ہنر بھی نہیں ہوتا‘ وہ یہ سوچ کر یہ انتہائی اقدام اٹھالیتے ہیں کہ وہاں جا کر جو کام بھی کرنا پڑاکر لیں گے‘ بس ایک مرتبہ جیسے تیسے کر کے وہاں پہنچ جائیں۔ دیکھا جائے تو یہ لوگ اگر مغربی ممالک میں پہنچنے کے لیے غیرقانونی راستے اختیار کرتے ہیں تو اول‘ ان کے وہاں پہنچنے کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے یہ سمندر کی لہروں‘مختلف سرحدوں کی پولیس اور بھوک پیاس سے لڑتے ہوئے یورپ اور امریکہ پہنچ جاتے ہیں‘ تب بھی انہیں وہاں سیٹل ہونے میں دس سے بیس سال لگ جاتے ہیں کیونکہ پاسپورٹ اور دیگر قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باعث انہیں نہ تو باعزت روزگار مل پاتا ہے اور نہ ہی مناسب اجرت۔ اسی وجہ سے یہ آجر کی کسی فورم پر شکایت بھی نہیں کر سکتے کہ کہیں ڈی پورٹ نہ کر دیے جائیں۔
14 جون کو ساڑھے سات سو کے قریب افراد ایسے ہی خواب لے کر ایک ایسی کشتی میں سوار ہوئے جو زیادہ افراد کے سفر کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی تھی اور جسے صرف ماہی گیری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر انسانی سمگلروں کو انسانی جانوں کی پروا ہی کب ہوتی ہے۔ پیسے بچانے کے لیے انہوں نے اس کمزور سی کشتی میں سات‘ آٹھ سو افراد کو ٹھونس دیا۔ سمندر کی طوفانی موجوں کے رحم و کرم پر اُچھلتی اور ہانپتی کانپتی یہ کشتی لیبیا کے ساحلی شہر طبرق سے اٹلی کی طرف جاتے ہوئے یونان کے قریب کھلے سمندر میں ایک جانب کو الٹ گئی جس سے سینکڑوں افراد اوندھے منہ سمندر میں جا گرے جبکہ باقی کشتی کے عرشے سے لٹک کر طوفانی ہوا اور پانی کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ یونانی بحریہ نے کشتی کو ساحل پر لانے کے لیے رسوں کی مدد سے کھینچنے کی کوشش کی؛ تاہم اس کشمکش میں 78سے زائد افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ایک سو کے قریب افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کشتی میں تین سو سے زائد پاکستانی سوار تھے۔ یونان کی حکومت نے ڈوبنے والے تمام افراد کو مردہ قرار دے دیا ہے‘ مطلب ڈوبنے والوں میں لگ بھگ تین سو پاکستانی بھی شامل تھے۔
یونان کے قریب ڈوبنے والی اس کشتی کے پانچ سو افراد کی لاشیں اب تک تلاش نہیں کی جا سکی ہیں۔ ان میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ یونان نے اس واقعے کو تاریخ کاسنگین ترین حادثہ قرار دیتے ہوئے تین دن کے سوگ اعلان کیا ہے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومت نے بھی یومِ سوگ کا اعلان کیا ہے، مگر یہ سوگ صرف یونان یا پاکستان میں ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر اس ملک میں ہونا چاہیے جہاں کے حالات سے تنگ آ کر لوگ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
عالمی کساد بازاری اور جنگوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت مزید تباہ حال ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک یورپ جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد میں چھ سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ تارکین وطن کسی زور زبردستی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اس خطرناک اور جان لیوا سفر پر نکلتے ہیں جس کے بھیانک انجام سے بھی یہ اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر گھریلو مجبوریوں‘معاشی تنگدستیوں یا جدید ممالک کے سنہرے خواب انہیں موت کے اس سفر کو بخوشی قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مرنے والوں میں سے بہت سوں نے یہ راستہ جانتے بوجھتے چنا ہو گا کہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور بہت سے انسانی سمگلر خود ہی مسافروں کو راستے میں بے یارومددگار چھوڑ کر لقمہ اجل بننے پر مجبور کر دیتے ہیں اور خود لاکھوں روپے ایڈوانس لے کر نکل جاتے ہیں۔ ان انسانی سمگلروں کا نیٹ ورک اتنا وسیع اور مضبوط ہے کہ آج تک ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔
کچھ نوجوان بیروزگاری اور کمزور معاشی حالات سے تنگ آ کر یہ قدم اٹھاتے ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ بیرونِ ملک جا کر ہر ایک کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور وہاں ڈالر درختوں پر لگے ہوتے ہیں جنہیں جا کر بس توڑنا اور وطن واپس بھجوانا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ باہر جا کر لگ پتا جاتا ہے اور اکثر ایسے لوگ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جاتے ہیں اور اس نئے جہان میں انہیں نئے مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں اٹھ کر کبھی پانی کا گلاس بھی خود نہ پیا ہو گا لیکن باہر انہیں وہ وہ کام کرنا پڑتے ہیں کہ ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ دوسروں کی کہانیوں اور تبدیل ہوتی زندگیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی گائوں میں اگر کوئی شخص کسی طریقے سے باہر چلا گیا اور اس کے بعد اس کے پیچھے گھر والوں نے اپنا مکان پکا کرا لیا‘ سائیکل کی جگہ گاڑیاں اور چارپائیوں کی جگہ جدید فرنیچر آ گیا‘ دستی پنکھوں کی جگہ ایئرکنڈیشنرز نے لے لی تو ایسی عمدہ زندگی وہاں رہنے والے دیگر افراد کے لیے چبھن اور پریشانی کا باعث بن جا تی ہے۔ پھر اکثر اوقات اپنے ہی گھر سے یہ طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں کا لڑکا باہر جا کر ہر مہینے کے لاکھوں روپے بھیج رہا ہے‘ سب عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ اس نے بہنوں کی شادی بھی کر دی‘ماں باپ کو حج بھی کرا دیا‘سارے کے سارے قرضے بھی اتار دیے اور ایک تُو ہے کہ گھر پڑا چارپائی توڑتا رہتا ہے۔ ایسا نوجوان جب اپنے گھر میں اور اپنے حلقہ احباب اور دوستوں سے یہ سب باتیں سنتا ہے تو پھر چاروناچار یہی سوچتا ہے کہ مرنا تو یہاں بھی ہے کیوں نا ایک کوشش کر لی جائے‘ ممکن ہے قسمت ساتھ دے جائے اور یوں وہ لاکھوں روپے اِدھر اُدھر سے پکڑتا ہے‘ مال ڈنگر بیچتا ہے اور ایجنٹ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق پسماندہ اضلاع سے ہوتا ہے جہاں مقامی طو رپر انہیں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملتے‘ وہ مناسب یا بہتر تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتے اور کاروبار کرنے کے لیے ان کے پاس مطلوبہ سرمایہ نہیں ہوتا اور یوں ان کے پاس اپنی زندگی تبدیل کرنے کا بظاہر ایک ہی راستہ ہوتا ہے جس پر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ چل پڑتے ہیں اور زیادہ تر کا انجام یہی ہوتا ہے جو یونان میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار بدقسمت افراد کا ہوا۔
تاہم انہی پسماندہ علاقوں میں ہمیں ایسی ایسی کہانیاں بھی ملیں گی جو اپنے ہی ملک‘ اپنے ہی علاقوں میں رہ کر یہاں کی معاشی سختیوں کی لہروں کا مقابلہ کرتے رہے‘ جو غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کے بجائے دیگر شہروں کی طرف ہجرت کر گئے اور ان کی محنت اور مسلسل کوشش کی وجہ سے خدا نے یہیں پر ان کیلئے بہتر روزگار کا بندوبست کر دیا۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم ایسی کہانیوں سے متاثر ہوتے ہیں نہ ہی ایسی کہانیاں زیادہ لائم لائٹ میں آتی ہیں۔ دو ر کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں اور بیرون ملک کی ایسی کہانیوں میں چارم اور ڈھول ڈھمکا بھی زیادہ ہوتا ہے؛ تاہم غیرقانونی راستے کی کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی‘ چاہے ملک میں حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ باہر جا کر کرنے والے بہت سے کاموں کو اپنے ملک میں کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہاں پیسے تھوڑے ملیں گے لیکن ملیں گے تو سہی۔ آج کم مل رہے ہیں تو کل زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ہنر سیکھ لیا جائے‘ کوئی ڈگری مکمل کر لی جائے تو باہر عزت اور قانونی راستے کے ذریعے بھی تو جایا جا سکتا ہے۔ کسی ڈگری یا ہنر کے ساتھ‘ باقاعدہ ویزہ لے کر بیرونِ ملک‘ یورپ و امریکہ جانے کا یہ راستہ تھوڑا مشکل ہے‘ کٹھن ہے اور طویل بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کا انجام کم از کم ڈوب کر مرنے اور سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بننے پر نہیں ہو گا۔